ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
وقت کم: مقابلہ سخت!
دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا دکھائی تو دے رہا ہے لیکن آئندہ عام انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہو سکتے جس کی کئی ایک وجوہات صاف دکھائی دے رہی ہیں۔
سب سے پہلے تو مردم شماری کے نتائج پر کم و بیش سبھی سیاسی جماعتوں کے کچھ نہ کچھ تحفظات سامنے آ چکے ہیں اور ایسی صورت میں ’خانہ و مردم شماری‘ کو کس طرح تمام سیاسی جماعتوں کے لئے قابل قبول بنانا ممکن نہیں ہے اور یہ عمل کس قدر جلد مکمل ہوتا ہے‘ اِس کی رفتار آئندہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد پر انداز ہوگی۔ قابل ذکر ہے کہ سپرئم کورٹ آف پاکستان (عدالت عظمیٰ) کی جانب سے واضح احکامات ہیں کہ آئندہ عام انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہونے چاہیءں یعنی آبادی کے تناسب سے نئی حلقہ بندیاں لیکن کیا ایسا ہو پائے گا جبکہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے تحفظات پر دلیل سے بات کرنے کو تیار ہی نہیں! دوسری بڑی رکاوٹ انتخابی اصلاحات کا قانون (بل) ہے جس پر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بڑھ کر اختلافی نکتۂ نظر رکھتی ہیں بلکہ پیپلزپارٹی کی تو کوشش ہے کہ وہ اِس قانون کی منظوری میں حصہ دار صرف اُسی صورت بنے جب کہ اُسے آئندہ سیاسی حکومت بنانے میں غیرمشروط تعاون کی یقین دہانی کرائی جائے اور مسلم لیگ نواز اِنہی انتخابی اصلاحات کے ذریعے صادق و امین پر مبنی آئین کی دو شقوں (تشریحات) باسٹھ و تریسٹھ میں تاحیات نااہلی کی شرط کا دورانیہ (سزا کی مدت) کم کرنے میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتی ہے تاکہ نوازشریف کو دوبارہ قانون ساز ایوان اور حکومت میں لایا جا سکے!
عام اِنتخابات کو ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے سیاسی مفادات کی عینک لگا کر دیکھ رہی ہیں اور تجربہ کار سیاسی جماعتیں رازداری سے درپردہ بھی ایسا بہت کچھ کر رہی ہیں‘ جن کی تفصیلات کے بارے میں عام آدمی (ہم عوام) کی معلومات یا تو بہت کم (سرسری ہیں) یا وہ اِسے ایک آئینی اور پیچیدہ تکنیکی مسئلہ سمجھ کر خود کو الگ رکھے ہوئے ہیں۔ چوبیس گھنٹے بول بول کر توانائی پانے والے نجی ذرائع ابلاغ بھی اگر کسی ایک موضوع پر سب سے کم روشنی ڈالتے ہیں تو وہ ہے ’انتخابی اصلاحات‘ جسے ’اندھیرے‘ میں رکھنے کے محرکات وہی ہیں‘ جو اَٹھارہویں آئینی ترمیم کی پیچھے چھپی ’’نیک نیتی‘‘ تھی اور جس میں ’الیکشن کمیشن‘ کے ادارے کو بھی نہیں بخشا گیا۔ مقام افسوس ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) کو قانون ساز اداروں کی کارکردگی اور حقیقت کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب قوانین سے عملاً واسطہ پڑتا ہے۔ انتخابی عمل میں اصلاحات کا مطالبہ (تقاضا) ’تحریک انصاف‘ نے مئی دوہزارتیرہ کے عام انتخابات سے پہلے اور فوراً بعد عوام کی عدالت میں دائر کر رکھا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والا موجودہ ’انتخابی اصلاحات کا قانون‘ تحریک انصاف کے اصولی مؤقف کا نتیجہ ہے تو غلط نہیں ہوگا لیکن اِس میں تحریک انصاف کی تمام تجاویز کو شامل کرکے ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ‘ کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ مجوزہ مسودہ قانون (بل) اب ایوان بالا (سینیٹ) کے سامنے زیرغور ہے جہاں ایک پارلیمانی (ذیلی) کمیٹی برائے قانون و انصاف‘ اِس کا جائزہ لے رہی ہے اور اُمید ہے کہ مجوزہ اصلاحات میں موجود بہتری کی گنجائش کو ’ملک و قوم کا اجتماعی مفاد‘ مدنظر رکھتے ہوئے پورا کیا جائے گا لیکن ’وقت کی پابندی‘ اہم ہے کیونکہ ’الیکشن کمیشن‘ کی جانب سے پہلے ہی یہ عندیہ دے دیا گیا ہے کہ ’’اگر ایوان بالا (سینیٹ دن رات کام کرکے) انتخابی اصلاحات کی فوری منظوری نہیں دیتی تو مئی دوہزار تیرہ کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہی آئندہ عام انتخابات کا انعقاد کرانے کے بغیر کوئی صورت نہیں رہے گی! انتخابی اصلاحات کا بل قومی اسمبلی سے سینیٹ تک تو جا پہنچا ہے لیکن اگر سینیٹ اِس کی کسی ایک بھی شق میں تبدیلی کرتی ہے اور اِسے من و عن منظور نہیں کرتی تو یہ قانون واپس ’قومی اسمبلی ایوان‘ میں منظوری کے لئے پیش ہوگا‘ جس کی بناء مطالعہ اور غوروخوض کوئی بھی سیاسی جماعت منظوری دینا پسند نہیں کرے گی اور ایسا ہونے میں مزید کتنا وقت لگے گا جبکہ وقت پہلے ہی کم اور مقابلہ سخت ہے!؟
اندرون ملک کی طرح بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے انتخابی اصلاحات کی جامعیت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجوزہ قانون پر تعلیمی اداروں سے لیکر علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ تک ہر سطح پر مباحثے (ڈائیلاگ)‘ دھاندلی کے امکانات ختم کرنے کے لئے بائیومیٹرک و انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال اور انتخابی عمل میں ماضی کی غلطیوں سے حاصل اسباق کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ عام انتخابات وقت مقررہ پر نہیں ہوں گے‘ اِس کی دو بنیادی وجوہات میں شامل ہے کہ مردم شماری نتائج اور انتخابی اصلاحات پر تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ’’بناء مزید تاخیر (وقت ضائع کئے بغیر)‘‘ اتفاق رائے پیدا ہو‘ جو موجودہ حالات میں نہایت ہی مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دے رہا ہے اورپاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی بہت ہی کم مثالیں ملتی ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں نے قومی اہمیت کے کسی مسئلے پر اپنے مفادات کی قربانی دی ہو۔ بنیادی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی کوئی ایک سیاسی جماعت بھی اِس موقع پر عام انتخابات کے لئے تیار نظر نہیں آتی۔
تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں کارکردگی کا ثمر ابھی تیار نہیں اور صاف گو چیئرمین تو اِس بات پر شکر کا اظہار تک کرچکے ہیں کہ اُنہیں دوہزارتیرہ کے عام انتخابات میں محدود پیمانے پر کامیابی ملی۔ دوسری طرف نواز لیگ چاہتی ہے کہ وہ پانامہ کیس فیصلے کی روشنی میں ’نیب مقدمات‘ سے نمٹنے کے بعد عام انتخابات میں حصہ لے اور اُس کی کوشش ہے کہ عدالتوں سے سرخرو قرار پائے۔ پیپلزپارٹی ڈاکٹرعاصم اُور ایان علی کے مستقبل بارے زیادہ فکرمند ہے جنہوں نے اِحتساب عدالت سے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی بریت کے فیصلے کو اپنی کامیابی تو قرار دیا ہے لیکن ہرکس و ناکس کو معلوم ہے کہ اِن دنوں عدالت عظمیٰ کا مزاج برہم ہے اُور اِنصاف اگر پیپلزپارٹی کی قیادت کے قریب سے بھی گزرا‘ تو نوازشریف کی طرح وہ تاحیات نااہلی جیسی ذلت آمیز سزا سے نہیں بچ پائیں گے۔ ملک کی سبھی بڑی اور ’’پریشان حال سیاسی جماعتیں‘‘ قطعی طور پر ایک ایسے وقت اور ایک ایسے ماحول میں انتخابی مہم جوئی کرنا پسند نہیں کریں گی اور نہ ہی کسی ایسے انتخابی تجربے (عمل) سے گزرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار (آمادہ) ہیں جبکہ عدالت عظمی کے ابرآلود تیور (مزاج) روز روشن کی طرح کھلی حقیقت ہے۔
’’منصب شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا: ہوئی معزولئ اَنداز و اَدا میرے بعد ۔۔۔
آئے ہے بیکسی عشق پہ رونا غالبؔ : کس کے گھر جائے گا‘ سیلاب بلا میرے بعد! (میرزا اَسداللہ خان غالبؔ )۔
No comments:
Post a Comment