Thursday, September 28, 2017

Sept 2017: Issues of Sheikh Ameer Abad - Beri Bagh, Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پشاور: مٹتے نقوش!
حل طلب مسائل کی شدت میں ہر گزرتے دن اضافہ ہونے کی وجہ سے ’پشاور کی شہری زندگی‘ کا حسن ماند پڑ چکا ہے۔ بیرون یکہ توت اُور گنج گیٹ سے ملحقہ رہائشی بستی ’شیخ امیر آباد کی بستی ’بیڑی باغ‘ کے نام سے بھی معروف ہے جو ضلعی حکومت کے زیرانتظام ’یونین کونسل وزیرباغ (یو سی اکیس)‘ قومی اسمبلی کے حلقہ ’این اے ون‘ اُور صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’پی کے تھری‘ کا حصہ ہے۔ یہاں سے گزرنے والی ’نہر (Canal)‘ جو کبھی آب نوشی اور آبپاشی (زراعت) جیسے مقاصد کے لئے استعمال ہوتی تھی گندگی سے بھرے ’نالے‘ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ 

تحریک اِنصاف کی قیادت میں موجودہ صوبائی حکومت نے ’شیخ اَمیر آباد‘ کے مقام پر گہری نہر کے دونوں کناروں پر ’حفاظتی انتظامات‘ کو بہتر بنایا لیکن اصل مسئلے کی جانب توجہ تاحال مبذول نہیں ہو سکی جو ’نہر میں موجود کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) کی صفائی سے متعلق ہے‘ اُور اہل علاقہ کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز (ڈبلیو ایس ایس پی)‘ اپنی موجودگی کا عملاً ثبوت دے اور ’شیخ امیرآباد‘ کے مقام پر نہر کی صفائی اور مذکورہ نہر کے نکاسئ آب کے لئے عمومی استعمال کی اصلاح کی جائے۔ شیخ اَمیر آباد سے گزرنے والا کھٹہ (لختئی) میں دو پائپ گزارے گئے۔ اِن پائپوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے نچلا پائپ بند ہے جس کی وجہ سے شیخ امیرآباد گلی نمبر ایک کی نکاسئ آب ممکن نہیں رہی۔ اِس علاقے کا دوسرا بڑا مسئلہ ’تجاوزات‘ کا ہے۔ ٹاؤن ون کے ناظم ’زاہد ندیم‘ سے اُمید ہے کہ وہ اپنی پہلی فرصت ’شیخ امیر آباد‘ کا ’پہلا دورہ‘ فرمائیں گے اور یہاں صفائی کی صورتحال بہتر بنانے‘ بڑھتی ہوئی تجاوزات بالخصوص برف خانے کے سامنے قبرستان کی اَراضی پر قبضے کی جاری کوششیں (سرگرمیوں) کا سخت نوٹس لیں گے اُور ہزار خوانی روڈ سے بیڑی باغ کی طرف موڑ کاٹتے ہوئے سڑک کنارے تجاوزات کے امکانات ختم کرنے میں ’واجب کردار‘ اَدا کریں گے۔ پشاور کے نقوش مٹانے کی کوشش کرنے والوں کے ساتھ سختی سے معاملہ ہونا چاہئے۔

پشاور کے کئی علاقے نایاب ہستیوں کے ناموں سے منسوب ہیں جن میں ’بستی شیخ اَمیر آباد‘ بھی شامل ہے۔ ’(ملک) شیخ امیر مرحوم‘ کا تعلق پشاور کی اُس ’اعوان برادری‘ سے تھا جس میں یہاں کے ’ملک خاندان‘ کے سپوتوں کی اکثریت ہے۔ یہی لوگ ’’پشاور کے مالک‘‘ بھی کہلاتے ہیں کیونکہ کاشتکاری‘ باغبانی اور زراعت سے وابستہ یہی سب سے زیادہ ’صاحب جائیداد‘ ہوا کرتا تھا۔ وزیرباغ کے اطراف سے ’سائنس سپرئیر کالج‘ تا ہزار خوانی‘ رنگ روڈ اُور بیڑی باغ سے گنج گیٹ اُور یکہ توت گیٹ تک پھیلے وسیع و عریض رقبہ ’فصیل شہر‘ کا وہ بیرونی علاقہ ہوا کرتا تھا‘ جہاں قیام پاکستان سے قبل یا تو دیگر ممالک اُور دور دراز علاقوں سے آنے والے تجارتی قافلوں کا گزر ہوتا یا پھر پشاور کے اِن زراعت پیشہ ملک گھرانوں کے آباواجداد زرعی آلات اُٹھائے منہ اندھیرے فصیل شہر کے دروازوں سے گزر کر کھیتوں کو جاتے اور دن ڈھلنے (وقت مغرب) سے قبل واپس لوٹ آتے تاکہ شہر کے داخلی دروازے بند ہونے سے قبل وہ اپنی رہائشگاہوں تک پہنچ سکیں۔ جس وقت ’بیرون پشاور‘ کا بیشتر علاقہ سرسبزوشاداب‘ گل و گلزار مہکتا تھا‘ جب ہر طرف لہلہاتے کھیتوں اور باغات کی قطاریں دکھائی دیتی تھیں اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ زرعی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والی نہایت ہی قیمتی اراضی بناء منصوبہ بندی پھیلتے پشاور کی نذر ہو جائے گی اور یہی وجہ رہی کہ پشاور کے مضافاتی علاقوں میں اندرون شہر سے زیادہ گنجان آباد بستیوں سے رہنے والے بنیادی سہولیات سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔ 

یادش بخیر پشاور کے اُس سنہرے دور میں ’شیخ امیر‘ نامی کاشتکار پیشہ شخص نے اپنی رہائشگاہ سے متصل ایک قطعہ اراضی آخری آرام گاہ اور دوسرا اس سے متصل مسجد (عبادت گاہ) کے لئے وقف کیا۔ آج اُن کا مزار کسمپرسی کی تصویر ہے جس پر قبضہ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں گویا علاقے کی فلاح و بہبود کے لئے اُن کی خدمات کو اُن کے ساتھ ہی دفن کر دیا گیا ہو۔ مزار سے متصل مسجد موجود تو ہے لیکن اِس مسجد کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ چند ماہ قبل اُن کے مزار کو بھی مسمار کرنے کی کوشش کی گئی اور آج بھی تجاوزات قائم ہیں‘ جس پر شریف النفس اہل خانہ کی جانب سے ردعمل (احتجاج) کی وجہ سے آس پاس رہائش پذیر ’قبضہ مافیا‘ وقتی خاموش تو ہوگیا لیکن اُس کے ارادے معلوم و خطرناک ہیں۔ اِس سلسلے میں شیخ امیر مرحوم و مغفور کے عزیز ’ملک صابر حسین اعوان‘ کی کوششیں اپنی جگہ اہم ہیں‘ جو اپنی خرابئ صحت کے باوجود بھی پشاور کی اِس شناخت اور نقش کو باقی رکھنے کے لئے تن تنہا اِس محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اُن کی درازئ عمر‘ صحت و تندرستی اور سلامتی کے لئے بہت سی دعاؤں اور نیک تمناؤں پیش ہیں کیونکہ اُنہی کے دم کرم سے اِس علاقے کا تشخص‘ باقی ماندہ قبرستانوں کی حفاظت اُور شیخ امیر مرحوم کے مزار و مسجد کو محفوظ رکھنے کی کوششیں ایک تسلسل سے متواتر جاری ہیں۔ دیکھتے دیکھتے ’بیڑی باغ‘ کے قبرستان ہڑپ کر لئے گئے اور آج اِکا دُکا قبروں یا اُن کے نشانات باقی ہیں۔ 

اہل پشاور کے بزرگوں کی قبروں کی یہ بے حرمتی اور قبرستانوں کی وقف اراضی پر قبضہ کرنے والوں کو ’این اے ون‘ اور ’پی کے تھری‘ کے جس نمائندہ خاندان کی سربراہی حاصل ہے‘ انہوں نے اپنی قبروں کے لئے تو ’حضرت ابوالبرکات سید حسن بادشاہ (میراں بادشاہ) رحمۃ اللہ علیہ‘ سے متصل قطعۂ اراضی خرید لی ہے لیکن انتخابی سیاست کے لئے پشاوریوں کے آثار مٹانے کی قابل مذمت کردار سے تاحال رجوع نہیں کیا۔ 

شیخ امیر مرحوم کا مزار اِس لئے بھی محفوظ رہا کہ ایک تو وہ یہ اُن کی ملکیتی اراضی پر قائم ہے اور دوسرا مزار سے متصل جامع مسجد کی محراب اُن کی مزار سے متصل ہے جس طرف توسیع ممکن نہیں۔ کس جواز کے تحت اہل علاقہ نے ’شیخ امیر جامع مسجد‘ کا نام تبدیل کیا جبکہ آج کی تاریخ میں کوئی ایک مرلہ زمین بھی عطیہ نہ کرتا اُور شیخ امیر نے سینکڑوں مرلہ اراضی وقف کی تھی تو کیا اُنہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا یہی طریقہ ہے!؟ 

مادہ پرستی کے دور میں نوجوان نسل کو ’شیخ امیر آباد‘ جیسی ہستیوں اور اُن کی اپنی مٹی سے وابستگی سے آگاہ کرتے ہوئے ایسے مثالی عمل اور یادگاروں کی حفاظت ہونی چاہئے تاکہ ہر کس و ناکس کو اجتماعی فلاح و بہبود جیسی بے لوث خدمت و عمل کی رغبت مل سکے۔ بلاامتیاز خدمت ہی وہ سیاست ہے جس کا سکہ دنیا اور بعداز رحلت‘ تاقیامت کام آئے گا۔
Sheikh Ameer Abad (Beri Bagh) Peshawar faces many issues including a filth deposited canal & encroachments 

No comments:

Post a Comment