Wednesday, August 23, 2017

August 2017: Defeating the Dengue. a challenge!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ڈینگی: اُداسیاں مقدر کیوں!؟

پشاور کو خدا جانے کس کی نظر لگ گئی ہے کہ ایک کے بعد ایک مصیبت ’پھولوں کے شہر‘ میں ڈیرے ڈال رہی ہے۔ وہ سبھی قدرتی آفات جو ماضی میں صرف دستک دے کر گزر جاتی تھیں‘ اب کے ’در‘ آئیں ہیں اُور ’ڈینگی بخار‘ نے تو محکمۂ صحت کی کارکردگی کا گویا بھانڈا ہی پھوڑ دیا ہے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ قدرتی آفت جیسے اِمتحان کی صورت جس کسی بھی سرکاری محکمے سے واسطہ پڑتا ہے تو اس کی کارکردگی سے سوائے مایوسی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ موجودہ صورتحال سے اگر سیاست کو الگ کر کے دیکھا جائے تو پنجاب حکومت کی جانب سے طبی و تکنیکی امداد کی فراہمی کی بدولت ’ڈینگی‘ سے متاثرہ مریضوں تک علاج معالجے کی سہولیات پہنچانا عملاً ممکن ہوا ہے بصورت دیگر صوبائی حکومت تو ایسی کسی وباء کی موجودگی ہی سے انکاری تھی۔ بائیس اگست کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے ڈینگی سے ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو فی کس پانچ پانچ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا جبکہ پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ضلع پشاور میں ڈینگی کی وباء‘ علاج معالجے کی صورتحال اُور متعلقہ سرکاری اِداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے مقدمے کی سماعت کے دوران ’عدم اطمینان‘ کا اِظہار کیا۔ اگرچہ کیس کی سماعت ’24 اگست‘ تک ملتوی کر دی گئی ہے تاہم اِس بات کا امکان کم ہے کہ آئندہ چند روز میں ’ڈینگی کی وباء‘ پر قابو پا لیا جائے گا‘ جو ایک علاقے سے پھیلتے ہوئے پشاور کی کم سے کم پانچ یونین کونسلوں اور دیگر متعدد علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ دس روز میں عیدالاضحیٰ کا مذہبی تہوار آنے والا ہے‘ جس کی سرکاری تعطیلات شروع ہونے سے رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔ صوبائی کابینہ کے اراکین جو فی الوقت ڈینگی کے حوالے سے صورتحال کا نوٹس لئے ہوئے ہیں اور سرکاری اطلاعات پر اگر اعتبار کیا جائے تو وزیراعلیٰ کو یومیہ بنیادوں پر ’ڈینگی صورتحال سے متعلق بریفنگ‘ دی جا رہی ہے! پشاور کی تین بڑی سرکاری ہسپتالوں (حیات آباد میڈیکل کمپلیکس‘ خیبر ٹیچنگ اُور لیڈی ریڈنگ) میں ڈینگی کے مریض زیرعلاج ہیں لیکن اِن ہسپتالوں کے وسائل پر پہلے ہی ضرورت سے زیادہ مریضوں کا بوجھ ہے۔ 

ہسپتالوں کی وارڈوں‘ راہداریوں‘ کارپارکنگ‘ گردونواح میں صفائی کی صورتحال اور بدبو (تعفن) اِن اربوں روپے بجٹ رکھنے والی ہسپتالوں کے قطعی شایان شان نہیں! ڈینگی وائرس کے کسی اِنسان سے اِنسان میں منتقلی کا عمل ایک خاص مچھر کے ذریعے مکمل ہوتا ہے لیکن جب ہم ہسپتالوں کے اندر مکھیوں اُور مچھروں کی بھرمار دیکھتے ہیں جہاں ڈینگی کے مریض بھی زیرعلاج ہیں تو ہر مچھر اور ہر مکھی سے خوف آنا ایک فطری عمل ہے۔ اِس پورے منظرنامے میں پشاور کی ضلعی حکومت کے سربراہ (ناظم) کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے جنہوں نے چند اِجلاسوں کی صدارت کے دوران اپنی تشویش کا اظہار کیا جو بیماری سے متاثرہ اور ممکنہ خوف محسوس کرنے والے اہل پشاور کی تسلی و تشفی کے لئے یقیناًکافی نہیں اُور نہ ہی اُن کے عہدے (نظامت) کے شایان شان ہے۔

پشاور میں ڈینگی کی وباء پر ’عالمی اِدارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن)‘ نے بھی اپنی تشویش کا اِظہار کیا ہے۔ سری لنکا کے دورے میں ’اقوام متحدہ کے اِس ذیلی ادارے‘ کے چند اراکین سے ملنے کا اتفاق ہوا‘ جو بالخصوص ’ڈینگی‘ کو شکست دینے کے لئے دارالحکومت ’کولمبو‘ میں اپنا مرکزی آفس بنائے ہوئے تھے۔ یکم جنوری سے سات جولائی دوہزار سترہ تک سری لنکا میں ’ڈینگی سے متاثرہ 80ہزار 732‘ اَفراد اُور 215 اَموات ایک ایسا چیلنج ہے‘ جو حکومت اُور عالمی اِداروں کے لئے یکساں پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ ’سال دوہزار دس‘ سے ڈینگی کا منظم مقابلہ کرتے ہوئے سری لنکا میں صفائی کی صورتحال بہتر بنائی گئی جس سے اِس مرض پر قابو پانا ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ 

بیرونی قرضہ جات کی وجہ سے جزیرہ ’سری لنکا‘ کی معیشت پاکستان سے بھی کمزور ہے اور وہاں کی وفاقی و صوبائی حکومتوں کے پاس مالی وسائل پاکستان کے مقابلے نصف سے بھی کم ہیں لیکن اُنہوں نے صفائی کی صورتحال بہتر بنانے اور ڈینگی کے بارے میں عوامی شعور میں اِضافے سے وہ اہداف حاصل کئے ہیں‘ جو دنیا کے دیگر ممالک کے لئے مثال ہیں اور جن کے مطالعے سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ سری لنکا کے تجربات رکھنے والے ’عالمی ادارۂ صحت‘ نے پشاور میں ڈینگی کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ڈینگی وائرس پھیلنے کی وجہ گھروں کی چھتوں پر پانی ذخیرہ کرنے والی وہ ٹینکیاں بھی ہیں‘ جن میں سے اکثر کو ڈھانپا نہیں جاتا اور نہ ہی سالہا سال اُن کی صفائی کی جاتی ہے۔ گھر کی تعمیر کے وقت نصب ہونے والے پلاسٹک کے یہ ’’واٹر ٹینک‘‘ صرف رہائشی گھروں ہی میں نہیں بلکہ ورکشاپوں (کارخانوں اور صنعتوں) میں بھی عام استعمال ہو رہے ہیں۔ عالمی اِدارۂ صحت کی مذکورہ رپورٹ ’پانچ رکنی ٹیم‘ نے تحریر کیا ہے‘ جنہوں نے شہر کے مختلف حصوں بالخصوص تہکال اُور گجران محلہ کے علاقوں سے نمونے اکٹھا کئے‘ اُن کی لیبارٹری میں جانچ کی گئی جن سے حاصل ہونے والے نتائج تشویشناک ہیں۔ تہکال کے علاقے میں 23 پانی کی ٹینکیوں سے حاصل کئے گئے پانی کے نمونوں میں سے 87فیصد میں ’ڈینگی وائرس‘ کی ترسیل والے مچھروں کی اَفزائش پائی گئی۔ 

ڈینگی مچھر آلودہ پانی کی بجائے شفاف پانی میں انڈے دیتا ہے اور صاف پانی چاہے تھوڑی مقدار میں بھی کھڑا ہو‘ اُس کا استعمال کرتاہے۔ عالمی اِدارۂ صحت کے ماہرین نے پشاور کے تہکال و دیگر علاقوں میں آٹو ورکشاپوں اور لکڑی کے کارخانوں میں ایسے مقامات کی نشاندہی کی‘ جہاں پانی کھڑا تھا اور مالکان کو اِس بات کا شعور بھی نہیں تھا کہ اِس بے احتیاطی کی وجہ سے خود اُن کی اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ ’لیڈی ہیلتھ ورکرز (طبی عملے)‘ کی خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے ڈینگی سے متاثرہ علاقوں میں ہر خاص و عام بالخصوص زیرتعلیم بچوں کو ایسے محلول فراہم کئے جائیں جن کی جسم پر مالش کرنے سے مچھر قریب نہیں آتے۔ مچھردانی کا استعمال متعارف کرانا بھی اشد ضروری ہے۔ کیا یہ اَمر باعث تشویش نہیں کہ ’خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں 14 جون سے 17 اگست تک 4 ہزار 390 افراد کے خون کے نمونوں کی جانچ کی گئی‘ جن میں سے 699 افراد ڈینگی سے متاثر پائے گئے اور دوران علاج اِن میں سے پانچ کی ہلاکتیں بھی ہوئیں! ضلع پشاور ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی حکومتی سرپرستی میں علاج معالجے کی سہولیات کا معیار اُور مقدار بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ 

عوام میں صحت وصفائی سے متعلق اَمور کے حوالے سے آگاہی‘ شعور اُجاگر کرنے کے لئے سیاست دانوں کو اپنے اپنے ’خرابوں‘ سے برآمد ہوں۔ ذرائع ابلاغ‘ مساجد اُور تعلیمی اِداروں کے کردار سے اِستفادہ صرف ڈینگی ہی نہیں بلکہ دیگر ایسے اَمراض کے پھیلاؤ اور اِن سے بچاؤ کی مؤثر تدبیر ہو سکتی ہے۔


No comments:

Post a Comment