Sunday, August 20, 2017

Aug 2017: Dengue fever surfaced in Peshawar & KP again exposing the health system & priorities!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
آفات: پیشگی تیاریاں اور سیاسی حل!
سیاست کہاں نہیں۔ بیماریاں پھوٹ پڑیں یا قدرتی آفات کا نزول ہو‘ ہمارے سیاستدانوں کو مہارت حاصل ہے کہ وہ ’پوائنٹ سکورنگ‘ کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پشاور میں ڈینگی بخار کی وباء صوبائی کابینہ میں زیرغور لائی گئی۔ وزیراعلیٰ نے حسب سابق اِس مرتبہ بھی ’’فوری‘‘ اُور ’’خصوصی‘‘ اقدامات کا حکم دیا لیکن ظاہر ہے کہ جب آفات سے نمٹنے کے لئے پیشگی تیاری نہیں کی گئی ہوتی تو پھر چھوٹے پیمانے پر رونما ہونے والے ہنگامی حالات سے پیدا ہونے والی بڑے افراتفری سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف کی پشاور میں مقبولیت کبھی بھی کسی بلند سطح پر مستقل نہیں رہی اور اِس میں مسلسل کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ ڈینگی کی وباء سے نمٹنے میں تاخیر اُور صوبائی حکومت کے اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے احتجاجی مظاہرے اِس بات کا ثبوت ہیں کہ طرزحکمرانی اور انتخابی حلقوں کی سیاست میں توازن برقرار نہیں رکھا گیا۔ محکمۂ صحت سے عوام کی توقعات پوری نہیں ہو رہیں تو اِس حقیقت کا انکار کرنے کی بجائے اِسے تسلیم کرنا چاہئے۔ سرکاری ہسپتالوں کے معاملات مالی و انتظامی خودمختاری دینے کے بعد بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑ گئے ہیں تو اِس حقیقت کا بھی انکار کرنے کی بجائے حقائق تسلیم کرنے چاہیئں۔ 

’اَیوب میڈیکل کمپلیکس‘ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جس روز وزیراعلیٰ نے ڈینگی کی وباء سے نمٹنے کا اعلان کیا اُسی روز ’ایوب میڈیکل کمپلیکس‘ کے ’بورڈ آف گورنرز‘ کی اَزسرنو تشکیل کا حکم دیا اور کہا کہ ’’مذکورہ ہسپتال میں ہوئی بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کے بارے میں ’صوبائی انسپکشن ٹیم‘ کی سفارشات پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔‘‘ امر واقعہ یہ ہے کہ ایوب میڈیکل کالج میں کروڑوں روپے کی بدعنوانی کے خلاف ڈاکٹروں ایک سال تک احتجاج کرتے رہے جس کا نوٹس لیتے ہوئے پشاور سے ایک خصوصی ٹیم ایبٹ آباد بھیجی گئی۔ ٹیم نے تحقیقات کے بعد بدعنوانی کے مرتکب کرداروں کی نشاندہی کی لیکن جب عمل درآمد کے لئے ہسپتال کے (خودمختار اِنتظامی نگرانوں) ’بورڈ آف گورنرز (بی اُو جی)‘ کو رپورٹ اِرسال کی گئی تو اُنہوں نے بجائے سزا دینے کے اپنے طور پر محکمانہ تحقیقات کروائیں اور ’صوبائی انسپکشن ٹیم‘ کے نامزد ملزمان کو معاف کردیا۔ کئی ماہ بعد یہ بات ایبٹ آباد سے پشاور پہنچی اور پھر کئی ماہ بعد وزیراعلیٰ کی زیرصدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں اِس بے قاعدگی کا نوٹس لیا گیا لیکن فوری طور پر ’بنی گالہ‘ سے مداخلت پر معاملہ ایک مرتبہ پھر سردخانے کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے! سرکاری اِداروں کی کارکردگی اُس وقت تک بہتر نہیں بنائی جا سکتی جب تک ’سزأ و جزأ کی کسوٹی‘ پر عمل درآمد کرتے ہوئے ’’بلااِمتیاز اُور بے رحم اِحتساب‘‘ نہیں کیا جاتا۔ سیاسی جماعتوں کو عوام ووٹ سرکاری اداروں کا قبلہ درست کرنے کے لئے دیتے ہیں‘ اُنہیں ’عدم مداخلت‘ کے لئے ووٹ نہیں دیا جاتا بلکہ عوام کے مفاد میں مداخلت کے لئے ووٹ دیا جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت اِس اِمکان سے تو انکار نہیں کرتی کہ ’’بدعنوان عناصر ہر دفتر میں موجود ہیں‘‘ لیکن ایسے بدعنوانوں (کالی بھیڑوں) سے معاملہ کیا عوام کو خود (قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے) کرنا چاہئے؟‘

عیدالاضحی سے قبل مال مویشیوں سے اِنسانوں کو منتقل ہونے والی بیماریاں عموماً پھیل جاتی ہیں۔ اِس مرتبہ بھی ایسا ہی دیکھنے کو مل رہا ہے بلکہ اِضافی مصیبت مرغیوں کو لاحق ایک بیماری کی صورت میں بھی ظاہر ہوئی ہے اور صوبائی حکومت اِن دونوں سے نمٹنے کے لئے پیشگی تیار نہیں جبکہ ذمہ داری ضلعی حکومت پر اور ضلعی حکومت صوبائی حکومت پر ڈال رہی ہے۔ کوتاہی کا اِرتکاب دونوں ہی سے ہوا ہے کیونکہ دونوں کا تعلق ایک ہی سیاسی جماعت سے ہے اور اگر کسی ایک سیاسی جماعت کے ضلعی ناظم کی اپنے ہم جماعتوں سے رابطے نہیں تو اِس کی اصلاح ہونی چاہئے۔ خیبرپختونخوا میں انتظامی افراتفری سے آگاہ پنجاب حکومت نے اِس صورتحال کا ’سیاسی فائدہ‘ اُٹھانے کی کوشش کی ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پہلے ٹوئٹر (twitter) پیغام اُور بعدازاں پنجاب حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا کو تحریری طور پر پیشکش کی کہ ’’ڈینگی اور دیگر وبائی امراض سے نمٹنے کے لئے پنجاب کی استعداد (مہارت) اور وسائل حاضر ہیں۔‘‘ نیت پر شک نہیں کرنا چاہئے۔ 

حسن ظن سے کام لیتے ہوئے صوبائی حکومت وزیراعلیٰ پنجاب کی پیشکش سے فائدہ اٹھانے کا ذہن رکھتی ہے کیونکہ اگر اِس طرح انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں اب تک ڈینگی بخار سے 10 اموات ہو چکی ہیں جبکہ صوبائی حکومت پشاور میں 831 افراد مچھر کے کاٹنے سے لاحق ہونے والی اِس بیماری سے متاثر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پشاور کی ضلعی حکومت اِس ہنگامی صورتحال میں کیا کر رہی ہے؟ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے بعد کسی بھی ضلع میں صحت کی ترجیحات کے لئے مالی وسائل بلدیاتی نمائندوں کو دیئے جاتے ہیں۔ 

’دس افراد‘ کی اموات کے بعد ڈینگی کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضلعی حکومت نے اب تک 60 لاکھ روپے جاری کئے ہیں جن میں سے 50لاکھ اٹھارہ اگست کو جاری ہوئے اور ظاہر ہے چند روز میں اِن ناکافی مالی وسائل سے ڈینگی پر سوفیصد قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ پشاور کی 92 میں سے تین یونین کونسلیں ’اَڑتیس (تختہ آباد)‘ اُنتالیس (خزانہ) اُور چالیس (ہریانہ پایان)‘ میں ڈینگی کی وباء پھیلی ہوئی ہے جبکہ مضافاتی یونین کونسل پشتہ خرہ کے رہنے والے بھی اِس بیماری کی زد میں ہیں۔ اگر صوبائی کابینہ کی ناک کے نیچے پشاور میں ہنگامی حالات میں عمومی و خصوصی بیماریوں سے متعلق حکمت عملی ’ناکافی‘ ہے تو دور دراز اَضلاع کے رہنے والوں کا اللہ حافظ ہے۔

No comments:

Post a Comment