Thursday, August 17, 2017

Aug 2017: Minorities talks!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ذرا سا ’گردش دوراں‘ سکوں لینے دے!
سردار سورن سنگھ کا قتل تحریک انصاف کے لئے دھچکا تھا۔ جس کے بعد سے اُن کی خیبرپختونخوا میں نشست قریب ’سولہ ماہ‘ خالی رہی اور اُن تمام ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کی رفتار کم ہوتی چلی گئی‘ جو اقلیتوں کی بہبود کے بارے میں سردار سورن سنگھ نے شروع کئے تھے۔ کئی ایک منصوبوں کے لئے تو مختص مالی وسائل دیگر انتخابی حلقوں کی نذر ہوگئے۔ ہماری سیاست کا اَلمیہ یہ ہے کہ یہاں صرف اُور صرف برسراقتدار افراد کی قدرواہمیت ہوتی ہے اُور چڑھتے ’سورج کی پجاریوں‘ کا تو شمار ہی ممکن نہیں۔ خیبرپختونخوا کی تین اقلیتی نشستیں خالی ہیں اُور ظاہر ہے کہ صوبائی حکومت اِن تین نشستوں سے متعلق ’ایک خاص ووٹ بینک‘ کی توقعات پر پورا نہیں اُتر رہی‘ جس کا منفی اَثر آئندہ عام انتخابات پر بھی پڑے گا۔ 

سردار سورن سنگھ ملنسار اُور ہنس مکھ شخصیات کے مالک تھے‘ جس کی وجہ سے وہ اپنی پارٹی کی مرکزی اور صوبائی کے قریب ہوتے چلے گئے اور اِس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مالی سال 2016-17ء کے بجٹ میں 8 کروڑ روپے اقلیتی امور کے لئے مختص کروا لئے۔ صوبے کی تاریخ میں کسی ایک مالی سال کے لئے اس قدر مالی وسائل کبھی بھی اقلیتوں کو نہیں دیئے گئے اور یہ اُن کی شخصیت ہی کا کمال تھا کیونکہ اُن کے بعد مالی سال 2017-18ء میں اقلیتوں کی بہبود کے لئے 5 کروڑ روپے مختص ہوئے تھے۔ پشاور کی اقلیتوں کو اِس بات کا بہت دُکھ ہے‘ بالخصوص سکھ برادری سے تعلق رکھنے والوں کی ایک تعداد سمجھتی ہے کہ اقلیتوں کے لئے مالی امداد تین کروڑ روپے کم کرکے ایک دینی مدرسے کو دے دی گئی! یہ محض اِتفاق ہو سکتا ہے کہ صوبائی حکومت نے تین کروڑ روپے ایک دینی مدرسے کو دیئے لیکن یہ منفی تاثر بہرحال موجود ہے اور اِس ناانصافی کے بارے میں ’سوشل میڈیا‘ پر بھی ایک بڑی تعداد میں تبصرے اور تنقید ملتی ہے۔ سردار سورن سنگھ کے قتل سے ’شمشان گھاٹ (قبرستان)‘ کا منصوبہ اِلتوأ کا شکار ہو چکا ہے جو کوہاٹ اُور بونیر میں تعمیر ہونا تھا۔ اِسی طرح اُنہوں نے مسیحوں کے قبرستانوں کی چاردیواریوں کے بھی فنڈز مختص کئے جس پر تیزی سے عمل درآمد ایک حد پر پہنچ کر رُک چکا ہے۔ خوش قسمت تھے جنہوں نے پہلے ہی مالی سال میں منصوبے مکمل کروا لئے اور باقی ماندہ رہنے والے ترقیاتی کام ادھورے یا التوأ کا شکار ہو کر رہ گئے! سورن سنگھ نے ’’گردواڑہ جوگا شاہ (ڈبگری گارڈن پشاور)‘‘ کی تعمیرومرمت کے لئے بھی مالی وسائل مختص کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ تاہم یہ منصوبہ شروع نہ ہو سکا۔ پیربابا ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سورن سنگھ کا قتل 22 اپریل 2016ء کے روز ہوا جس کے بعد صوبائی حکومت نے 5 مئی 2016ء کو ’روی کمار‘ کو اقلیتی امور کا مشیر برائے وزیراعلیٰ مقرر کر رکھا ہے اور اب اقلیتی بہبود سے متعلق جملہ امور کے نگران ’روی کمار‘ ہیں‘ جنہیں اقلیتوں کا وہ اعتماد اور اپنائیت حاصل نہیں جیسا کہ سردار سورن سنگھ کو حاصل تھی۔ بہرحال سورن سنگھ کے قتل سے پیدا ہونے والا خلأ تاحال پُر نہیں ہو سکا ہے۔ صوبائی حکومت کو چاہئے کہ پہلی فرصت میں اقلیتوں کے حقوق کی ادائیگی (بہبود) پر توجہ دے اور ایک ایسے مستقل نمائندے کا انتخاب کیا جائے جسے جملہ اقلیتوں کی حمایت (تائید) حاصل ہو کیونکہ اقلتیوں میں پائی جانے والی بے چینی کسی بھی صورت نیک شگون نہیں۔ اقلیتیں ’پاکستان سے محبت‘ کے اظہار کا کوئی بھی موقع جانے نہیں دیتیں تو حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ اقلیتوں کی قربت حاصل کرنے کے لئے کوشش کرے۔ یاد رہے کہ سردار سورن سنگھ کے قتل کے بعد ’تحریک انصاف‘ کے اگلے نمائندہ ’بلدیو کمار‘ تھے تاہم وہ سردار سورن سنگھ قتل کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام پر زیرحراست ہیں اور تیسرے درجے پر ’روی کمار‘ تھے جنہیں وزیراعلیٰ کا مشیر بنایا گیا ہے۔

چودہ اگست (پاکستان کی قیام کی 70ویں سالگرہ) کے روز پہلی مرتبہ (بڑے پیمانے پر) پشاور کی سکھ براداری نے ’یوم آزادی کی مناسبت سے موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں پر مشتمل ریلی‘ نکالی جس کے شرکاء نے شہر کے مختلف حصوں سے ہوتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے سامنے پہنچ کر بھنگڑا‘ ڈانڈیا اُور لڈی ڈانس کے ذریعے اپنی خوشی کا اِظہار کیا۔ سبز اُور رنگ برنگی پگڑیوں میں زندہ دلان سکھ برادری اپنے بال بچوں کو ہمراہ لانا نہیں بھولی‘ جنہوں نے جشن میں بھرپور حصہ لیا۔ سکھوں کی طرح پشاور کی ہندو براداری بھی جشن آزادی میں شریک ہوئی اور گورگٹھڑی کے احاطے میں واقع ’شیومندر‘ میں رات گئے تک پاکستان کے گیت اور بھجن گونجتے رہے۔ سرپنج کاکا رام‘ چیئرمین رامیش گلو‘ چوہدری کشن لال‘ چوہدری کشور داس‘ چوہدری ثمرچند چوہان‘ گرو گورگھ ناتھ سیوک سبھا کے صدر ابدیش چوہان‘ نائب صدر شہزاد‘ جنرل سیکرٹری چیتن چوہان‘ جائنٹ سیکرٹری عامر‘ مکیش کالو اُور بنواری لال انتظامیہ کمیٹی میں پیش پیش تھے‘ جنہیں ذرائع ابلاغ کی اگرچہ خاطرخواہ توجہ نہیں ملی لیکن اُن کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ گورگٹھڑی کے احاطے میں مندر کی تعمیرومرمت اُور سہولیات میں اِضافہ کیا جائے۔

ایک عرصے بعد ’یوم آزادی‘ کا جشن ’مثالی جوش و خروش‘ سے منایا گیا۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں اَمن واَمان کی صورتحال میں غیرمعمولی بہتری ملحقہ قبائلی علاقوں میں فوجی اور اندرون و مضافاتی پشاور میں پولیس کاروائیاں (آپریشنز) ہیں لیکن پولیس کی صفوں میں ایسے عناصر (کالی بھیڑوں) کی موجودگی خارج ازامکان نہیں جو دیگر شہروں سے پشاور آ کر قبضہ مافیا کا کردار اَدا کرنے والے منظم جرائم پیشہ عناصر کے سہولت کار ہیں اور ایسے عناصر قریب ہر تھانے کی حدود میں پائے جاتے ہیں‘ جن کا دھندا (گھناؤنا کاروبار) پولیس تھانہ جات کی ملی بھگت کے بناء ممکن نہیں۔ پولیس کو غیرسیاسی بنانے کے دعویداروں کو چاہئے کہ ہر اعلیٰ و ادنیٰ پولیس اِہلکار کی مالی حیثیت (اثاثہ جات) کی چھان بین کرے۔ چہرے پر معصومیت اُور سینہ تان کر ’سلوٹ‘ مارنے والوں نے کس طرح اِختیارات کا ناجائز استعمال کیا اُور کس طرح پبلک ٹرانسپورٹ سے لیکر ’پراپرٹی ڈیلنگ‘ کے تانے بانے کسی نہ کسی پولیس اہلکار پر جا ملتے ہیں! آزادی کے ستر سال بسر ہوئے کیا یہ عرصہ ایک شعوری عمل تھا؟ آزادی اور حب الوطنی کے مفہوم ومعانی تلاش کرنے کی کبھی دانستہ کوشش بھی کی گئی؟

No comments:

Post a Comment