Friday, August 4, 2017

Aug 2017: Gulalai episode and role of media in politics framework!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
صحافت: سیاسی روبہ زوال اَقدار!
’تحریک اِنصاف پاکستان‘ کی مرکزی قیادت اِس بات کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہے کہ اُنہوں نے ملک کو ایسے نئے ’سیاسی کلچر‘ سے روشناس کرایا‘ جس میں غریب و متوسط طبقات کی طرح ایک معقول تعداد میں سرمایہ دار اور اُن روشن خیال طبقات سے تعلق رکھنے والے گھرانے بھی ’نئے پاکستان‘ کی انقلابی جدوجہد کا حصہ بنے‘ جو قبل اَزیں جلسے جلوسوں اُور بالخصوص عام انتخابات جیسی ہنگامہ آرائیوں سے الگ رہنے میں عافیت سمجھتے تھے۔ تحریک انصاف ہی ہے جس نے عوامی اجتماعات میں ملی نغموں‘ پارٹی کی تعریف میں تحریر و نغمائے گئے ترانوں اور سیاسی اجتماعات کے اختتام پر قومی ترانے کا ’استعمال‘ کیا۔ اِسی طرح سیاسی پیغامات کی ترسیل و تشہیر کے لئے سماجی رابطہ کاری کے وسائل بالخصوص ’ٹوئٹر (twitter)‘ کے اِستعمال کا سہرا بھی تحریک انصاف ہی کے سر ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کے سربراہ (وزیراعلیٰ) تک ’عوام و خواص کی رسائی‘ کا ذریعہ ’شکایات سیل ویب سائٹ‘ کا مطالعہ اور خاطرخواہ نتائج حاصل نہ ہونے کے محرکات اگرچہ الگ موضوع ہے تاہم کوشش ضرور کی گئی اور طرزحکمرانی کو حتی الوسع شفاف رکھنے کے لئے بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی ہی پر انحصار کیا گیا۔

خیبرپختونخوا حکومت کی موبائل فون اینڈرائرڈ ایپ (Phone App) بطور خاص قابل ذکر ہے جس کے ذریعے نہ صرف سالانہ ترقیاتی پروگرام پر عمل درآمد کی رفتار اور حکومت کی ترقیاتی ترجیحات کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اِس بارے صارفین اپنی آرأ و تجاویز سے بھی صوبائی حکمرانوں کو مطلع کر سکتے ہیں لیکن چونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بنیادی تصور ’ون وے‘ کیمونیکشن نہیں ہوتا‘ اِس لئے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ تحریک انصاف نے طرز حکمرانی کی اصلاح کے لئے ’اِی گورننس‘ (انفارمیشن ٹیکنالوجی) کے وسائل پر ایک خاص حد تک بھروسہ کیا لیکن بہت سے کاموں کی تکمیل ہونا ابھی باقی ہے جیسا کہ پورے خیبرپختونخوا کے ’لینڈ ریکارڈ‘ کی کمپیوٹرائزیشن۔ ترجیحات کی درجہ بندی درست اقدام ہوتا اگر اِسے پایا تکمیل تک بھی پہنچایا جاتا۔ بہرحال بالائی ہزارہ ڈویژن کے علاقوں پر مشتمل سیاحتی علاقے ’گلیات‘ میں جنگلات و اراضی کا سروے بذریعہ ’گوگل میپ‘ کرکے نئی حد بندیاں جاری کرنا غیرمعمولی عملی کوشش ہے‘ جس پر اعتراض کی ’گنجائش‘ باقی نہیں رہی لیکن ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ سے ’بے حدوحساب (غیرمحتاط)‘ استفادے میں تحریک انصاف کسی بھی دوسری جماعت سے پیچھے نہیں!

تحریک ویب سائٹ اُور سوشل میڈیا سے لیکر ’اینڈرائڈ ایپ‘ تک پھیلی ہوئی ہے لیکن قواعد و ضوابط کا نام و نشان نہیں ملتا۔ جس کی جو مرضی ہے لکھ رہا ہے اور پارٹی کے دفاع میں ترجمانی سے کم درجے پر خود کو فائز نہیں سمجھتا! تحریک کا ’مرکزی میڈیا سیل‘ بھی موجود ہے لیکن ہر رہنما اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاونٹ سے بیانات داغنے کے لئے ملی آزادی سے خوب محظوظ ہو رہا ہے۔ سیاست سے اخلاقیات کے رخصت ہونے کی تاریخ تو بہت پرانی ہے لیکن جس طرح عمومی و خصوصی آپسی رابطوں سے لیکر ’سوشل میڈیا‘ تک پھیلے ’مواصلاتی الیکٹرانک آلات‘ کا استعمال رازداری کے لئے ہوا ہے‘ اِس کا منفی اَثرات سیاسی اخلاقیات پر مرتب ہوئے ہیں کیونکہ حفظ مراتب کا لحاظ (پاس) نہیں رہا۔

تحریک انصاف سے چار سال تک وابستہ اور خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بننے کا اعزاز رکھنے والی ’محترمہ عائشہ گلالئی‘ کی مثال موجود ہے‘ جنہیں اور جن کے اہل خانہ کو نہ صرف تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا صارفین کی حددرجہ تنقید کا سامنا ہے بلکہ اُنہیں ذرائع ابلاغ بھی اپنی ’ریٹنگ‘ اور کسی سیاسی مؤقف کی حمایت میں دل کھول کر گھسیٹ رہے ہیں! عائشہ گلالئی تو رول ماڈل ہونی چاہئے کہ ہمارے جیسے ملک میں کسی بھی خاتون کے لئے اس قسم کی بات کرنا کمزور حوصلہ رکھنے والوں کے بس کی بات نہیں ہوتی! گلالئی کا یہ حق ہے کہ وہ جب چاہے اور جب مناسب سمجھے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو بیان کرے‘ لہٰذا یہ اعتراض بالکل غلط ہے کہ انہوں نے پارٹی قیادت کے ہراساں کرنے پر مبنی رویئے کو کم سے کم چار سال تک برداشت کیوں کیا! دیکھنا تو یہ چاہئے کہ مبینہ طور پر زیادتی ہوئی ہے یا نہیں اور اِس کا فیصلہ کرنے کے قومی ادارے موجود ہیں۔ کردار کشی اور تنقید کا استعمال ’زیادتی پر زیادتی‘ کرنے کے مترادف اقدام ہے۔ درحقیقت الزامات عائد کرنے والی گلالئی پر ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیان کے حق میں ناقابل تردید ثبوت فراہم کریں۔ گلالئی پر الزام ہے کہ اُنہوں نے تحریک انصاف کے مخالفین سے پیسے لیکر چیئرمین تحریک انصاف پر ’جنسی ہراساں‘ کرنے کے الزامات عائد کئے ہیں اگر اِس بیان کو درست مان بھی لیا جائے کہ انہوں نے سب کچھ پیسوں کے لئے کیا ہے پھر بھی موبائل فون پیغامات کے ذریعے ’ہراساں‘ ہونے پر مبنی اُن کا اقدام غلط نہیں ہوسکتا۔

گلالئی پاکستان کی صحافت کے لئے بھی ایک ’ٹیسٹ کیس‘ ہے۔ پانامہ کیس کی طرح نجی ٹیلی ویژن چینلز بھی ’گلالئی‘ کے معاملے پر واضح تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی اختلافات پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے تقسیم ہونے کی سمجھ تو آتی ہے لیکن کسی خاتون کے خود کو ہراساں کئے جانے کے بیان کو بھی ’سیاسی تناظر اور حالات‘ کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرنے والوں سے دانستہ غلطی سرزد ہو رہی ہے۔ تین اگست کی صبح سینیئر صحافی و تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی سے ٹیلی فونک بات چیت میں درخواست کی گئی کہ وہ پاکستان میں ’نجی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا‘ کے کردار اُور غیرجانبداری کے اَصولوں پر مبنی صحافتی اَخلاقیات کو اُجاگر کریں‘ کیونکہ پاکستان میں جس طرح صحافت فعال بصورت ’روبہ زوال‘ ہے اِس کی واپسی ’اَزخود‘ نہیں ہوگی۔ ہر ’نیوز چینل‘ کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ’اِدارتی پالیسی‘ رکھے‘ جس کا اِظہار (عکس) اُس کی ’نیوز کوریج‘ میں دکھائی دے لیکن ’بحث و مباحثوں (ٹاک شوز)‘ میں سوالات و جوالات پہلے ہی سے سوچ کر کسی خاص سیاسی جماعت کے مؤقف کو آگے بڑھانا کہاں کی صحافت‘ عدل و اِعتدال ہے۔ یہ اَمر بھی لائق توجہ ہے کہ پاکستان کے سینئر صحافیوں میں صرف ’رحیم اللہ یوسفزئی‘ ہی کے کندھوں پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی لیکن وہ ’مشعل بردار‘ کا کردار اَدا کرتے ہوئے صحافت کو کھوئی ہوئی ساکھ (عزت و وقار) ضرور واپس دلا سکتے ہیں۔

آج اگر دیگر شعبوں کے مقابلے صحافتی پیشے سے وابستہ افراد کے بارے عمومی و اکثریتی رائے قابل ذکر نہیں تو اِس کے لئے صرف اور صرف (اکلوتا) ’ذمہ دار‘ میڈیا ہاؤسیز کی ’کاروباری سوچ‘ کو قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اِس ’کارخیر‘ میں صحافیوں کی ایک تعداد بھی شامل رہی ہے‘ جنہوں نے اپنے رہن سہن اور مالی حیثیت کو راتوں رات بڑھانے کے لئے علم و محنت (تجربے) کی بجائے ’شارٹ کٹ‘ اِختیار کیا۔ اِدارے کے لئے اشتہارات اکٹھا کرنے سے ’ائرٹائم‘ کی فروخت تک کو ممکن بنانے والوں نے صحافت سے زیادہ اداروں کے مفادات کو پیش نظر رکھا اور پھر توازن برقرار نہ رکھ پائے تو نتیجہ سب کے سامنے ہے لیکن اگر اِن روئیوں اُور کاروباری طریقۂ کار کی اِس مرحلے پر اِصلاح نہ کی گئی تو موجودہ اُور آنے والی نسل (روائتی عمومی اَندھی تقلید میں) اِسی ’کاروباری طرز عمل‘ کو صحافت سمجھ کر اِختیار کرتی چلی جائے گی! پاکستان میں ’صحافت برائے صحافت تحریک‘ کے لئے جہاں نظریں متعلقہ تعلیمی اِداروں کی طرف اُٹھتی ہیں‘ وہیں ہر سینئر کو اَپنا ’رہنما کردار‘ اَدا کرنے کے لئے ’دامے درہمے سخنے‘ کوشش کرنا ہوگی کیونکہ ’’برائی کے خلاف دل میں کراہت محسوس کرنے کا شمار بھی ’ایمان کے کم ترین درجے‘ میں کیا جاتا ہے۔

‘‘ صحافت کی واپسی اُور صحافت کی طرف واپسی‘ کے لئے ماضی کی طرح ’بے لوث کوششیں‘ درکار ہیں‘ جس طرح آمرانہ اَدوار میں ’آزادئ اظہار‘ کے لئے قربانیاں دے کر ’خودمختار و آزاد پریس کلبس اُور یونین آف جرنلسٹس‘ حاصل کئے گئے‘ والعصر متقاضی ہے کہ صحافت کو غیرسیاسی (depoliticize) کیا جائے اُور مزید بحث اُور تنازعہ میں اُلجھنے کی بجائے عالمی طور پر مسلمہ (رائج) صحافتی اَخلاقیات و اَقدار کے اَصولوں کو رائج یا کم سے کم انہیں ’لائق مطالعہ و عمل بنا کر‘ متعارف کیا جائے۔ صحافت کے مستقبل کے لئے فکرمند ’’صائب الرائے سینئرز‘‘ چونکہ میڈیا ہاؤسیز کے مالکان تک براہ راست رسائی اور تجربے کی بنیاد پر اپنی بات میں وزن رکھتے ہیں‘ اِس لئے صحافتی نشاۃ ثانیہ‘ اِس کی غیرجانبداری اُور فعالیت کی بحالی میں‘ اُن سے رہنما (کلیدی) کردار اَدا کرنے کی توقع (التجا) ہے۔


No comments:

Post a Comment