Thursday, August 3, 2017

Aug 2017: PM Election - a view from the Gallery!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قومی اسمبلی: نعرے اُور نظارے!
آئین پاکستان میں ’عبوری وزیراعظم‘ کے نام سے کسی ’عہدے‘ کا ذکر نہیں ملتا۔ قومی اسمبلی کے ایوان سے کثرت رائے کی بنیاد پر منتخب ہونے کی شرط کے ساتھ کوئی بھی رکن (ایم این اے) وزیراعظم بن سکتا ہے لیکن وہ ’عبوری‘ نہیں ہوگا۔ اِس اصطلاحی و آئینی وضاحت کی ضرورت اِس لئے بھی پیش آئی کیونکہ ’یکم اگست‘ کے روز قومی اسمبلی میں مہمانوں کی گیلری میں بُراجمان اور اکثر نجی ٹیلی ویژن چینلوں کے نمائندے موبائل فونز پر چیخ چیخ کر ’عبوری‘ کا لاحقہ متواتر استعمال کر رہے تھے۔ 

چیخنے کی ضرورت اِس لئے پیش آ رہی تھی کہ قومی اسمبلی ایوان کے شایان شان خاموشی اور سنجیدگی دیکھنے میں نہیں آ رہی تھی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ وزیراعظم کا انتخاب جب کبھی بھی ہوتا ہے تو اکثریتی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کے انتخابی حلقے اور سیاسی جماعت کے سرگرم کارکنوں کی بڑی تعداد اِس موقع پر مدعو ہوتی ہے اور انہیں قومی اسمبلی میں داخلے کے خصوصی اجازت نامے (پاسیز) جاری کئے جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں داخلے کا اجازت نامہ کسی عام پاکستانی کے لئے حاصل کرنا ’ناممکن‘ حد تک دشوار ہے اور اِس بارے میں رہنمائی بھی دستیاب نہیں۔ اصولی طور پر ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کی ووٹرز لسٹ (ووٹ دینے کے اہل افراد کی فہرست) میں جس کسی کا بھی نام درج ہو‘ وہ اہل ہونا چاہئے کہ جب چاہے قومی اسمبلی یا اِس کی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں کا بطور مہمان مشاہدہ و مطالعہ کر سکے اور جان سکے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کی کارکردگی کیا ہے۔ 

بھارت میں قومی اُور ریاستی صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں کی براہ راست نشریات کے لئے الگ الگ ٹیلی ویژن چینلز فعال ہیں جو ’دور درشن (ڈی ڈی فری ڈش)‘ کی ’ڈائریکٹ ٹو ہوم (ڈی ٹی ایچ)‘ کے ذریعے ’93.5 ڈگری‘ مشرق کی سمت صرف پانچ سو روپے مالیت کے اضافی ’2 فٹ‘ ڈش اِنٹینا کی مدد سے موصول کئے جا سکتے ہیں۔ بہرحال یہ الگ موضوع ہے کیونکہ ہمارے ہاں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو عوام کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھا جاتا اُور عمومی تصور بھی یہی ہے کہ منتخب نمائندوں کے اِحتساب کا واحد ذریعہ صرف ’عام انتخابات‘ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ رہی کہ موجودہ قومی اسمبلی سے قبل اراکین اسمبلی کی حاضری ’خفیہ‘ رکھی جاتی تھی لیکن اب اِسے مختلف ویب سائٹس پر باقاعدگی سے جاری کیا جاتا ہے۔

یکم اگست کو موجودہ قومی اسمبلی کا ’44واں یک نکاتی اِجلاس‘ طلب کیا گیا ہے‘ جس کا کل دورانیہ تین گھنٹے تیس منٹ رہا۔ جب پاکستان کے وزیراعظم کا انتخاب ہونا تھا اور پوری دنیا کی نظریں ہماری قومی اسمبلی پر لگی ہوئی تھیں‘ تب طلب کردہ اجلاس سہ پہر تین بجے کی بجائے اکیاون منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔ ہمارے منتخب نمائندوں نے قوم کو وقت کی پابندی کا کیا اچھا درس دیا۔ واہ واہ۔ ملک کے 28ویں وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر جب اِجلاس شروع ہوا‘ تو ’257 اراکین‘ قومی اسمبلی (75فیصد) موجود تھے لیکن اِختتام کے وقت اِن کی تعداد کم ہوکر صرف ’27فیصد (94 اراکین)‘ رہ گئی تھی یعنی اَراکین قومی اسمبلی نہ تو بروقت حاضری یقینی بناتے ہیں اور نہ ہی اجلاس کے اختتام تک ایوان میں موجود رہنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اِس پر بھی ’واہ واہ‘ تو بنتی ہے! قومی اسمبلی کی پرہجوم گیلری سے نظارے اور قومی اسمبلی اجلاس میں شریک اراکین کے نعرے بیان تھے کہ ’یکم اگست‘ کا دن سیاسی وابستگیوں کے اظہار کا موقع سمجھا گیا۔ 

انتخاب ملک کے وزیراعظم کا ہو رہا تھا اور ’’زندہ باد و مردہ باد‘‘ کے نعروں کی گونج میں ایک دوسرے کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ اشارے کئے جا رہے تھے! خواتین اراکین اسمبلی اپنے ساتھ ’نواز شریف‘ کی تصاویر لے آئیں تھیں‘ جنہوں نے یہاں وہاں آویزاں کر دیا گیا۔ جن صحافیوں کو ماضی میں وزیراعظم کے انتخاب کا نظارہ کرنے کا شرف مل چکا ہے اُن کے لئے ’یکم اگست‘ اِس لئے مختلف تھا کہ اِس مرتبہ ’وزیٹرز گیلری‘ سے اراکین اسمبلی پر نعروں اور غیراخلاقی زبان میں ’باآواز بلند‘ تنقید کی بارش کی گئی! ماضی میں کبھی بھی ایسا نہیں دیکھا گیا کہ مہمانوں نے اس قدر شور شرابا کیا ہو۔ اِسی طرح یہ بھی کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں میں حزب اختلاف سے زیادہ حزب اقتدار والے پیش پیش ہوں۔ خود اسپیکر کو ایک مرحلے پر کہنا پڑا کہ اگر وزیراعظم کے اُمیدوار شیخ رشید کی تقریر کے دوران ہنگامہ ختم نہ کیا گیا تو انہیں ڈیوٹی پر موجود محافظوں کی خدمات حاصل کرنا پڑیں گی لیکن ایسا عملاً کیا نہیں گیا۔ 

صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی شورشرابا کرنے والوں کی حمایت کر رہے ہیں بصورت دیگر وہ اجلاس کی کاروائی روک کر ’وزیٹرز گیلری‘ خالی کرنے کا حکم دے سکتے تھے جہاں سے ہنگامہ آرائی کا آغاز ہوا تھا! وزیراعظم کے انتخاب کا خصوصی موقع ہو یا عمومی اجلاس ماسوائے ’پی ٹی وی‘ اور اسمبلی ملازمین ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ’فلور آف دی ہاؤس‘ جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور جملہ ذرائع ابلاغ کو ’پاکستان ٹیلی ویژن‘ کی نشریات یا پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ہونے والی نشریات و تصاویر پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ ماضی میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ ’پی ٹی وی‘ نے وزیراعظم کے کسی اُمیدوار کی تقریر نشر کرنے سے روک لی ہو۔ شاہد خاقان عباسی کے بعد ’نوید قمر‘ نے ایوان کا شکریہ اَدا کیا بطور وزیراعظم اگرچہ شاہد خاقان کی تقریر کا معیار بلند نہیں تھا لیکن چونکہ (منطقی ضرورت تھی کہ) اُنہیں اور دیگر اراکین اسمبلی کو ’نواز شریف سے اپنی سیاسی وابستگی اُور وفاداری‘ کا زبانی و عملی مظاہرہ کرنا تھا اِس لئے وہ ہر حد سے گزرتے چلے گئے لیکن اِس کا قطعی مطلب یہ نہیں تھا کہ دوسروں سے ’فلور آف دی ہاؤس خطاب‘ کا حق چھین لیا جاتا۔ قوم دیکھ رہی تھی کہ شیخ رشید احمد کا خطاب جاری ہے اور وہ ابھی تمہید سے آگے ہی بڑھے تھے کہ ’پی ٹی وی‘ نے پہلے اُن کا مائیکروفون (صوتی نشریات) بند کی اور بعد میں ٹرانسمیشن ہی ختم کر دی گئی! 

شیخ رشید احمد کے بیان کردہ یہ حقائق اور اعتراضات درست ہیں کہ ’’پاکستان ٹیلی ویژن‘ قومی اِدارہ ہے جس کے اَخراجات پوری قوم بجلی کے ماہانہ بلوں میں ’لائسینس فیس‘ کی صورت برداشت کرتی ہے لیکن جس طرح یہ ’قومی اِدارہ‘ صرف اُور صرف ’حکمراں جماعت‘ کا ترجمان بنا ہوا ہے‘ وہ قطعی طور پر اَصولی طرزعمل نہیں۔ قومی اسمبلی پاکستان کا نمائندہ اِدارہ ہے۔ وزیراعظم کسی ایک سیاسی جماعت کے نہیں بلکہ ہر پاکستانی کے مفادات کے محافظ ہیں۔ ٹیلی ویژن‘ ریڈیو اور پی آئی ڈی‘ بھی پاکستان کے مؤقف اُور اِداروں کے ترجمان ہیں لیکن کیا ایسا عملی طور پر ہوتا بھی ہے؟

No comments:

Post a Comment