ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
بے یقینی سے یقین کا سفر!
اب کیا ہوگا؟
عبوری وزیراعظم کے لئے نامزد امیدوار کا نام نامی اسم گرامی بھی اُس فہرست میں شامل ہے جس میں ’دوسوبیس ارب روپے جیسی خطیر ’مالی بدانتظامی‘ کی ہوئی اور یہ معاملہ سال دوہزار پندرہ میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے سامنے زیرغور ہے بطور وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے قطر سے’’لیکویفائڈ نیچرل گیس (ایل این جی)‘‘ درآمد کرنے کا معاہدہ کیا اور وہ اِس معاملے میں ’مرکزی ملزم‘ ہیں! جبکہ دیگر ملزمان میں سابق سیکریٹری پٹرولیم عابد سعید‘ انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم (آئی ایس جی ایس) کے مینیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) مبین صولت‘ نجی کمپنی اینگرو کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر عمران الحق اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر ظہیر احمد صدیقی شامل ہیں۔
سوشل میڈیا پر زیرگردش نیب دستاویزات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سال دوہزار تیرہ کے دوران ایل این جی کی درآمد اور تقسیم کا معاہدہ ’اینگرو‘ کی ذیلی کمپنی ‘ایلینجی ٹرمینل‘ کو دیا گیا تھا اور یہ معاہدہ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے ضوابط اور متعلقہ قوانین کے خلاف تھا۔ اس معاہدے کے خلاف ’نیب‘ نے ’اُنتیس جون دوہزارپندرہ‘ کو کیس رجسٹر کیا‘ جس کی تحقیقات تاحال جاری ہیں‘ جو چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کے اس دعوے کے برعکس ہے کہ ان کی متعارف کروائی گئی حکمت عملی کے تحت شکایت کی تصدیق‘ انکوائری اور ریفرنس دائر ہونے کا عمل ’دس ماہ‘ میں مکمل ہوجاتا ہے۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ شریف خاندان کے خلاف دیگر کئی مقدمات کی طرح نیب اس کیس کو بھی نظرانداز کرچکی ہے۔ یہ مقدمہ ماہر توانائی اور پلاننگ کمیشن کے سابق رکن شاہد ستار و دیگر کی شکایت پر درج کیا گیا تھا‘ جس میں شاہد خاقان عباسی پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرکے پندرہ سال میں قومی خزانے کو دو ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ نیب دستاویزات میں یہ بھی تحریر ہے کہ ’ایل این جی‘ معاہدے کے حوالے سے جاری اس کیس کے تمام ملزمان کے نام ’ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل)‘ میں ڈالنے کی تجویز دی جاچکی ہے جس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ حزب اختلاف کی جماعتیں تحریک انصاف کی ہم آواز ہو کر جب یہ کہتی ہیں کہ قومی اداروں کو کمزور کیا گیا تو ایسی مثالوں سے بات کا ’سیاق و سباق‘ سمجھ میں آ جاتا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتیں ’نواز لیگ‘ پر سیاسی و آئینی دباؤ برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ حکمت عملی یہی ہے کہ مزید مقدمات درج کئے جائیں۔ ’نیب‘ کے تحت درج ہونے والے نئے اور ماضی کے مقدمات سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ عدالتیں اِس وقت مرکز نگاہ بنی ہوئی ہیں۔ نواز لیگ کے لئے شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کرنے کے پیچھے کارفرما محرک یہ ہوگا کہ 2018ء کے عام انتخابات میں واپسی اور نوازلیگ کو بچایا جا سکے۔ حکمت عملی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ’پانامہ کیس‘ کے فیصلے پر شکوک و شبہات اُٹھائے جائیں اور اِسے عوام کی نظروں میں مشکوک بنا دیا جائے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جب پرویز مشرف نے ملک سے باہر جانے کے بعد راحیل شریف اور عدالتوں کا شکریہ ادا کیا اور انٹرویو میں کہا کہ ’’پاکستان میں عدالت جھکاؤ رکھتی ہے۔‘‘ پرویز مشرف کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے نواز لیگ کا مؤقف ہے کہ فوج پانامہ کیس کے فیصلے پیچھے ہے لیکن ماضی میں فوج کے ادارے اور آج کی عسکری قیادت کو ایک عینک لگا کر نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ عدلیہ پر اندھا اعتماد کرنے نواز لیگ کے منہ سے پشیمانی کے الفاظ سن کر حیرانی سے زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ سیاسی مفادات کے لئے قومی اداروں کی ساکھ کو خاطر میں نہیں لایا جاتا!
پانامہ کیس کے فیصلے کو ’عدالتی بغاوت‘ قرار دینے والے اگر اپنے ہی ماضی کو دیکھیں تو خاموشی اختیار کر لیں گے۔ جسٹس ثاقب نثار وہی ’محترم‘ ہیں جو ماضی میں نواز شریف کے لئے بااعتماد وکالت کرنے کا شرف رکھتے ہیں اور جب (31دسمبر2016ء) ثاقب نثار 25ویں چیف جسٹس بنے تو تحریک انصاف کے چند وکلاء (جن کے کسی سبب عدلیہ کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے) اُنہوں نے عمران خان کو اُکسایا کہ چیف جسٹس کی تعیناتی کی مخالفت کریں لیکن وہ باتوں میں نہ آئے اور درحقیقت بال بال بچ گئے۔ نواز لیگ کو چاہئے کہ شہباز شریف کو اگر وزارت عظمی کا اُمیدوار بنا دیا گیا ہے تو اب اُن کے لئے داخلی اور خارجی محاذ پر مشکلات کھڑی نہ کریں۔ ایسے بیانات تو ہرگز ہرگز نہ دیں جس سے اداروں یا اُن کے فیصلوں کی توہین کا پہلو نکلتا ہو کیونکہ اداروں سے محاذ آرائی کی سیاست کسی کے لئے مفید نہیں ہوگی۔ نواز شریف کو چاہئے کہ باقی ماندہ پارٹی کو ناعاقبت اندیش ساتھیوں کے ’شر سے محفوظ‘ رکھیں اور جملہ پارٹی رہنماؤں کو اِس بات کا پابند بنائیں کہ صرف اُس وقت لب کشائی کریں جبکہ اُن کے الفاظ خاموشی سے بہتر ہوں اور یہ بھی لازم بنائیں کہ پارٹی رہنماؤں کو پریس کانفرنس کی صورت مؤقف کی پیشگی اجازت لینا ہوگی۔
پانامہ کیس فیصلہ آنے سے پہلے اور بعد میں پاک فوج کا ادارہ خود کو سیاست سے الگ رکھے ہوئے ہے۔ آخری کور کمانڈر میٹنگ میں بھی یہی بات سامنے آئی تھی کہ عدلیہ کی بہرحال و بہرصورت حمایت کی جائے گی۔ پانامہ کیس کے فیصلے پر سازش کا الزام تو عائد کیا جاتا ہے لیکن اِس کے ثبوت نہیں دیئے جاتے۔ اگر چھ رکنی تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) سازش تھی تو یہ فیصلہ سپرئم کورٹ کا تھا۔
آئی ایس آئی اور ایم آئی کی شمولیت پر فوج کے کچھ حلقوں نے تحفظات اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ اگر فیصلہ نواز شریف کے حق پر آیا تو بھی فوج مشکل میں ہوگی لیکن جب بعدازاں انہیں بتایا گیا کہ سپرئم کورٹ فیصلے کے سامنے شرکت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہا تو پاک فوج کے سربراہ کی منظوری سے ’ڈان لیکس‘ معاملے کی تحقیقات کرنے اُور مریم نواز کو بے گناہ قرار دینے والے دو افسروں کو منتخب کیا گیا۔ اگر کسی کو ’جے آئی ٹی‘ پر اعتراض ہے تو وہ سوچ لے کہ ہر انگلی اور ہر لفظ کا نشانہ سپرئم کورٹ ہو گی جو پہلے ہی حد سے زیادہ صبر کا مظاہرہ کر رہی ہے! سپرئم کورٹ بشمول ’جے آئی ٹی‘ جس طرح ایک امتحان میں پوری اُتری ہے اسی طرح اب احتساب عدالتوں اور ’نیب‘ کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔
احتساب اہم لیکن احتساب پر سمجھوتہ نہ کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہو چکا ہے۔ خود فریبی کی بجائے حقیقت پسندی سے کام لیا جائے۔ اقوام کے لئے افراد کبھی بھی ناگزیر نہیں ہوتے۔ اگر کوئی مالی معاملات میں ’امانت و دیانت کے اَصولوں (کم سے کم آئینی تقاضوں)‘ پر پورا نہیں اُترتا‘ تو ایسے کردار یا کرداروں کو کس طرح قومی فیصلہ سازی اور دیگر اَہم بشمول مالی ذمہ داریاں سونپ کر اِطمینان حاصل کیا جاسکتا ہے کہ وہ قوم کی توقعات پر پورا اُتریں گے؟
No comments:
Post a Comment