Sunday, October 1, 2017

Oct 2017: Karbala - forever!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
کربلا: تااَبد قائم رہے گی!
اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضور اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی۔ 

اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی‘ حریت فکر‘ انسان دوستی‘ مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی لٰہذا جمہور مسلمان اس تبدیلی کو اسلامی نظام شریعت پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے اس لئے حضرت امام حسین علیہ السلام محض ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقاء و بحالی کے لئے میدانِ عمل میں اترے‘ راہِ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدانِ کربلا میں گزری وہ جور و جفا‘ بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔ یہ تصور کہ اسلام کے نام لیواؤں پر یہ ظلم خود اُن لوگوں نے کیا جو خود کو مسلمان کہتے تھے بڑا روح فرسا ہے۔ مزید براں‘ حضرت امام حسینؓ کا جو تعلق آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تھا اسے بھی ظالموں نے نگاہ میں نہ رکھا۔ نواسہ رسول کو میدانِ کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے قتل کرکے ان کے جسم اور سر کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے۔ اس جرم کی سنگینی میں مزید اضافہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ حضرت امام حسینؓ نے آخری لمحات میں جو انتہائی معقول تجاویز پیش کیں‘ انہیں سرے سے درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا گیا۔ اس سے یزید کی آمرانہ ذہنیت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ یہاں یہ نقطہ قابلِ غور ہے کہ جب شخصی اور ذاتی مصالح‘ ملی‘ اخلاقی اور مذہبی مصلحتوں پر حاوی ہو جاتے ہیں تو انسان درندگی کی بدترین مثالیں بھی پیش کرنے پرقادر ہے اور ایسی مثالوں سے تو یورپ کی ساری تاریخ بھری پڑی ہے لٰہذا اِن حقائق کی روشنی میں سانحہ کربلا کا جائزہ لیا جائے تو یہ واقعہ اسلام کے نام پر سیاہ دھبہ ہے کیونکہ اس سے اسلامی نظامِ حکومت میں ایسی خرابی کا آغاز ہوا جس کے اثرات آج تک محسوس کئے جا رہے ہیں لیکن اگر ہم اس سانحہ کو اسلام کے نام پر ایک سیاہ دھبہ بھی قرار دیں تو یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہوگا کیونکہ جہاں تک حق و انصاف‘ حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لئے جدوجہد کا تعلق ہے یہ کہنا درست ہوگا کہ: سانحۂ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب بھی ہے جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے اس میں شخصی حکومتوں یا بادشاہت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یزید کی نامزدگی اسلام کے نظامِ شورائیت کی نفی تھی ۔ 

امام حسینؓ نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت‘ جرأت اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی‘ حریت فکر اور خدا کی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی۔ امام حسینؓ کا ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لئے اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ 

سانحۂ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لئے تاریخِ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی۔ 

’’جبین وقت پر لکھی ہوئی سچائیاں روشن رہی ہیں: 
تا ابد روشن رہیں گی: 
خدا شاہد ہے اور وہ ذات شاہد ہے کہ جو وجہ اساس ’انفس و آفاق‘ ہے: 
اور خیر کی تاریخ کا وہ باب اوّل ہے: 
ابد تک جس کا فیضان کرم جاری رہے گا: 
یقیں کے آگہی کے روشنی کے قافلے ہر دور میں آتے رہے ہیں: 
تا ابد آتے رہیں گے: ابوطالب کے بیٹے حفظ ناموس رسالت کی روایت کے امیں تھے: 
جان دینا جانتے تھے: 
وہ مسلمؓ ہوں کہ وہ عباسؓ ہوں‘ عونؓ و محمدؓ ہوں‘ علی اکبرؓ ہوں‘ قاسمؓ ہوں‘ علی اصغرؓ ہوں: 
حق پہچانتے تھے: 
لشکر باطل کو کب گردانتے تھے: 
ابوطالب کے بیٹے سر بُریدہ ہو کے بھی اعلان حق کرتے رہے ہیں: 
اَبوطالب کے بیٹے‘ پا بجولاں ہو کے بھی اعلان حق کرتے رہے ہیں: 
ابوطالب کے بیٹے‘ صرف زنداں ہو کے بھی اعلان حق کرتے رہے ہیں: 
مدینہ ہو نجف ہو کربلا ہو کاظمین و سامرہ ہو مشہد و بغداد ہو: 
آل ابوطالب کے قدموں کے نشاں ‘اِنسانیت کو اُس کی منزل کا پتہ دیتے رہے ہیں تا ابد دیتے رہیں گے: 
ابوطالب کے بیٹوں اور غلامان علی ابن ابی طالب میں اِک نسبت رہی ہے: 
محبت کی یہ نسبت عمر بھر قائم رہے گی: تا اَبد قائم رہے گی۔ (اِفتخار عارف)‘‘
۔۔

No comments:

Post a Comment