Thursday, July 13, 2017

July 2017: Roundup: Political Situation of NA17

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
این اے سترہ: دانشمندانہ فیصلے!
منظرنامہ تبدیل ہے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد سے لیکر ’مئی دوہزار تیرہ‘ کے عام انتخابات تک کے سفر میں ’اہل ہزارہ‘ نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا۔ ناقابل تردید حقیقت یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف ہی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے نسل در نسل منتقل ہونے والی ’حب الوطنی‘ کا ناجائز فائدہ اُٹھانے والوں کے چہروں سے نقاب اُلٹا‘ اور ہزارہ سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی کے ساتھ ’سیاسی تبدیلی‘ کے پہلے مرحلے کو خوش اسلوبی سے طے کیا۔ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے موقع پر ’این اے سترہ‘ ایبٹ آباد ون‘ کی نشست بطور خاص مرکز نگاہ تھی‘ جہاں سے تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی کے جملہ محرکات میں نامزد اُمیدوار ’ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون‘ کی بے لوث سماجی و طبی خدمات‘ ہزارہ کے حقوق کے لئے ایک دہائی پر محیط سیاسی جدوجہد اُور جدون خاندان کا ’اَثرورسوخ‘ بھی شامل تھا‘ جس کی بدولت مسلم لیگ (نواز) کے 69 ہزار 568 ووٹوں کے مقابلے ڈاکٹر اظہر نے 96 ہزار 185 ووٹ حاصل کرکے ایک ایسی تاریخی کامیابی حاصل کی‘ جس کی پورے ہزارہ ڈویژن میں مثال نہیں تھی اُور یہ فتح صرف انتخابی کامیابی کی حد تک ہی محدود نہ سمجھی جائے بلکہ اُس وقت مسلم لیگ (نواز) کی ہزارہ سیاست سے پاؤں اکھاڑ دیئے گئے تھے۔ اے کاش کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت چار سالہ دور میں ’این اے سترہ‘ پر حاصل انتخابی کامیابی کی اہمیت کا ادراک کر سکتی اور اِس نشست سے وابستہ صوبائی اسمبلی کے چار حلقوں پر اگر مقامی کارکنوں کو خاطرخواہ اہمیت دیتی‘ تنظیم سازی اور ترقیاتی حکمت عملی میں ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے تحریک کے ’سیاسی مستقبل‘ کو مدنظر رکھا جاتا تو آج صورتحال زیادہ موافق ہوتی! جون دوہزار چودہ میں ہوئے صوبائی اسمبلی کی نشست ’پی کے پینتالیس‘ کے ضمنی انتخابی مرحلے میں اگر کسی مقامی اُمیدوار کو تحریک نامزد کرتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ مسلم لیگ (نواز) کو آٹھ یونین کونسلوں پر مشتمل سرکل بکوٹ کے اِس اہم حلقے پھر سے پاؤں جمانے کا موقع مل سکتا!

مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد ایبٹ آباد سے منتخب ہونے والے مشتاق احمد غنی (پی کے چوالیس)‘ قلندر خان لودھی (پی کے چھیالیس)‘ سردار ادریس (پی کے اڑتالیس) اُور ڈاکٹر اظہر جدون (این اے سترہ) نے نہایت ہی رازداری سے ایسی حکمت عملی اختیار کی‘ جس کی وجہ سے ’تحریک انصاف‘ کی مخالفت کے آگے بند باندھنے میں کامیابی حاصل ہوئی اور اِسی ’’حکمت عملی کا ثمر‘‘ تھا کہ مئی دوہزار پندرہ میں ہوئے یہاں سے ’بلدیاتی انتخابات‘ کے نتائج تحریک انصاف کے حق میں رہے لیکن واضح برتری کے باوجود اگر تحریک انصاف تاحال اپنی ضلعی حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تو اِس کے درپردہ سازشوں میں ’بدنیتی‘ سیاسی مخالفت (غیرجمہوری روئیوں)‘ کے سوأ کوئی دوسرا محرک کارفرما نہیں۔ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح ’ایبٹ آباد‘ کو بھی اِس ’’جرم‘‘ کے لئے سزا دی گئی کہ اِس نے مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات اور بعدازاں مئی دوہزار پندرہ کے بلدیاتی انتخابات میں ’تحریک انصاف‘ کو ووٹ کیوں دیا!

تحریک انصاف کے خلاف ضلع ایبٹ آباد میں سازشوں کی کمی نہیں اور اِس بات کا کماحقہ ادراک مرکزی و صوبائی قیادت کو کرنا ہوگا کہ اگر اُنہوں نے آئندہ عام انتخابات میں ایبٹ آباد کے کسی ایک بھی حلقے سے غیرمقامی اُمیدوار نامزد کیا تو انتخابی معرکے میں شکست ملے گی۔ عیدالفطر کے فوراً بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے منسوب یہ بیان تحریک انصاف کے کارکنوں میں تشویش کا باعث بنا ہوا ہے کہ ’’وہ بذات خود ’این اے سترہ‘ کے لئے اُمیدوار ہیں!‘‘ ماضی میں ایسے ہی یک طرفہ اور غلط فیصلوں کی وجہ سے نہ صرف ہزارہ بلکہ دیگر اضلاع میں تحریک انصاف کو انتخابی شکست ہوئی جیسا کہ ’این اے ون‘ اور ’پی کے پینتالیس‘ کی مثالوں (حاصل نتائج) سے عیاں ہے!

تحریک انصاف کی مخالف سیاسی قوتیں پہلے سے زیادہ متحد ہیں اور بالخصوص جوں جوں ’پانامہ کیس‘ اپنے منطقی انجام کے قریب پہنچ رہا ہے‘ تحریک مخالف ’اِنتخابی اتحاد‘ بن رہے ہیں! سیاسی بصیرت‘ دانشمندی اور موجودہ نازک گھڑی میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے اور خوب تول کر بولنے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی و صوبائی قیادت آئندہ عام انتخابات سے متعلق قبل ازوقت بیانات نہ دے کیونکہ بیانات سے مخالفین کو منصوبہ بندی اور پیش بندی کرنے کا موقع ملتا ہے جبکہ غیرضروری بیانات داغنے سے مقامی کارکنوں اور قیادت پر بھی دباؤ بڑھ جاتا ہے کیونکہ تحریک کے قائد سے منسوب بیان کا سیاق و سباق مقامی قیادت کو معلوم نہیں ہوتا اور بیانات کا دفاع یا وضاحت کرتے ہوئے غلطی کا اندیشہ رہتا ہے۔ دوئم انتخابی حکمت عملی پر مشاورت کئے بناء کوئی بھی ایسا فیصلہ صادر نہ کیا جائے‘ جس سے بعدازاں رجوع کرنا پڑے۔ سوئم کسی بھی سیاسی جماعت کا سب سے بڑا اثاثہ اُس کے کارکن ہوتے ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات میں تحریک انصاف کی تنظیم سازی مکمل کرنا اوّلین ترجیح ہونی چاہئے۔ خواتین نوجوانوں اُور رضاکاروں کی منظم و فعال تنظیمیں ہی آئندہ عام انتخابات میں کارآمد و کارگر ثابت ہو سکتی ہیں۔ اگر تحریک انصاف اب انتخابی تیاریاں شروع نہیں کرتی تو یہ کب کرے گی؟ چوتھی ضرورت یہ ہے کہ ضلع ایبٹ آباد کی سطح پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور نمائندہ اداروں (پریس کلبس اور یونین) کے درمیان دھڑے بندیاں ختم کرنے میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کردار ادا کرے‘ کیونکہ اِس دھڑے بندیوں کا بھرپور فائدہ تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین اُٹھا رہے ہیں اور بالخصوص مقامی اخبارات کو ’منفی پراپگنڈے‘ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ 

خیبرپختونخوا حکومت کے پاس مالی وسائل بھی ہیں اور ایسے آئینی اختیارات بھی جن کے ذریعے ’پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا‘ کی پیشہ ورانہ اِستعداد میں اضافہ اور وقتی مفادات پر مبنی سوچ کی اصلاح ممکن ہے۔ پریس کلبوں اور یونین سے غیرمتعلقہ افراد کا اخراج‘ صحافت کی اہمیت اور شعور اُجاگر کرنے سے باآسانی ممکن ہے۔ افراد کی بجائے اگر اداروں کو مضبوط کیا جائے تو اس سے نہ صرف تحریک انصاف کو وقتی فائدہ ہوگا بلکہ جمہوریت کے لئے بھی یہی نیک شگون ہے کہ ’’جرائم‘ سیاست اور صحافت‘‘ کے درمیان گٹھ جوڑ ختم کیا جائے۔ غیرجانبدار اُور غیرسیاسی میڈیا کسی ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ سبھی کے مفاد میں ہے۔ سوشل میڈیا پر اِنحصار کرنے والی ’تحریک اِنصاف‘ دیگر ہم عصروں سے پہل کرتے ہوئے جماعتی سرگرمیوں پر مبنی اخبار اور ٹیلی ویژن چینل بھی متعارف کرا سکتی ہے جس سے غیرمصدقہ بیانات اور اِن کی آڑ میں سازشیں کرنے والوں کا مقابلہ اور توڑ کیا جاسکتا ہے۔ وقت ہے کہ انتخابات کی بجائے سیاست میں سرمایہ کاری کی جائے۔ 

ایبٹ آباد کے مقامی سیاسی حالات‘ خاندانوں کے اثرورسوخ اور تحریک انصاف کے موجودہ منتخب نمائندوں (مشتاق غنی‘ قلندر لودھی‘ سردار ادریس اُور ڈاکٹر اظہر) کی دامے درہمے سخنے کوششوں کو معمولی نہ سمجھا جائے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے پاس ’غلطی کی گنجائش‘ نہیں رہی اور اگر ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی ’جذباتی اُور مزید غلط فیصلے‘ کئے گئے تو تحریک انصاف کم سے کم ایبٹ آباد کی سطح پر آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کا ’نادر موقع‘ ہمیشہ کے گنوا دے گی۔
Reasons why Imran Khan should not context election from NA-17 Abbottabad I in upcoming Geenral Elections

No comments:

Post a Comment