Monday, September 25, 2017

Sept 2017: The trust deficit between neighbors and the foreign policy of Pakistan

روزنامہ آج پشاور ۔۔۔25 ستمبر 2017ء
شکوہ‘ جواب شکوہ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کی وزیرخارجہ سشماسوراج نے ’’پاکستان کو دہشت گرد برآمد کرنے والی فیکٹری‘‘ قرار دیا تو پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے ’’بھارت کو جنوب ایشیاء میں دہشت گردی کی ماں اور سرپرست اعلیٰ سے تعبیر کیا۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بات بڑھاتے ہوئے یہاں تک کہا دیا کہ ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت درحقیقت سب سے بڑی منافقت ہے۔‘‘ کیا واقعی اِس خرابی کا امکان موجود ہے کہ ’جمہوریت منافقت بھی ہو سکتی ہے؟‘ امر واقعہ یہ ہے کہ جوہری صلاحیت رکھنے والے دو ہمسایہ ممالک (پاکستان اور بھارت) کے درمیان سرحدی کشیدگی اُس وقت تک ختم نہیں ہو سکے گی جب تک ’الفاظ کی جاری جنگ‘ ختم نہیں ہو جاتی۔ امن‘ دوستی اور بقائے باہمی کے اِمکانات لامحدود ہیں۔ ہر سطح پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعاون کے فروغ بالخصوص تجارت کے ذریعے دونوں ممالک کے لئے عملاً ممکن ہوگا کہ وہ انسانی ترقی کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں اور دفاع کی بجائے غربت میں کمی اور صحت و تعلیم کے شعبوں کی بہتری پر مالی وسائل کا بڑا حصہ کریں لیکن کہیں ایسا تو نہیں دونوں ممالک کو ایک دوسرے کا ’روائتی اور دیرینہ دشمن‘ بنائے رکھنا کسی ایسی عالمی سازش کا حصہ ہو‘ جس کی اسلحہ ساز صنعتوں کے کاروباری (صنعتی) مفادات اِسی میں ہوں کہ پاکستان‘ بھارت اور افغانستان ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکیں!؟
پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کو فعال کرنے کی حالیہ دنوں میں کوششوں کا مرکزی نکتہ یہی دکھائی دیتا ہے کہ بھارت اور افغانستان کی طرف سے آنے والے تنقید کے ہر نشتر کا فوری جواب دیا جائے۔ ’شکوہ جواب شکوہ‘ کے اِس نئے دور (مرحلے) میں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ صرف بھارت کے بیانات کا جواب دینا ہی کافی نہیں بلکہ پاکستان کی داخلی و خارجہ پالیسیوں سے وہ ماحول بھی بنانا بھی ہوگا جس سے دنیا ہمارے مؤقف کو تسلیم کرے اور یقین بھی کرے کہ پاکستان دراصل خود دہشت گردی کا شکار ہے تو وہ کس طرح غیرریاستی کرداروں کی پشت پناہی کے ذریعے دہشت گردی کی پشت پناہی کرسکتا ہے! دنیا کی آنکھوں سے اُس وقت تک پاکستان کے لئے ہمدردی اور یک جہتی میں ایک آنسو بھی نہیں ٹپکے گا جب تک پاکستان انتہاء پسندوں اور نفرت انگیز جذبات رکھنے والوں سے سخت گیر عملی معاملہ نہیں کرتا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں صف اوّل کا کردار ادا کیا اُور جانی و مالی قربانیاں دی ہیں جو کہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے لیکن محض اِس حقیقت کی بنیاد پر پاکستان کو ’اجازت نامہ (لائسینس)‘ نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنی قومی پالیسیوں میں سرحدپار مفادات کو شامل کرتے ہوئے کہیں اخلاقی تو کہیں بہ امر مجبوری حمایت کو ’اصولی مؤقف‘ قرار دے۔ اصل ضرورت پاکستان کے بارے میں ’عالمی رائے عامہ‘ تبدیل (ہموار) کرنے کی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کو ایک ایسا ملک تصور کیا جاتا جہاں ریاست کے اندر ریاستیں قائم ہیں اور اِس حقیقت کا ذکر خود پاک فوج کے سربراہ کی متعدد تقاریر میں کیا گیا ہے کہ ’’پاکستان کو داخلی محاذ پر زیادہ بڑے اور سنگین خطرات کا سامنا ہے۔‘‘ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کاروائیوں بشمول جاری ’آپریشن ردالفساد‘ میں کامیابی اگر ’بلندبانگ دعوؤں‘ سے مطابقت رکھتی تو ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی محرم الحرام کے موقع پر پہلے سے زیادہ حفاظتی (سیکورٹی) انتظامات‘ کی ضرورت نہ پڑتی۔ چار سال تک برسرزمین حقائق کا انکار کرنے کے بعد اچانک (اکیس جولائی سے) ’نواز لیگ‘ حکومت جس اَنداز میں ٹھوس بنیادوں پر خارجہ امور اور پرعزم سفارتکاری کے ذریعے عالمی سطح پر ’پاکستان کا دفاع‘ کر رہی ہے‘ اگر یہی کارکردگی اُور ضرورت کا اِحساس ’قبل ازیں‘ کر لیا جاتا تو آج حالات قطعی مختلف ہوتے اور عالمی طاقتوں کا پاکستان کے بارے میں یہ (ملتا جلتا) نکتۂ نظر سامنے نہ آتا کہ ۔۔۔’’آگ سے کھیلنے والے بسا اوقات اپنا ہی نقصان کر بیٹھتے ہیں!‘‘

فاصلوں میں قربتیں اور قربتوں میں فاصلے تلاش کرنے کے مفید نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ پاکستان‘ بھارت اُور افغانستان ایک دوسرے کے بارے میں اپنے مؤقف دنیا کے سامنے رکھنے سے پہلے اگر مل بیٹھ کر بھی ایک دوسرے کی بات سننے کے روادار نہیں تو اِس انتہاء پر مبنی ’ردعمل‘ کی تصحیح (اِصلاح) ہونی چاہئے۔

ہر مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے نمائندوں اور عوامی سطح پر بات چیت کے ذریعے بھی پاکستان‘ افغانستان اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں اور ضرورت ہے کہ ’پبلک ڈپلومیسی‘ کو بھی ایک موقع دیا جائے۔ تیئس ستمبر کے روز ’پشاور پریس کلب‘ میں ’افغانستان کے عالمی دن‘ کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا زور اِسی بات پر تھا کہ ’’پاک افغان اختلافات میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا فائدہ اُٹھانے والے (درپردہ عزائم) کسی سے پوشیدہ نہیں تو آخر دو ہمسایہ اور مسلمان ممالک کیوں خودکشی (حرام فعل) پر تلے ایسے مواقع پیدا کر رہے ہیں جس کا فائدہ اٹھا کر اُن کے مفادات پر وار کئے جا رہے ہیں؟‘‘ پشاور میں تعینات اَفغان قونصلر جنرل ڈاکٹر عبدالوحید پویان نے عمدہ الفاظ سکے چناؤ سے خطاب میں اِس تاثر کو گمراہ کن اور من گھڑت قرار دیا کہ ’’افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک بالخصوص پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور بالخصوص بھارت افغانستان کے راستے پاکستان کے داخلی امن کو عدم استحکام سے دوچار کر رہا ہے۔‘‘ افغان قونصل جنرل کی یہ رائے اُس افغان پالیسی کا جز ہے جس میں برسرزمین حقائق کا مسلسل انکار کیا جاتا رہا ہے لیکن خوش آئند ہے کہ اگر افغانستان پاکستان کے داخلی امن کے بارے میں فکرمند اور تشویش کا اظہار کررہا ہے تو اِس سے فائدہ اٹھانے کے لئے پاک افغان بات چیت (نیشنل ڈائیلاگ) کا عمل شروع کرنے کا اِس سے زیادہ موزوں وقت کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ اگر نجی کوششوں سے ’پشاور پریس کلب‘ کی سطح ’پاک افغان تعلقات اور دوطرفہ تعاون کے فروغ سے متعلق امور‘ زیرغور (زیربحث) آسکتے ہیں تو سرحدی تنازعات سے لیکر سیاسی‘ تجارتی اور دفاعی امور کے حوالے سے متعلقہ شعبوں کے ماہرین (سرکاری سطح پر) مل بیٹھ کر بات کیوں نہیں کرسکتے؟ دانشوروں‘ ادیبوں‘ شاعروں‘ سیاسی و سماجی کارکنوں‘ وکلاء‘ صحافیوں‘ طالب علموں اور دیگر مختلف مکاتب فکر کی ترجمانی کرنے والے نمائندہ افراد کا ’پشاور پریس کلب‘ میں تبادلۂ خیال غنیمت سے کم اہم نہیں تھا اور اِس کا سلسلہ جاری و ساری اور وسیع کرنے کے لئے حکومتی سرپرستی کے ذریعے ’’ترغیبی کوششوں‘‘ سے اُن ’’تخریبی عزائم (عناصر)‘‘ کو شکست دی جا سکتی ہے‘ جن کی بقاء اِسی میں ہے کہ پاکستان‘ افغانستان اور بھارت ہمیشہ ایک دوسرے سے ’الجھے‘ ناراض‘ گلہ مند‘ اُور ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہیں!
۔۔۔

No comments:

Post a Comment