Sunday, August 20, 2017

TRANSLATION: State capture by Dr. Farrukh Saleem

State capture
قومی وسائل اُور قابضین!
سرکاری وسائل بمقابلہ نجی لالچ۔ پاکستان کے ریاستی وسائل قبضہ ہو چکے ہیں۔ 3 کروڑ خاندانوں کا مسکن ملک‘ جس پر ایک ہزار خاندانوں کی حکمرانی کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا! سوال یہ ہے کہ آخر ریاستی وسائل اور ریاستی وسائل پر اختیار کس طرح مسلط ہوتا ہے؟ طریقۂ واردات یہ ہے کہ جب حکمراں اشرافیہ اور کاروباری طبقات مل کر یا الگ الگ حیثیتوں میں قانون و قواعد سازی کو اپنے مفادات کے تابع بنا دیتے ہیں۔ جب قوانین و قواعد کے اطلاق پر اثرانداز ہوا جاتا ہے اور خاص طبقات کے لئے استثنیٰ (رعائت) رکھی جاتی ہے بالخصوص قوانین اور اقتصادی و کاروباری قواعد میں تو اِس سے کسی ملک و معاشرے میں حکمرانی بصورت ’سیاہ و سفید کی بادشاہت‘ سرمایہ داروں اور بااثر اشرافیہ تک محدود و مطلق العنان حاکم ہوتی چلی جاتی ہے۔

پاکستان کی اقتصادیات پر بھی چند ہزار خاندانوں کا قبضہ دکھائی دیتا ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال ایک ایسے مخمصے میں الجھ گئی ہے جہاں حکمت عملیاں (پالیسیاں) وضع کرنے اور قومی ادارہ جاتی اصلاحات سرمایہ داروں اور بااثر اشرافیہ کے مفادات کی محافظ بن چکی ہے۔ اقتصادی حکمت عملی میں عوام کی بجائے خواص کا ٹولہ مستفید ہو رہا ہے۔ قومی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات ترجیح بنے ہوئے ہیں!

پاکستان کے مرکزی ’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کی کہانی بھی زیادہ مختلف نہیں جہاں کے تابع فرمان ملک سے زیادہ اپنا اور چند شخصیات کے مفاد کے بارے زیادہ فکرمند رہتے ہیں۔ یہی حال ’’سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان‘‘ کا بھی ہے۔ ’مسابقتی کمیشن (Competition Commission)‘ کے چیئرمین خالد مرزا ہیں‘ جن کے ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ ’عوامی مفاد‘ کے محافظ رہیں لیکن یہاں بھی بالعموم ریاست کی بجائے حکمرانوں اور نجی اداروں کے مفادات کو مدنظر رکھا جا رہا ہے۔

جن قومی اداروں کو دیکھ کر اِس دکھ کا احساس شدت سے ہوتا ہے کہ وہ چند ہزار افراد کے خدمت گزار بنے ہوئے ہیں اُن میں ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کا اِدارہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح ’وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے)‘ کا چال چلن اور جھکاؤ بھی قومی مفادات کی بجائے نجی افراد کے حق میں زیادہ مختلف نظر نہیں آتا۔
اقتصادی امور کے ماہر ’ڈاکٹر عشرت حسین‘ نے اپنی کتاب ’(Pakistan: An Elitist Economy)‘ میں احاطہ کیا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی نظام میں اشرافیہ کے مفادات کا مجموعہ ہے جس کا مرکز عوام نہیں بلکہ نگاہ اعلیٰ و بالا ہیں! ڈاکٹر عشرت حسین نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ جب سے اشرافیہ پاکستان کی ریاست پر مسلط ہوئی ہے اس سے قومی اداروں کی فعالیت و کارکردگی محدود ہوئی ہے جبکہ دولت اور وسائل کی غیرمساویانہ غیرمنصفانہ تقسیم ہوئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیں پاکستان میں سب سے منافع بخش کاروبار (بزنس) یہ دکھائی دیتا ہے کہ ’ریاستی امور پر حکمراں بن کر مسلط ہوا جائے۔‘ پاکستان کی ریاست کے پاس بے پناہ وسائل ہیں۔ یہاں زمین ہے‘ تیل ہے۔ معدنی ذخائر سے مالا مال پہاڑی سلسلے ہیں جہاں کان کنی ہوتی ہے اور مزید کھوج ممکن ہے۔ یہاں زیرزمین قدرتی گیس کے ذخائر کھوج نکالنے کے منتظر ہیں۔ اِن سبھی وسائل کی اصل مالک3 کروڑ پاکستانی خاندان ہیں لیکن کاروبار اور سیاست نے قومی وسائل سے استفادے کو چند ہزار خاندانوں کی حد تک محدود کر رکھ دیا ہے۔
پاکستان پر چند درجن کارخانہ داروں کے گٹھ جوڑ (Cartels) کی حکمرانی ہے جنہیں میں ’مافیا‘ نہیں کہہ رہا۔ ہمارے ہاں تیل کی کمپنیوں کا گٹھ جوڑ دکھائی دیتا ہے اور جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے کہ مفادات کے لئے بنائے گئے اِن گروہوں کا آپسی تعلق ہوتا ہے وہ قوم کو تو سیاست اور رنگ و نسل‘ مذہب و اختلافات میں الجھائے رکھتے ہیں لیکن آپس میں ایک دوسرے کے مفادات کا محافظ بنے رہتے ہیں اور ایسا کوئی بھی کام نہیں کرتے جس سے کسی ہم عصر کاروباری کے مفادات پر ضرب لگے۔ 

تصور کیجئے کہ پاکستان کے سرمایہ دار‘ صرف قومی اداروں کی پالیسی سازی ہی پر اثرانداز نہیں ہوتے بلکہ افسرشاہی کو شامل حال کر کے غیرمعیاری پیٹرولیم مصنوعات کے ذریعے سالانہ 400 ارب روپے کما رہے ہیں اور 3 کروڑ خاندانوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی طرح گاڑیاں (آٹوموبائل) کا شعبہ بھی سیاست دانوں اور افسرشاہی (بیوروکریسی) کے گٹھ جوڑ سے عوام دن دیہاڑے لوٹ رہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ بھارت میں جس سوزوکی ماروتی کی قیمت 2 لاکھ 37 ہزار روپے ہے پاکستانی کرنسی میں اُس کی مساویانہ قیمت 3 لاکھ 89 ہزار روپے کیوں ہے؟ اِسی قسم کی کارکردگی سیمنٹ اور چینی بنانے کے صنعتی مالکان اور اداروں کی بھی ہے جنہیں اپنے کاروباری مفادات عزیز ہیں اور وہ بہرصورت حکومت میں اپنی نمائندگی رکھتے ہیں تاکہ کوئی ایسی قانون سازی یا قواعد سازی ممکن نہ ہوسکے جن سے اُنہیں خسارہ ہو۔

حکومتی پالیسیاں بنانے والے سیاسی‘ ذاتی اور کاروباری ترجیحات رکھتے ہیں اور ایسی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جن سے سرمایہ دار اور بااثرافراد طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو فائدہ ہو۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ریاست اور نجی مفادات کا آپس میں تصادم ہوتا ہے اور وقت آگیا ہے کہ اِس بات پر زور دیا جائے کہ ریاست اور حکمرانی کرنے والوں کے مفادات الگ الگ ہونے چاہیءں۔ یہ بات کسی بھی صورت انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کہ ’تین کروڑ‘ پاکستانی خاندانوں کی ملکیت وسائل پر چند ہزار خاندانوں کی گرفت ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتی چلی جائے کیونکہ اگر اِس قسم کا استحصالی نظام جاری و ساری رہتا ہے تو اِس سے ’پاکستان کی ریاست‘ کو لاحق سنجیدہ خطرے کی شدت بڑھے گی۔

جنوبی افریقہ نے حال ہی میں ایک ’جوڈیشل کمیشن‘ بنایا تاکہ اِس بات کی تحقیقات کی جا سکیں کہ ریاستی وسائل پر قابضین کون ہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ وسیع پیمانے پر ریاستی وسائل کا استعمال چند افراد کو فائدہ پہنچانے کے لئے کیا جا رہا ہو۔ اِس تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ ’تھولی میڈونسیلا (Thuli Madonsela)‘ تھے جن کے ہمراہ اُن کی ٹیم نے ایک اپنی تحقیقات سے متعلق ایک حقائق نامہ شائع کیا جس میں جنوبی افریقہ کے صدر ’زوما (Zuma)‘ اور اُن کے ریاستی وزرأ کی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور بیان کیا گیا کہ کس طرح جنوبی افریقہ کی پانچ کروڑ پچاس لاکھ آبادی کی ملکیت ’قومی وسائل‘ پر سیاسی فیصلہ ساز مسلط ہیں اور وہ کس طرح ’بدنیتی‘ سے قومی اداروں کو اپنے حق (مفاد) میں استعمال کر رہے ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ بحث جاری ہے کہ کس طرح ریاست یعنی عوام کی ملکیت وسائل اور اثاثوں سے اجتماعی مفاد میں استفادہ کیا جائے اور اُس گٹھ جوڑ کو توڑا جائے جس سے سیاسی و کاروباری اور افسرشاہی پر مشتمل طبقات فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان میں روائتی طرز حکمرانی کو جاری و ساری رکھنے والوں کا تعلق بھی اِنہی مسلط و غاصب طبقات سے ہے جن کی کوشش ہے کہ روائتی سیاست کا سلسلہ یونہی جاری و ساری رہے۔ جنوبی افریقہ کی طرز پر پاکستان کی ریاست کو بھی ایک ’جوڈیشل تحقیقاتی کمیشن‘ بنانا چاہئے جو برسرزمین معلوم حقائق اور اِس کے ذمہ داروں کا دستاویزی تعین کرے تاکہ قومی وسائل کو چند ہزار گھرانوں کی قید سے آزاد کیا جاسکے اور ریاستی وسائل اِس کے اصل مالکان یعنی کم وبیش بیس کروڑ پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے بروئے کار لائے جا سکیں۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

3 comments:

  1. Public money v private greed. The Pakistani state has been captured. Of the 30 million Pakistani families, a thousand Pakistani families have managed to capture the state. State capture occurs “when the ruling elite and/or powerful businessmen manipulate policy formation and influence the emerging rules of the game – including laws and economic regulations – to their own advantage.”

    Pakistan’s economy has been captured-captured by a thousand families. Yes, the Pakistani economy is “trapped in a vicious circle in which the policy and institutional reforms necessary to improve governance are undermined by collusion between powerful firms and state officials who extract substantial private gains….”

    The State Bank of Pakistan (SBP) is a captured entity – captured to extract private gains. The Securities and Exchange Commission of Pakistan (SECP) is a captured entity – captured to extract private gains. The Competition Commission of Pakistan (CCP) under Chairman Khalid Mirza tried to promote public interest but he was thrown out and the CCP was captured – captured to extract private gains.

    Of course, the National Accountability Bureau (NAB) is a captured entity – captured to safeguard private gains. Yes, the Federal Investigation Agency (FIA) is also a captured entity – captured to safeguard private gains.

    ReplyDelete
  2. Dr Ishrat Hussain, in a lecture titled ‘Pakistan: An Elitist Economy’, argues that “since elites have captured the market and the state in Pakistan, it has resulted in the “creation of a vicious cycle of inefficiency and inequitable distribution of wealth.”

    To be certain, the most profitable business in Pakistan is ‘Raiding the State’. Yes, the State of Pakistan has huge resources – land, oil, mines, minerals and natural gas. The real owners of all these resources are the 30 million Pakistani families but the business and politics is all about transferring state resources into the private pockets of a thousand families.

    Pakistan is controlled by a few dozen cartels (I do not want to call them ‘mafias’). We have the oil companies cartel. As is always the case with cartels, the members are all interlinked through cross-ownerships. Eight of Pakistan’s richest companies, in connivance with the bureaucracy and the political elite, supply the Pakistani market with inferior quality petroleum products and make Rs400 billion a year, every year. The other 30 million families are getting ripped off.

    Look at how the automobile cartel – once again in connivance with the bureaucracy and the political elite – is ripping Pakistanis off. Some in the cartel are selling sub-standard automobiles, at least a decade-old technology, at exorbitant prices (In India, Maruti Suzuki Omni sells for Indian Rs237,000 or an equivalent of Pak Rs389,000). Then there are the sugar and the cement cartels.

    Policymakers have personal business interests and policymakers are making policies to enrich themselves. Public and private interests have collided. The two must now be separated. State capture has enriched a thousand families at the expense of 30 million Pakistani families. There’s concentration of economic and political power that has now become a serious threat to the State of Pakistan.

    South Africa recently set up a Judicial Commission of Inquiry into State Capture. Thuli Madonsela, a former public protector and her team of investigators, published a report detailing how President Zuma along with his ministers connived with the Gupta business conglomerate for personal enrichment at the expense of 55 million ordinary South Africans.

    The primary conflict between the forces of status quo and the forces of anti-status quo is that the forces of status-quo are bent upon continuing their state capture. For the sake of 200 million Pakistanis, the State of Pakistan must also set up a Judicial Commission of Inquiry into State Capture.

    ReplyDelete
  3. Worth Reading:
    https://books.google.com.pk/books/about/Pakistan.html?id=Px2xAAAAIAAJ

    ReplyDelete