Sunday, July 30, 2017

July 2017: Panama verdict is clear but on the same time unclear about the disqualification time frame!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تاحیات نااہلی؟
کسی کو سمجھ آئے یا نہ آئے لیکن ’پانامہ کیس فیصلے‘ کے بارے میں اَمریکہ کی جانب سے تبصرہ معنی خیز بھی ہے اور شاید ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی اقتدار کے آئینی طریقے سے خاتمے میں امریکہ کا براہ راست عمل دخل نہیں رہا لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ایک اسلامی جوہری اور چین ایران و افغانستان سے جٖغرافیائی زمینی سرحدی تعلق رکھنے والے پاکستان کے داخلی معاملات سے اَمریکہ خود کو الگ رکھے؟

محتاط امریکی مؤقف یہ ہے کہ ’’پانامہ کیس پاکستان کا اَندرونی معاملہ ہے۔ پاکستانی عوام کی منتخب پارلیمنٹ نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے گی تو ہم اقتدار کی ہموار (پرامن) منتقلی کے خواہش مند ہیں۔‘‘ درحقیقت پاکستان کی خواہش صرف ’اقتدار کی ہموار منتقلی‘ کی حد تک محدود نہیں بلکہ عوام یہ بھی چاہتی ہے کہ ایک اسلامی ریاست کے حکمران اپنے ملک اور دنیا کے لئے کردار کی عملی مثال بھی ہوں۔ پاکستان اور پاکستانی پاسپورٹ کا وقار بحال ہو یقیناًعالمی سطح پر ’سیاسی تنہائی‘ خودکشی ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے سوأ آج کی دنیا میں اپنا قومی و عالمی اہداف و مفادات حاصل کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تو صرف حکمران نہیں بلکہ ایک ایسا طرز حکمرانی چاہئے جو مشکوک نہ ہو۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ جمہوریت کو کمزور کرنے اور اِسے نقصان پہنچانے میں سب سے زیادہ ہاتھ ’سیاسی جماعتوں کے اُن شرمناک کرتوتوں کا ہے‘ جو پانامہ کیس اور اِس سے متعلق ضمنی تحقیقات کے دوران سامنے آئے! اقتدار ملنے کے بعد عوام کے خادم ’بادشاہ‘ بن جاتے ہیں۔ قانون اور قواعد کو جوتے کی نوک اور قومی اداروں کو کمزور کیا جاتا ہے تاکہ اُن سیاست کی آڑ میں بدعنوانی کا دھندا چلتا رہے۔ یہی سبب ہے کہ نہ تو عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینا کسی عام آدمی (ہم عوام) کے لئے ممکن رہا ہے اور نہ ہی سیاست شرفاء کو زیب دیتی ہے کہ جس کسی کو اپنا شجرہ (حسب نسب) معلوم کرنا ہو‘ وہ عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لے!

بنیادی سوال یہ ہے کہ سپرئم کورٹ (عدالت عظمیٰ) کے پانچ رکنی لارجر بینچ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل باسٹھ ایک کی ذیلی شق ’ایف‘ کے تحت نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دیئے جانے کے بعد ’’کیا سابق وزیراعظم ’’تاحیات نااہل‘‘ ہوگئے یا کچھ عرصے بعد وہ پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے دوبارہ ملک کی سیاسی برادری کا حصہ بن سکتے ہیں؟‘‘ 

اِس سوال سے متعلق اندرون و بیرون ملک معاشرے کی ہر سطح پر بحث جاری ہے اور اظہار خیال کرنے والوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ سب کے سب اُلجھن کا شکار نظر آتے ہیں اور قانونی ماہرین بھی دو واضح حصوں میں تقسیم ہیں‘ اتفاق اگر ہے تو اِس بات پر کہ یہ معاملے طویل عرصے سے ملتوی کیا جارہا ہے‘ جس کا تعین بہرحال ضروری ہے۔ دیکھا جائے تو سپرئم کورٹ کے لارجر بینچ کے سامنے کئی ایسے مقدمات موجود تھے جن میں اہم نکتہ اس بات کا تعین کرنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ کے تحت ہونے والی ’’نااہلی‘‘ کیا ہمیشہ برقرار رہتی ہے یا نہیں۔ ان مقدمات میں ثمینہ خاور حیات اور محمد حنیف کا مقدمہ بھی شامل تھا۔ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی اسی نوعیت کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ’’حیرت کا اظہار‘‘ کیا تھا کہ آئین کی شقیں باسٹھ اور تریسٹھ کی بنیاد پر کسی شخص کو عمر بھر کے لئے عام انتخابات کا حصہ بننے سے ’’نااہل (الگ)‘‘ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اگر کسی سے غلطی ہوئی اور وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف جرمانہ بلکہ لوٹی ہوئی قومی دولت بھی واپس کرنے کے لئے تیار (آمادہ) ہو تو ایسے نااہل فرد کے لئے دوبارہ عام انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت ہونی چاہئے چونکہ یہ ایک قانونی و آئینی مسئلہ ہے اور اِس کے لئے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی جو سپرئم کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں۔ سپرئم کورٹ آئین کے مطابق فیصلہ بطور حکم صادر سکتی ہے وہ عوام یا کسی سیاسی جماعت کا مستقبل بچانے کے لئے اپنے طور پر کچھ نہیں کر سکتی! اگر ہم پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے (سابق وزیراعظم) یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کو سامنے رکھیں جو کہ اُنیس جون دوہزار بارہ کو توہینِ عدالت کے جرم میں آرٹیکل تریسٹھ کے تحت نااہل ہوئے تھے تو اُن کی نااہلی (سزا) کی مدت پانچ برس تھی۔ آئین کی شق باسٹھ اِس بارے میں خاموش ہے اور عجب ہے کہ اِس کے تحت کوئی بھی شخص ’نااہل‘ قرار تو دیا جاسکتا ہے لیکن نااہلی کی مدت کا ذکر آئین میں واضح یا ضمنی طور پر نہیں کیا گیا۔ اِسی لئے وکلاء اپنی اپنی مہارت (قانونی موشگافیوں) کا استعمال کرتے ہوئے ماضی کے اُن فیصلوں کو کھوج کھوج اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکال رہے ہیں جن کے تحت ’نواز لیگ‘ کی قیادت اور شریف خاندان کو تاحیات نااہلی سے بچایا جا سکے۔ خود عدالت عظمیٰ کے سامنے ایسے کئی مقدمات التوأ کا شکار ہیں‘ جن میں تعین کرنا ہے کہ آئین کی شق باسٹھ کا اطلاق صرف موجودہ ضمنی عام انتخاب پر ہوگا یا یہ نااہلی ہمیشہ برقرار رہے گی!

اٹھائیس جولائی دوہزار سترہ کے تاریخی دن ’پانامہ کیس‘ کے فیصلہ میں سپرئم کورٹ نے نواز شریف کی نااہلی کی وجوہات پیش کرکے منتخب نمائندوں کی نااہلی کی حد کو اس حد تک نیچے کردیا ہے کہ اِس سے مستقبل کی سیاست میں سوائے صداقت و امانت کسی دوسری شے کی گنجائش نہیں رہی! 
دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد عدلیہ مضبوط ہوئی ہے اور اُس عوامی منتخب پارلیمینٹ کے اکثریتی اراکین کے چہروں کا رنگ اُڑ گیا ہے جن کا ماضی و حال اور ہاتھ صاف نہیں۔ خود کئی پارلیمانی رہنما ایسے ہیں جن کی اہلیت (پانامہ کیس کے فیصلے کی روشنی میں) خطرے میں پڑ گئی ہے! 

آئین کی شق باسٹھ اگر خاموش ہے تو اِس کا مطلب یہی ہے کہ نااہلی تاحیات تصور کی جائے اُور اِس نتیجۂ خیال کے لئے ’’عبدالغفور لہری کیس‘‘ کی مثال موجود ہے جس میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے واضح کیا تھا کہ کچھ نااہلیوں کی نوعیت وقتی ہوتی ہے اور آرٹیکل تریسٹھ کے تحت نااہل ہونے والا شخص کچھ وقت بعد واپس اہل ہوسکتا ہے لیکن (تاہم) آرٹیکل باسٹھ کے تحت نااہلی دائمی ہوتی ہے۔ آرٹیکل باسٹھ کے تحت نااہل ہونے والے شخص کی نااہلی کی مدت متعین نہیں جس کے بعد وہ پارلیمانی انتخابات کا اہل ہوسکتا ہو۔ پانامہ کیس میں چونکہ نواز شریف ’’صادق اور امین‘‘ نہ ہونے کی بنیاد پر ’نااہل‘ ہوئے ہیں اِس لئے یہ نااہلی تاحیات رہے گی اُور اُمید ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما سمجھ لیں گے کہ پاکستان میں اِحتساب (شفاف طرز حکمرانی) پر سمجھوتہ نہیں ہوگا اُور بالخصوص ’پانامہ کیس فیصلے کے بعد‘ صادق و امین رہنے کے سوأ ’سیاست دانوں‘ سمیت کسی بھی سطح پر قومی وسائل اور فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والوں کے پاس دوسرا کوئی چارہ (راستہ) نہیں رہا۔

No comments:

Post a Comment