Sunday, July 30, 2017

TRANSLATION: Working courts by Dr. Farrukh Saleem

Working courts
فعال عدالتی نظام
پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے بانی اراکین میں شامل چوہدری نثار علی خان کا شمار اُن چند منجھے ہوئے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کے سیاسی قدکاٹھ میں یہ تعارفی جملے اضافہ کرتے ہیں کہ وہ حاضر دماغ رہتے ہیں اور اُن کی عملی و سیاسی زندگی بڑی حد تک شفاف ہے۔ وہ اپنے قول و فعل سے بھی ’صائب الرائے‘ اُور ’صاف گو‘ ہونا ثابت کرتے ہیں۔ اُن کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو قطعی طور پر غلط نہیں ہوگا کہ وہ کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دیانت داری کی روشنی میں وضع کردہ اصولوں پر اکثر کاربند دکھائی دیتے ہیں۔

یادش بخیر کم و بیش 77 سال قبل جرمن فضائیہ نے لندن (برطانیہ) پر بمباری کی‘ اُس وقت برطانیہ کے وزیراعظم سر ونسٹن لیونارڈ سپینسر چرچل (Sir Winston Leonard Spencer-Churchill) تھے جنہیں بتایا گیا کہ ’’جرمنی کے فضائی حملے کی وجہ سے اِس قدر بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں کہ قریب سبھی اقتصادی سرگرمیاں تباہ ہو گئی ہیں۔‘‘ چرچل نے جواباً پوچھا: کیا عدالتیں فعال ہیں؟ جواب ملا کہ ’’جج عدالتوں میں موجود ہیں اور انصاف کی فراہمی (بلاتعطل) جاری ہے۔‘‘ چرچل نے اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ ’’خدا کا شکر ہے‘ اگر عدالتیں فعال ہیں تو (سمجھو) کچھ نہیں بگڑا۔‘‘

سردست پاکستان کو ’داخلی و خارجی محاذوں پر‘ کئی ایک سنجیدہ نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ داخلی طور پر دہشت گردی‘ عسکریت پسندی اور انتہاء پسندی کو کچلنے کے لئے ’رد الفساد‘ نامی فوجی حکمت عملی وضع کی گئی ہے جس کے تحت حال ہی میں ’’آپریشن خیبر فور‘‘ کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔ خارجی طور پر خطرات میں ملک کی مشرقی و مغربی سرحدیں محفوظ نہیں۔ مشرق کی جانب سے بھارت اور مغرب کی سمت سے افغانستان پاکستان کے استحکام و سلامتی کو لاحق خطرات میں اضافے کا محرک بنا ہوا ہے۔ اِن حالات میں اگر ہم عدالت عظمیٰ (سپرئم کورٹ آف پاکستان) کی جانب دیکھیں تو اُس کے پاس اختیار کرنے کے لئے 2 ہی راستے باقی بچے تھے۔ پہلا راستہ تو یہ تھا کہ وہ عدلیہ کی تاریخ دہراتے ہوئے ماضی ہی کی طرح فیصلے کرتی اور دوسرا امکانی راستہ یہ تھا کہ وہ تاریخ ساز فیصلوں کے ذریعے اپنا معنوی وجود بطور حقیقت ثابت کرتی۔ سپرئم کورٹ آف پاکستان نے ایک نئے آئینی عہد کی بنیاد رکھتے ہوئے ’تاریخی ساز فیصلہ‘ کیا ہے۔ خوش آئند (اچھی خبر یہ) ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے اپنے آئینی کردار سے جڑی ذمہ داریوں کا احساس کر لیا ہے اور اپنے آئینی حدود و کردار کے اندر رہتے ہوئے ’احتساب یا سزأ و جزأ (چیک اینڈ بیلنس)‘ کا عمل شروع کر دیا ہے۔ خوشخبری یہ بھی ہے کہ سپرئم کورٹ کے آئینی کردار سے ایک ایسے دور کا خاتمہ ممکن ہوا ہے جو اوّل تا آخر ’بدعنوانی‘ پر مبنی تھا۔ سپرئم کورٹ نے اب ایک موقع (پلیٹ فارم) مہیا کر دیا ہے جو ملک میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بجا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ فعال ہے اور بقول برطانوی وزیراعظم ’’جب تک عدلیہ فعال (انصاف کی فراہمی ہوتی) رہے گی‘ کچھ بھی نہیں بگڑنے والا۔‘‘

آئین پاکستان کی رو سے‘ امور مملکت چلانے میں کسی بھی شخص یا حکومتی ادارے کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز (من مانی) کرے۔‘‘ امور مملکت طے کرنے اور قومی وسائل سے متعلق فیصلہ سازی جیسا اختیار رکھنے والوں کی کارکردگی پر نظر (چیک اینڈ بیلنس) طاقت کے بیجا استعمال‘ مالی و انتظامی بدعنوانیوں اُور استحصال کے اِمکانات کم کرتا ہے۔

ستائیس جولائی (دوہزارسترہ) ایک پاکستانی سیاستدان کو سننے کا موقع ملا اور مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اِس سے قبل کبھی بھی (کم سے کم) کسی پاکستانی سیاستدان کو اِس قدر ’راست گو‘ اور ’اخلاص و دردمندی‘ سے بولتے ہوئے نہیں پایا گیا۔ چوہدری نثار علی خان کے بیان پر صداقت کی وجہ سے وزن اور تاثیر حاوی تھی۔ وہ شفاف طرزعمل کے مالک ہیں۔ انہوں نے ایک تصور (ویژن) پیش کیا۔ اُن کی فی البدیہ تقریر ناقابل تردید واضح حقائق اور مضبوط دلائل پر مبنی تھی۔ اُنہوں نے اپنی سوچ کے واضح ہونے کا مظاہرہ کیا اور ثابت کیا کہ وہ بدنام زمانہ پاکستانی سیاست کرنے کے باوجود بھی کردار‘ اُور اصولوں‘ کے مالک ہیں۔ اُن کی تقریر کی تین خصوصیات مندرج جات‘ ادائیگی اور الفاظ کا چناؤ اپنی جگہ اہمیت و توجہ کا حامل تھا۔

پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت سے اِس قسم کے طرزعمل کی توقع نہیں تھی۔ انہوں نے قوم کو بتایا کہ کس طرح ’خوشامد ‘ کاسہ لیسی‘ مطلب پرستی (sycophancy)‘ پاکستان کی سیاست میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ چوہدری نثار علی خان کی تقریر کا سب سے اہم حصہ وہ تھا جس میں انہوں نے ملک کو لاحق داخلی و خارجی خطرات کا ذکر کیا اور کسی سیاستدان کے منہ سے ملک کو عسکری‘ جوہری‘ دہشت گردی‘ سائبر اور اقتصادی خطرات کا ذکر اِس بات کا ثبوت تھا کہ وہ ذاتی مفادات کے اسیر نہیں بلکہ گردوپیش پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ ایک ایسے شخص کے طور پر اُبھرے ہیں جو ملک کے دو اہم فیصلہ سازوں ’سیاسی و عسکری فیصلہ سازوں‘ کے درمیان شراکت عمل (Synthesis) کا تصور رکھتے ہیں۔

بشری کمزوریاں ہر بشر کی شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں۔ کم یا زیادہ غلطی سرزد ہونا ہم انسانوں کا خاصہ ہے اور میرا خیال ہے کہ چوہدری نثار سے عملی سیاست سے الگ ہونے کا فیصلہ ایسی ہی غلطیوں کی اصلاح کرنے کے جذبے و ضرورت کے تحت کیا ہے۔ وہ پرعزم ہیں اور سیاست کی سیڑھی پر مزید آگے بڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ ایسے رازوں کا ایک خزانہ بھی رکھتے ہیں جن میں انہوں نے سیاستدانوں کو قریب سے دیکھا جو جرائم پیشہ و دہشت گرد عناصر سے تعلق رکھنے کو حکمت عملی کا حصہ (جائز) سمجھتے ہیں۔
مقام صدشکر ہے کہ عدالتیں فعال ہیں۔ یہ ایکنئے دور کا آغاز ہے اور اب پاکستان میں صرف جائز حکمراں ہی حکومت کریں گے۔ طرزحکمرانی کی اصلاح اور بہتر طرز حکمرانی کے قیام کو موقع ملنا چاہئے۔ سیاسی طاقت و اختیارات کا غلط استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے اُور پاکستان سے ہرقسم کی بدعنوانیوں کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

2 comments:

  1. Nisar was candid and transparent. He demonstrated vision and clarity. He appeared a man of character, integrity and principles.

    Seventy-seven years ago, the Luftwaffe of the Third Reich (the German Air Force) began bombing London. Seventy-seven years ago, Sir Winston Leonard Spencer-Churchill, prime minister of the United Kingdom, was being briefed on the “death and destruction and how almost all economic activity had collapsed”.

    Churchill asked, “Are the courts functioning?” Churchill was told that the “judges were present in the courts and dispensing justice”. Churchill replied, “Thank God. If the courts are working, nothing can go wrong.”

    ReplyDelete
  2. Pakistan is up against serious challenges – both internal and external. Internally, there’s Operation Raddul Fasaad and Operation Khyber-4. Externally, there’s General Bipin Rawat in the east and the National Directorate of Security in the west.

    Our Supreme Court had two choices: to repeat history or to write history. The Supreme Court wrote history. The good news is that Pakistan’s judiciary has now assumed its prescribed constitutional role-check and balance. The other good news is that the Supreme Court has ended an era – a thoroughly corrupt era. The Supreme Court has now provided a platform for change. Yes, Pakistan’s judiciary is working and as long as the “courts are working, nothing can go wrong.”

    Under the constitution, the business of the state is to be run under a system of ‘checks and balances’ within a “mechanism designed to limit power of a single individual or body of government”. Checks and balances are “intended to allow legitimate power to govern and good ideas to be implemented, while abuse of power, corruption, and oppression are minimised”.

    On Thursday, I heard a Pakistani politician speak. And I have never heard a Pakistani politician speak the way he did last Thursday. Chaudhry Nisar was candid. He was transparent. He demonstrated vision. His speech was vivid and concrete. He demonstrated clarity of mind. He appeared a man of character. He appeared a man of integrity. And he appeared a man of principles. His speech had content, delivery and the right language – three in one.

    I admit that I had somehow lost confidence in our political elite. Yes, he has restored at least some of my lost confidence. He told us how sycophancy has gained a central role in our politics. His message was about our political bankruptcy. He told us how easy it had become for stooges and sycophants to secure top berths within the PML-N (or any other political party for that matter). He told us how sycophancy within the PML-N had become a measure of political accomplishment.

    The best of all is that he appeared to be a politician who really understands Pakistan’s rather complex threat matrix (military, nuclear, terrorist, cyber and economic). He seems to be a man with a plan: his civil-military synthesis. The civil-military synthesis model is the one that the entire civilised world utilises to achieve success. Pakistan can do the same.

    Yes, the man has faults; we all do – some more, others less. I think he erred by committing to quit politics. Yes, I think he is ambitious. Yes, I am convinced that he has a strong desire to climb up the political ladder. And, yes, he is known to keep company with elements with declared affinity to the use of terror for political ends.

    Thank God. The courts are working. It’s the dawn of a new era. Only legitimate power should govern. Let good ideas be implemented. End abuse of power. End corruption.

    ReplyDelete