Sunday, July 9, 2017

July2017: Examination is the key to measures the Public Schools Standard, performance & Education Reforms in #KP

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعلیمی پالیسی: ثمرات بصورت نتائج!

خیبرپختونخوا میں ’تعلیمی اَیمرجنسی‘ کے نفاذ اُور ’انقلابی اِصلاحات‘ کی شرح کامیابی جاننے کے لئے ’امتحانی نتائج‘ سے زیادہ بہتر کوئی دوسری ’غیرمتنازعہ‘ کسوٹی نہیں ہو سکتی۔ سرکاری ہوں یا نجی‘ تعلیمی اِداروں کی کارکردگی اُور معیار تعلیم ’امتحانی بورڈز کی زیرنگرانی سالانہ امتحانات‘ ہی ہو سکتے ہیں۔ رواں ہفتے (پانچ جولائی کے روز) پشاور کے امتحانی بورڈ نے ’سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ (میٹرک)‘ کے سالانہ نتائج کا اعلان کیا جس میں سرکاری و نجی تعلیمی اداروں سے کل ایک لاکھ اُنچاس ہزار دو سو بارہ طلباء و طالبات نے حصہ لیا اور مجموعی طور پر کامیاب ہونے والوں کی شرح 65فیصد رہی لیکن اِس معلوم خبر میں یہ تلخ حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے جن تعلیمی اصلاحات کا ’زور و شور‘ سے ذکر کیا تھا‘ اُن کے ’ثمرات بصورت نتائج ظاہر نہیں ہوسکے‘ اُور اگر ہم سرکاری بمقابلہ نجی سکولوں کے امتحانی نتائج کا موازنہ کریں تو نویں اور دسویں (میٹرک) کلاسوں کے لئے ’ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ پشاور (انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ)‘ کے حالیہ اِمتحانات (برائے سال دوہزارسترہ) میں کوئی ایک بھی سرکاری سکول سے وابستہ طالب علم ’ٹاپ پوزیشنیں‘ حاصل نہیں کرسکا یعنی باوجود کوشش بھی نمایاں نمبروں کے ساتھ کامیابی حاصل نہ کرنے والوں میں بڑی تعداد سرکاری سکولوں کے طلباء و طالبات کی ہے تو کیا یہ المیہ محض ’حسن اتفاق‘ یا صوبائی حکومت کے خلاف سازش (سیاسی چال) قرار دے کر نظرانداز کر دی جائے؟ 

سبھی نمایاں پوزیشنیں نجی تعلیمی اداروں کے حصے میں آنے کا دباؤ کالج کی سطح پر تعلیمی نظام پر پڑے گا! ذرا سوچئے کہ کہ ایک جیسا نصاب تعلیم اور ایک جیسے اوقات کار رکھنے کے باوجود بھی نجی سکولوں کی انتظامیہ اور اساتذہ نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کیں جبکہ سرکاری سکولوں کی نگران وزارت‘ مشیروں (نجی کنسلٹنٹس)‘ متعلقہ محکمہ اور سکولوں کے انتظامی عہدوں پر فائز لائق فائق و ماہرین تعلیم کا لقب رکھنے والوں کی کارکردگی ’مایوس کن‘ رہی لیکن چونکہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا اِس لئے نہ تو شرمندگی کا احساس ہے اور نہ ہی اِس قسم کے نتائج پر کوئی صاحب ضمیر مستعفی ہونے کا اعلان کرے گا۔ 

ذرائع ابلاغ میں سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہتر و نمایاں بنانے کا دعویٰ کروڑوں روپے خرچ کرکے شائع کیا گیا لیکن یہ تمام ’شور شرابہ‘ (نمائشی اقدامات) بھی کام نہ آ سکے اُور سب زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سرکاری سرپرستی و نگرانی میں ’شعبۂ تعلیم‘ کی بہتری کے لئے ہر سال پہلے سے زیادہ مالی وسائل مختص کرنے کے باوجود بھی خاطرخواہ ’امتحانی نتائج (ثمرات)‘ اگر حاصل نہیں ہو رہے تو دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ غلطیوں سے رجوع کر لیا جائے اُور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ذمہ داروں کا بناء جھجک تعین کیاجائے۔ سرکاری سکولوں کی حکمت عملی پر نظرثانی الگ سے ضروری ہے کیونکہ اگر نجی سکول کم مالی وسائل کے باوجود بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں تو سرکاری سکولوں کو بھی ٹھیکے پر دیا جا سکتا ہے جس پر مالی خرچ بھی کم آئے گا اور نتائج (حاصل وصول) بھی اثاثہ قرار پائیں گے۔ 

ظاہر ہے کہ ایسا کرنے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی کیونکہ آئین پاکستان کے تحت معیاری تعلیم کی فراہمی حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور بس یہ ذمہ داری بناء معیار آئین کی حد تک محدود دکھائی دیتی ہے!
امتحانی بورڈ کے نتائج میں سرکاری سکولوں کی ’خراب کارکردگی‘ پر ہر طرف سکوت طاری ہے۔ محکمۂ تعلیم کے غیراعلانیہ ترجمانی کرنے والے موسم گرما کی تعطیلات پر چلے گئے ہیں اور سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کا دفاع کرنے والوں کو بھی الفاظ نہیں مل رہے کہ وہ کس طرح (کس منہ سے) صوبائی دارالحکومت پشاور کے سرکاری سکولوں کو ’خراج تحسین‘ پیش کریں جن کی اپنی جگہ یہ کامیابی بھی غیرمعمولی ہے کہ اُنہوں نے کم سے کم طلباء و طالبات کو امتحان کے مراحل تک پہنچایا‘ اب آگے اُن کی قسمت! یادش بخیر سال دو ہزار آٹھ میں قائم ہونے والی اپنی نوعیت کی منفرد اور 342 کے قانون ساز معزز قومی اسمبلی ایوان میں صرف ایک نشست رکھنے والی مقبول ترین سیاسی تجزیہ کار جماعت ’’عوامی مسلم لیگ‘ کے سربراہ شیخ رشید احمد جب وفاقی وزیر برائے کھیل تھے تو پاکستان کی نمائندگی کرنے والی تیراکی کی ایک ٹیم عالمی مقابلوں میں آخری پوزیشن پر آئی۔ ایک صحافی نے شیخ رشید سے اِس انتہائی خراب کارکردگی کے بارے راہ چلتے سوال کیا تو اُنہوں نے سوچ رکھا تھا اور آن کی آن میں جواب صادر فرمایا کہ ’’شکر کرو ہمارے تیراک تالاب میں ڈبکی لگانے کے بعد ڈوب نہیں گئے۔ اگر تیراکی کے مقابلے میں حصہ لینے والے ڈوب جاتے تو سوچو کہ کتنی جگ ہنسائی ہوتی!؟‘‘

 پشاور بورڈ کے امتحان میں ناکامی کوئی پیمانہ نہیں شکر ادا کرنا چاہئے کہ کم نمبروں ہی سے سہی لیکن ایک تعداد میں سرکاری سکولوں کے طلباء و طالبات کامیاب تو ہو ہی گئے ہیں۔ اب صوبائی حکومت کے لئے مسئلہ یہ ہوگا کہ اِنتہائی کم نمبر حاصل کرنے والوں کو مزید تعلیم جاری رکھنے کے لئے کن کالجوں میں بناء میرٹ داخلہ دیا جائے! 

کیا خیبرپختونخوا کو سرکاری سرپرستی کی طرح نجی شعبے میں بھی زیادہ تعداد میں ’وکیشنل انسٹی ٹیوٹس (فنی تعلیم و تربیت کے اداروں)‘ کی ضرورت نہیں؟ 

اگر تحریک انصاف اتنے سارے ہنگامے اور اصلاحاتی شورشرابے کی بجائے نہایت ہی سادگی سے خیبرپختونخوا کے سات ڈویژنوں (مالاکنڈ‘ ہزارہ‘ مردان‘ پشاور‘ کوہاٹ‘ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان) میں صرف ایک ایک ’ماڈل سکول‘ ہی بنا لیتی تو چار سالہ کارکردگی میں کم سے کم پانچ ہزار ایسے طلباء وطالبات کی عملی مثال آج پیش کی جا سکتی تھی‘ جنہوں نے سرکاری سکولوں سے استفادہ کرتے ہوئے نجی سکولوں کے مقابلے نمایاں پوزیشنیں حاصل کی ہوتیں۔ تبدیلی نیک نیتی‘ سوچ بچار اور نمائش سے نہیں آتی بلکہ کسی طویل مسافت کو طے کرنے کے لئے پہلا قدم اُٹھانا سب سے زیادہ اہم اور ضروری ہوتاہے۔ تعلیمی اصلاحات و ترجیحات کے تعین جہاں جہاں کوتاہی ہوئی‘ آئینی مدت کے آخری سال میں اُس کی 100فیصد اصلاح تو اگرچہ ناممکن ہے لیکن ’ہمت مرداں‘ مدد خدا۔‘

No comments:

Post a Comment