Monday, August 21, 2017

Aug 2017: The goal of effective policing with expensive management wouldn't work!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پولیسنگ: اَندھی آنکھیں!
تیس مارچ (دوہزارسترہ) کے روز وزیراعظم کے حکم سے ’صلاح الدین خان محسود‘ کو خیبرپختونخوا کا ’’پولیس سربراہ (انسپکٹر جنرل پولیس)‘‘ مقرر کیاگیا‘ جس کے بعد سے پولیس کی کارکردگی اور اِحتساب سے متعلق بیانات داغنے کا سلسلہ جاری ہے۔ 

ماضی کی طرح ’انسپکٹر جنرل‘ کی آنکھوں میں سلیوٹ مار مار کر دھول جھونکنے والا چاق و چوبند ٹولہ بھی سرگرم دکھائی دیتا ہے اور پھر ایسا کون ہوگا جسے ’خوشامد‘ پسند نہ ہو!؟ صدافسوس کہ ’مؤثر پولیسنگ‘ کے حصول کے لئے ’بنیادی ذمہ داری کی بجاآوری‘ کی بجائے ثانوی‘ سطحی اور نمائشی اقدامات پر زیادہ توانائیاں اور مالی وسائل خرچ ہو رہے ہیں! خیبرپختونخوا میں پولیس اہلکاروں کو ’انگریزی زبان‘ میں بول چال اور پڑھنے لکھنے کی تربیت کا مقصد اگر خدمت خلق‘ فرض شناسی اُور جاں نثاری کے ساتھ‘ خوش اخلاقی کا حصول ہے تو یہ اہداف کسی ’خارجی زبان‘ کی کم یا زیادہ سمجھ بوجھ سے مشروط نہیں۔ دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جہاں پولیس اہلکاروں کو انگریزی زبان نہیں آتی لیکن وہ معاشرے کے لئے عمومی و خصوصی طور پر اگر مفید ہیں تو اُنہوں نے ادارہ جاتی فرائض و مقاصد کو سوفیصد حکمرانوں یا ذاتی مفادات کے تابع نہیں کر رکھا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اہم شخصیات کی اردگرد حفاظتی حصار بنائے رکھنے والی ’پولیس فورس‘ کے اہلکاروں کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ حکمرانوں کے غلام نہیں اور نہ ہی اُن کے ذاتی محافظ (باڈی گارڈز) ہیں بلکہ وہ ریاست کی خدمت کا عہد کئے مسلح‘ باوردی اور ایک ایسی طاقت (فورس) کا حصہ ہیں جنہیں قانون کی حکمرانی اور اِس کا رعب و دبدبے کا عملاً قیام ممکن بنانا ہے۔ عجیب صورتحال حال یہ ہے کہ معاشرے میں شریف اُسے سمجھا جاتا ہے جو پولیس سے کسی بھی قسم کا واسطہ نہ رکھتے ہوئے تھانے کچہری کے معاملات سے کوسوں دور رہیں یا پھر وہ عمائدین اور شرفاء کہلاتے ہیں جو ’پولیس فورس‘ کو اپنی لونڈی بنائے رکھیں۔


خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ’انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی)‘ ایبٹ آباد تشریف لائے اور شہری مرکز سے دور پہاڑ کی چوٹی پر تعمیر خیبرپختونخوا (کے پی) ہاؤس میں عشایئے پر عمائدین شہر کو مدعو کیا جن میں اکثریت ایسے افراد پر مشتمل تھی جو پولیس کے محکمے کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے‘ اِسے بدعنوان اور غیرفعال کرنے کی خاص مہارت رکھتے ہیں۔ مہمانوں کی فہرست میں ذرائع ابلاغ کے ہم نوالہ ہم پیالہ نمائندے بھی شامل تھے‘ جن کی پرتکلف تواضع کے لئے درجنوں اقسام کے کھانوں کی خوشبو پوری وادی میں پھیلی ہوئی تھی! ذائقے دار ٹھنڈے اور گرم مشروبات کا شمار الگ سے ممکن نہیں تھا۔ بہرحال اٹھارہ اگست بروز جمعۃ المبارک کی شب ’’جنگل میں اِس منگل‘‘ اور تاحد نظر اسراف ہی اسراف دیکھتے ہوئے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ خیبرپختونخوا کسی ایسے محکمے کی تقریب ہے‘ جو حالت جنگ میں ہونے کے باوجود بھی نہ تو خاطرخواہ افرادی وسائل رکھتی ہے اور نہ ہی جدید اسلحے سے لیس ہے۔ تھانہ جات کے پاس گشتی گاڑیاں کی مرمت اور ایندھن کے علاؤہ ٹیلی فون بلوں کی بروقت ادائیگی کے لئے اکثر پیسے نہیں ہوتے۔ ڈیوٹی کے دوران شہید ہونے والوں کو پورے اعزاز سے دفن کرنے کے بعد اُن کے لواحقین و پسماندگان کو گلہ رہتا ہے کہ حسب اعلانات حقوق کی کماحقہ ادائیگی نہیں کی جاتی۔ 

مدعوین کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرورت سے زیادہ بلکہ زیادہ سے بھی زیادہ مقدار میں مرغن کھانے چن دینے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی جبکہ شرکاء کی بڑی تعداد زندگی کی چالیس اور پچاس بہاریں دیکھنے کے بعد عمر کے اُس حصے میں داخل تھی‘ جہاں ڈاکٹر بالخصوص گھی‘ چینی‘ میٹھے اُور مرغن غذاؤں سے پرہیز تجویز کرتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اِس اسراف کی شکایت اپنے آپ کے علاؤہ کس سے کی جائے؟ ہر طرف مسرور و مطمئن چہرے اور اُن پر لگی ’اَندھی آنکھیں‘ تھیں! ماضی کی طرح موجودہ انسپکٹر جنرل پولیس ایسے ماتحتوں کے نرغے میں نظر آئے‘ جو اُن کی ہر مسکراہٹ پر قربان اور ہر اشارے پر تعمیل کے منتظر تھے۔ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کی خصوصی عزت افزائی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ تحائف کا تبادلہ ہوا۔ سروں پر پگڑیاں اور چادریں ڈالی گئیں۔ قہقہے گونجتے رہے۔ جیسے پولیس کی کارکردگی اُس حد تک ’اطمینان بخش‘ ہو چکی ہے کہ اب عام آدمی (ہم عوام) کی عزت و آبرو اور چادروچاردیواری کا تحفظ ممکن ہو چکا ہے!

اٹھارہ اگست کی رات گئے تک ’کے پی ہاؤس‘ میں ہونے والے استقبالیے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن اگر نئے انسپکٹر جنرل کی مختلف مکاتب فکر سے تعارفی نشست‘ ضلعی حالات و واقعات کے بارے میں تبادلۂ خیال کے لئے بامقصد نشست مقصود ہوتی‘ تو اِس کا انعقاد مغرب سے عشاء کے درمیان ’ڈسٹرکٹ اسمبلی کے ٹاؤن ہال‘ میں بھی ہوسکتا تھا جو شہر کے وسطی حصے میں واقع ہے‘ جس تک پہنچنے کے لئے سرکاری و نجی وسائل سے لاکھوں روپے کا ایندھن الگ سے ضائع کرنے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی۔ سادگی میں بڑی حکمت ہے اور سادگی اختیار کرنے ہی میں عافیت ہے کیونکہ خیبرپختونخوا پولیس کے پاس مالی وسائل لامحدود نہیں۔ کیا یہ مطالبہ ناجائز ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے پیسے کی ہر ایک پائی سوچ سمجھ کر اور دردمندی کے ساتھ خرچ ہونی چاہئے؟ 


انسپکٹر جنرل صاحب بہادر اپنے ڈیپارٹمنٹ میں ’کالی بھیڑوں‘ کی موجودگی سے انکار نہیں کرتے اور یہی وجہ تھی کہ اٹھارہ اگست کی شب اُنہوں نے ایک ایسے حیران کن ’تجرباتی اقدام‘ کا اعلان کیا‘ جو پہلے ہی ایک سے زیادہ قوانین و قواعد میں موجود ہے یعنی پولیس کی کارکردگی پر نظر عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندے اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے رکھی جائے گی۔ لطیفہ نہیں تو کیا ہے لیکن صاحب بہادر کا بیان سرآنکھوں پر کہ ’’پولیس ایکٹ 2017ء کی منظوری اور نفاذ کے بعد ممکن ہو جائے گا کہ عام آدمی (ہم عوام) پولیس کا احتساب کر سکیں گے!‘‘ جس محکمے کا احتساب خود اُس کے اپنے فیصلہ ساز نہ چاہتے ہوں‘ وہاں عام آدمی (ہم عوام) کی جرأت ہی کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ ٹرانسپورٹرز‘ ہوٹل و گیسٹ ہاؤس مالکان‘ جائیدادوں کی خریدوفروخت کے بڑے حصہ داروں اور سب سے بڑھ کر سیاسی شخصیات کے منظورنظر‘ پولیس اہلکاروں سے اُن کی مالی حیثیت کے بارے پوچھ سکیں!؟

 آئی جی پی کے لئے عشایئے میں ایک ایسے رکن قومی اسمبلی بھی موجود تھے‘ جن پر 29 دسمبر 2016ء کے روز‘ جلال بابا آڈیٹوریم ایبٹ آباد میں منظم (coordinated) حملہ ہوا جس میں پولیس‘ صحافی اور فوج کے ایک ریٹائرڈ اہلکار نے سیاسی و خاندانی مخالفت کی آڑ میں وار کیا۔ خیبرپختونخوا میں پولیس کو غیر سیاسی کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کے لئے نادر موقع تھا کہ وہ اختیارات و قانونی مہارت کا غلط استعمال کرنے والے کو پولیس اہلکاروں ہی کو بے نقاب کرتے‘ جن کے ناقابل تردید ثبوت بصورت ’ٹیلی فون ریکارڈ (سی ڈی آر ڈیٹا)‘ موجود تھا۔ مذکورہ حملے کی ادنیٰ و اعلیٰ سطحی تحقیقات در تحقیقات میں سات ماہ (تیس ہفتوں) سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن کسی ایک بھی کردار کو تاحال سزا نہیں ہوئی یعنی احتساب نہیں ہوا۔ وہی پولیس کے اختیارات‘ سادگی‘ مستعدی کا مظاہرہ جس میں فرسودہ نظام کے ذریعے معاملہ ’دفعات کے حوالے‘ کر دیا گیا ہے۔ بھلا جس حکومت میں خود اپنی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک رکن قومی اسمبلی کو انصاف نہ مل سکا ہو‘ وہ ’تحریک انصاف‘ کیسے ہو سکتی ہے اور اُس کی حکمرانی میں تھانہ و کچہری کلچر (نظام) سے وابستہ ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کی توقعات کیونکر پوری ہوسکتی ہیں!؟

No comments:

Post a Comment