Saturday, August 19, 2017

Aug 2017: Artist Iftikhar Qaiser - pleading for love!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِفتخار قیصر: اَیک میں ہر کسی کو بُھول گیا!
پاکستان ٹیلی ویژن سنٹر پشاور سے ہندکو زبان کے معروف پروگرام ’دیکھدا جاندا رے‘ سے شہرت پانے والے ’افتخار قیصر‘ نے دیگر علاقائی زبانوں کے علاؤہ اُردو زبان میں بھی فن اداکاری کے جوہر دکھائے اور قومی سطح پر نامور فنکاروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے شاعری‘ گلوکاری اور سٹیج اداکاری کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ ایک ذات میں کئی فنکاروں کا مجموعہ تھا۔ بلندوبالا قدکاٹھ‘ مردانہ وجاہت‘ مثالی حافظہ‘ تاثرات طاری کر لینے کا بادشاہ اُور حد درجے ملنسار‘ مرنجاں مرنج طبیعت میں پشاور کا ہر وہ رنگ دیکھا جا سکتا ہے‘ جو اِس خطے سے تعلق رکھنے والے چنیدہ خوش قسمت لوگوں کے حصے میں آیا جن میں یوسف خان المعروف دلیپ کمار بھی شامل ہیں۔ افتخار قیصر کو اگر ٹیلی ویژن کا ’دلیپ کمار‘ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اُنہوں نے 45 برس ریڈیو ٹیلی ویژن اور اسٹیج کے ذریعے معاشرتی‘ سماجی اور اخلاقی برائیوں کے خلاف شعور اُجاگر کیا۔ اپنی ذات مٹا دی۔ اپنی ضروریات بھلا دیں لیکن دوسروں کو محظوظ کیا۔ باتوں باتوں میں لوگوں کو سنجیدہ موضوعات پر سوچنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کی ترغیب احساس اور حوصلہ دیا۔ پشاور میں مذہبی رواداری اور جمہوریت و جمہوری قدروں کے فروغ میں اُن کا الگ نمایاں کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اِن جملہ خصوصیات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان کی جانب سے اُنہیں ’’تمغہ حسن کارکردگی‘‘ سے بھی نوازہ گیا لیکن سینکڑوں کی تعداد میں ایسے اعزازات آج ’افتخار قیصر‘ کے کسی کام نہیں آ رہے‘ جو عرصہ دراز سے مختلف بیماریوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ایک عرصے سے بسترعلالت پر ہیں۔ معیاری علاج معالجے کے لئے کافی مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اُن پر فالج کا حملہ بھی ہو چکا ہے جبکہ ذیابیطس کے باعث اُن کے نچلے دھڑ میں جان باقی نہیں رہی۔ 

افتخار قیصر کی مالی حیثیت خیبرپختونخوا کے دیگر فنکاروں اور فنون لطیفہ کے ذریعے معاشرے کی خدمت کرنے والوں سے زیادہ مختلف نہیں لیکن اُن کی موجودہ حالت دیکھتے ہوئے اگر فوری امداد اور اندرون یا بیرون ملک انتہائی نگہداشت میں طبی امداد نہ پہنچائی گئی تو ایک سریلی آواز‘ مسکراتا چہرہ اور پشاور کی پہچان رہا ایک حوالہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے گا۔ افتخار قیصر کے اہل خانہ کی کفالت اور مشکل کی اِس گھڑی میں سہارا دینے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ایک سے زیادہ محکموں کو ازخود فعال ہوجانا چاہئے تھا۔ ہندکو پر دل و جان سے نثار‘ فدا اور صدقے واری ہونے والے بیرون ملک مقیم پاکستانی متوجہ ہوں۔ علمی ادبی تنظمیں جن میں مالی وسائل رکھنے والا گندھارا ہندکو بورڈ‘ گندھارا ہندکو اکیڈمی اُور پشتو اکیڈمی جیسے معروف ادارے اِس نازک موقع (مرحلے) پر افتخار قیصر کے زعم اور اُس کے اِفتخار کو بلند نہ سہی کم سے کم بحال تو کر سکتے ہیں لیکن تعجب خیز ہے کہ صرف انسان ہی زندہ دکھائی دیتے ہیں احساس نہیں۔ فنکاروں کی بہبود اُور علاج معالجے کے علاؤہ خیبرپختونخوا حکومت کا ’’انصاف صحت کارڈ‘‘ اور وفاقی حکومت کا ’’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ جیسے فعال منصوبوں کے باوجود بھی ’افتخار قیصر‘ جیسے ایک مستحق کی آنکھوں سے موسلادھار ٹپکنے والے آنسوؤں کا شمار ممکن نہیں! ’’قیدِ حیات و بندِ غم‘ اَصل میں دونوں ایک ہیں۔۔۔ موت سے پہلے آدمی‘ غم سے نجات پائے کیوں۔ (میرزا اسد اللہ خان غالبؔ )۔‘‘

سال 2016ء کے اوائل میں اِفتخار قیصر کو لاحق ذیابیطس (شوگر) کے مرض میں پیچیدگیاں پیدا ہوئیں تو اُس وقت بھی ذرائع ابلاغ نے حکومت کی توجہ اِس جانب مبذول کرنے کی کوشش کی۔ وقتاً فوقتاً اُن کی صحت و مالی حالت کے بارے میں خبریں اور مضامین شائع ہوتے رہے۔ فنکار تنظیموں کی جانب سے افتخار قیصر کی صحت یابی کے لئے دعاؤں کے ساتھ اُن کی مالی و طبی امداد کے لئے مطالبات بھی دہرائے جاتے رہے لیکن کسی کان پر جوں نہیں رینگی! افتخار قیصر کی بیماری وہ شدت اختیار کر گئی ہے کہ اب وہ زندگی اور موت جیسی کشمکش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ اُنہیں نظام ہضم اور معدے کی چند ایک بیماریوں کا سامنا رہا‘ لیکن معیاری علاج نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے عارضے شدت اختیار کر چکے ہیں! 

قومی وسائل اگر اِن جیسے مستحقین کے لئے مختص نہیں تو کس کے لئے ہیں؟ افتخار قیصر کی غربت‘ بیماری‘ لاچاری اور کسمپرسی دیکھ کر اُن اراکین صوبائی و قومی اسمبلیوں کی یاد آتی ہے جنہیں سرکاری خرچ پر اندرون و بیرون ملک علاج کی سہولیات میسر ہیں۔ وفاقی حکومت کے ترجمان قومی نشریاتی ادارے ’پاکستان ٹیلی ویژن‘ اور ’پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن‘ کے مراعات یافتہ ملازمین اُور متعلقہ وزیروں مشیروں کے لئے تو ’فنڈز (مالی وسائل)‘ دستیاب ہوتے ہیں لیکن اِن اداروں کو مقبول بنانے اور اِن کے لئے نشری و نشریاتی مواد تخلیق کرنے والوں کے حقوق وقتی اور محدود مقرر کئے گئے ہیں۔ 

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان‘ جنرل سیکرٹری جہانگیر خان ترین‘ وزیراعلیٰ پرویز خان خٹک سے درخواست ہے کہ وہ چار دہائیوں سے زائد عرصے تک مسکراہٹیں بکھیرنے والے خیبرپختونخوا کے افتخار ’جناب افتخار قیصر‘ سمیت اُس جملہ ٹیلنٹ کی کماحقہ سرکاری سرپرستی کرنے کے لئے قانون سازی کریں‘ جس کے ذریعے مستقل وظیفے اور بیمے (انشورنس) کا بندوبست کیا جا سکے اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کو سہارا ہو کہ وہ بھی معاشرے میں مساوی و باعزت زندگی بسر کرنے کے یکساں حقدار ہیں۔ خوش آئند ہے کہ تحریک انصاف سیاحت کے فروغ میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن ہزارہ ڈویژن کے جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ و بقاء پر مبنی ’سیاحت‘ کے ساتھ ’ثقافتی پالیسی‘ پر بھی نظرثانی ہونی چاہئے کیونکہ زمین کا ’’اصل حسن‘‘ تو انسان ہیں اُور بالخصوص معاشرے کے وہ حساس طبقات جو دوسروں کی نسبت زیادہ باشعور ہوتے ہیں اور اپنی زندگیاں کسی ایک مقصد کے لئے وقف کر دیتے ہیں تو اُنہیں صرف اور صرف اِعزازات سے نوازنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ’مالی طور پر سہارا‘ دینا بھی حکومتوں ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

1971ء میں پاکستان ٹیلی ویژن پر متعارف ہونے والے ’افتخار قیصر‘ کو نہ سہی کم سے کم اُس ’تمغۂ حسن کارکردگی‘ ہی کی توقیر و افتخار کو پیش نظر رکھ لیا جائے‘ جس کی اہمیت کسی انسانی جان سے زیادہ نہیں اور جس کے حاصل کرنے والے کو عملاً یہ اِحساس دلایا جائے کہ وہ ’فراموش نہیں ہوا۔‘ افتخار قیصر کی فنی خدمات اُور صلاحیتوں کا اعتراف اپنی جگہ اہم لیکن اُس کی باقی ماندہ زندگی کے ایام اِس اطمینان اور سکون سے گزرنے چاہیءں کہ پشاور‘ پشاور کے باسی اُور بالخصوص ہندکو زبان سے محبت کرنے والوں نے اُس کی ناقدری نہیں کی۔ 

’’کیوں نہ ہو ناز اِس ذہانت پر ۔۔۔ ایک میں ہر کسی کو بھول گیا: 
سب سے پُرامن واقعہ یہ ہے۔۔۔آدمی آدمی کو بھول گیا۔ (جان ایلیا۔)‘‘

18 اگست 2017ء (جمعۃ المبارک) ایبٹ آباد۔ 

No comments:

Post a Comment