Wednesday, August 2, 2017

Aug 2017: The solo flight of PTI might hurt its struggle of Naya Pakistan!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عظیم مقصد: سیاسی تنہائی!
سپرئم کورٹ اگر کمال مہربانی کا مظاہرہ نہ کرتی تو ’پانامہ کیس‘ کا فیصلہ‘ زیادہ سخت بھی ہوسکتا تھا کیونکہ عدالت کے سامنے صرف ’صداقت و امانت‘ ہی کے تحت نہیں بلکہ بیرون ملک اثاثوں کی ملکیت‘ آمدن کے ذرائع‘ ظاہری وپوشیدہ جائیدادوں کی خریداری کے لئے مشکوک مالی وسائل اُور اُن اِن وسائل کی بیرون ملک نامعلوم طریقوں سے منتقلی جیسے چند ناقابل تردید حقائق موجود تھے۔ عدالت کے مسلسل استفسار (اصرار) کے باوجود بھی شریف خاندان تسلی بخش ثبوت اور مطلوبہ دستاویزات فراہم نہیں کرسکا تو اب ’نوازلیگ‘ کی جانب سے سپرئم کورٹ کا فیصلہ عوام کی نظروں میں مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور سپرئم کورٹ سے ’نواز شریف کی نااہلی سے متعلق فیصلے پر نظرثانی‘ کرنے پر مشاورت اُور ذرائع ابلاغ میں بحث و مباحثے جاری ہیں۔ پانامہ پیپرز کی صورت بیرون ملک (آف شور) کمپنیوں کی ملکیت کے ثبوت ظاہر ہوئے۔ شریف خاندان سے جب مذکورہ بیرون ملک جائیداد کی ملکیت کے بارے سوال کیا گیا تو ملکیت تسلیم کرنے کے باوجود وہ دستاویزی ثبوتوں کی تصدیق یا تردید نہ کر سکے اُور جس سرمائے سے یہ اثاثے خریدے گئے‘ اُن کی حقیقت اور خریداری میں استعمال ہونے والے سرمائے یا مالی وسائل کی منتقلی (منی ٹرائل) سے متعلق بھی مطلوبہ دستاویزات پیش نہ کرسکے۔ 

سپرئم کورٹ اور چھ رکنی ’تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کے سامنے ’نواز لیگ‘ کے بیانات ’عدالتی ریکارڈ‘ کا حصہ ہیں اور خفیہ بھی نہیں جنہیں کوئی بھی حاصل کرکے مطالعہ کر سکتا ہے۔ نواز لیگ کی قیادت نے عدالت کے روبرو جو کچھ پیش کیا‘ اُن میں عرب ملک قطر کے شہزادے کی جانب سے فراہم کئے گئے مالی وسائل کا ذکر تو ملتا ہے لیکن اِن قطری خطوط کے اصل (درست) ہونے کو ثابت نہیں کیا جاسکا۔

نواز شریف کا دفاع کرتے ہوئے ’پانامہ کیس فیصلے‘ پر جو ’عمومی اعتراض‘ کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ’’نوازشریف نے جو تنخواہ وصول نہیں کی گئی اُس کی اُنہیں سزا کیوں دی گئی ہے؟‘‘ جبکہ عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ کسی شخص کی کسی اِدارے کے ذمے ’واجب الادأ تنخواہ‘ بھی اُس کی آمدنی (اثاثہ) ہوتی ہے۔ تین ضمنی سوالات یہ ہیں کہ 1: نوازشریف نے متحدہ عرب امارات میں جائیداد کی خریداری‘ کاروبار اور بینک اکاونٹ رکھنے کے لئے ’اَقامہ‘ کیوں حاصل کیا؟ 2: اپنے ہی بیٹے کی کمپنی میں انہیں ملازمت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اُور 3: اِس ملازمت کے عوض جو مخصوص رقم باقاعدگی کے ساتھ ہر ماہ اُن کے ذاتی ’بینک اکاونٹ‘ میں جمع ہوتی رہی‘ کیا اُس بینک اکاونٹ کی تفصیلات انہوں نے عدالت کے طلب کرنے کیوں پیش نہیں کیں؟ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے باشندوں کی اکثریت کسی دوسرے ملک بالخصوص روزگار اور کاروبار کے لئے موافق ممالک کے ویزے حاصل کرنے کے اِکا دُکا جھوٹی دستاویزات سے کام لیتی ہے لیکن کسی ملک کے ’ویزے‘ اُور عرب ممالک کے ’اقامے‘ میں فرق یہ ہے کہ اقامہ رکھنے والے کو رہائش و کاروبار کرنے کی وہی سہولیات میسر ہوتی ہیں جو اُس ملک کے دیگر باشندوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ وزیراعظم کے ’اقامہ‘ میں درج اُن کا عہدہ بھی ایک ایسا قابل گرفت جرم (جھوٹ) ہے‘ جس کا عدالت کے روبرو اُن کے وکلاء دفاع کرنے میں ناکام رہے ہیں! لیکن اِس سچ کو بیان نہیں کیا جاتا۔

سپرئم کورٹ کے صادر کردہ ’پانامہ کیس فیصلے‘ سے ملک کی ایک بڑی سیاسی اور قومی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کی ’تاحیات نااہلی‘ نہ ہوتی اگر پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اِداروں اُور بالخصوص احتساب کا اِدارہ کماحقہ فعال ہوتا۔ اِداروں کی کمزوری سے صرف کسی ایک سیاسی خاندان ہی نے نہیں بلکہ بہت سے دوسرے موقع پرستوں نے بھی فائدہ اُٹھایا ہے۔ شریف خاندان پاکستان کا ایسا پہلا حکمراں خاندان ہے جو سیاست میں آیا اور تیس برس سے زائد اُس عوام کے حقوق کا محافظ بنا ہوا ہے جن کی 60فیصد سے زیادہ تعداد ’خط غربت‘ سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے! قومی وسائل ذاتی اثاثوں میں تبدیل نہ ہوں اِس کے لئے قومی اِداروں کو مضبوط بنائے بغیر بذریعہ سپرئم کورٹ ’حالت حال‘ درست نہیں ہو گی۔ جملہ قومی اداروں کو بااختیار و خودمختار بنانا ہوگا۔ کیا کسی جمہوری ملک میں سپرئم کورٹ ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مالی و انتظامی بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں سمیت ہر معاملے کو درست کرے؟ کیا پاکستان میں قومی اداروں کو داخلی اصلاحات کی ضرورت نہیں؟ کیا اِداروں کو اپنے بارے تاثر تبدیل نہیں کرنا کہ وہ حکمرانوں کے نہیں بلکہ ملک کے ملازم اور قومی مفادات کے محافظ ہیں؟ اداروں کے لئے سربراہوں کی تعیناتی کا عمل اگر سیاسی مقاصد کے تابع اور محدود ہو چکاہے‘ تو اِس سلسلے میں بھی اصلاحات ہی اُس مسئلے کا حل ہو سکتا ہے‘ جو بحرانی شکل اختیار کر چکا ہے۔

پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد ’پاکستان تحریک انصاف‘ ایسی جماعت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہے جو تنظیمی طور پر مثالی نظم و ضبط نہیں رکھتی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پارٹی کی مرکزی پالیسیاں مرتب کرنے میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ ہم آہنگی پر مبنی ’جمہوری طرزعمل‘ کا فقدان عام ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو دیگر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کئے بناء ’بیٹھے بیٹھائے‘ شیخ رشید کا نام ’وزارت عظمیٰ کے لئے بطور اُمیدوار‘ نامزد نہ کر دیا جاتا اُور یہ اعلان خود شیخ رشید کے لئے بھی باعث حیرت نہ ہوتا جنہوں نے اظہار تشکر کے طور پر کہا کہ ’’عمران خان نے مجھے خرید لیا ہے‘‘ لیکن کس قیمت پر؟ پس منظر یہ ہے کہ ’پانامہ کیس‘ کی صورت آئینی محاذ پر تین سیاسی جماعتوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ سراج الحق (چھبیس اگست اُنیس سو اکتالیس سے فعال جماعت اسلامی پاکستان کے موجودہ سربراہ)‘ شیخ رشید (جون دوہزار آٹھ سے عوامی مسلم لیگ کے بانی) اُور عمران خان (پچیس اپریل اُنیس سو چھیانوے کو قائم ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کے منتخب چیئرمین) نے ایک دوسرے سے بڑھ کر ’دامے درہمے سخنے‘ جدوجہد کی لیکن اِن تینوں میں ’شیخ رشید‘ ہی سب سے زیادہ فعال دکھائی رہے اور اُن کی چٹخارے دار تبصروں نے نہ صرف ملک کے سیاسی ماحول کو گرمائے رکھا بلکہ ایک سال سے زائد چلنے والے مقدمے کو عوام کے ذہنوں میں زندہ بھی رکھا‘ وگرنہ تو ایک وفاقی وزیر نے قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر ’آن دی ریکارڈ‘ کہا تھا کہ ’’قوم ’پانامہ‘ جلد بھول جائے گی۔‘ اور شیخ رشید نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ 

پانامہ مقدمے کے اہم فریق سراج الحق چونکہ قانون ساز اِیوان بالا (سینیٹ) کے رُکن ہیں اور وہ وزیراعظم کا اِنتخاب لڑنے کے لئے اہل نہیں‘ اِس لئے پی ٹی آئی کی جانب سے ’شیخ رشید‘ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن یہ ’اعزاز‘ زیادہ باوقار اُور شیخ رشید کے لئے زیادہ باعث افتخار ہوسکتا تھا‘ اگر اِس میں حزب اختلاف کی جملہ سیاسی جماعتیں شریک ہوتیں۔ کہیں ’سولو فلائٹ‘ کی خواہش ’تحریک انصاف‘ کو لے ڈوبنے کا سبب ہی نہ بن جائے؟

No comments:

Post a Comment