Tuesday, September 12, 2017

Sept2017: The unreasonable policy of "fine" at schools!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شعبۂ تعلیم: غافل مباش!
نجی تعلیمی اِداروں سے متعلق والدین کی شکایات بظاہر معمولی دکھائی دیتی ہوں لیکن اِن مسائل کا حجم اور نوعیت اپنی شدت و نتائج کے باعث متعلقہ شعبے کے فیصلہ سازوں کی توجہ کا متقاضی ہے۔ کسی طالب علم کی سکول سے ’غیراطلاعیہ‘ غیرحاضری کی صورت جرمانہ عائد کیا جاتا ہے جس کی شرح کا تعین نہ تو سرکاری طور پر کیا گیا ہے اور نہ ہی والدین کی مشاورت سے سکول انتظامیہ طے کرتی ہے کہ اگر کوئی طالب علم کسی دن سکول سے غیرحاضر رہے گا اور وہ اِس کی پیشگی اطلاع نہیں دی جائے گی تو اِس ’’جرم‘‘ کے عوض ’’والدین کو کتنا جرمانہ‘‘ کیا جائے۔ عموماً اِس قسم کے جرمانے کی شرح 200 روپے یومیہ سے شروع ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر طالب علم بیماری یا کسی ناگزیر مصروفیت (فوتگی میں شرکت) میں مبتلا ہے تو وہ اپنی بیماری اور آگہانی مصیبت کی فراموش کر کے سکول کی پہلے فکر کیسے کرے اور ’بروقت اور پیشگی اطلاع‘ کس طرح دی جائے؟ 

سکولوں کے داخلی دروازوں پر ’رخصت کی درخواستیں‘ وصول تو کر لی جاتی ہیں لیکن چونکہ اِس کا ریکارڈ نہیں رکھا جاتا‘ نہ وصولی کی رسید (سند) دی جاتی ہے اِس وجہ سے یہ درخواستیں وصول کرنا اِس بات کی ضمانت بھی نہیں ہوتا کہ کسی ایک یا دو ماہ کے آخر میں جرمانہ بینک رسید میں درج نہیں ہو گا۔ والدین کو بذریعہ خط مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کا بچہ فلاں تاریخ کو غیرحاضر پایا گیا اور اِس وجہ سے اُسے ’’200 روپے‘‘ جرمانہ کر دیا گیا ہے (تلخ حقیقت: 200 روپے کسی بھی طرح معمولی رقم نہیں ہوتی کیونکہ یہی وہ پیمانہ ہے جس پر خط غربت (کسوٹی) مقرر ہے۔ اگر کسی شخص کی یومیہ آمدنی دوسوروپے سے کم ہوتی ہے تواُس کا شمار ’’غریب‘‘ میں کیا جاتا ہے اور پاکستان میں ایسے افراد کی تعداد ملک کی کل آبادی کا ساٹھ فیصد ہے جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔) کاروباری ترجیحات ملاحظہ کریں کہ نجی سکولوں کی انتظامیہ یہ جاننے میں قطعی دلچسپی نہیں رکھتی کہ آخر کس وجہ سے کوئی بچہ غیرحاضر تھا اور کہیں ایسا تو نہیں کہ اُس کی غیرحاضری کسی حادثے یا ایسی ہنگامی صورتحال کی وجہ سے ہے جس کے لئے اُسے مزاج پرسی‘ عیادت یا تعزیت کی ضرورت ہے۔ کیا معلم طالب علم اُور تعلیمی اِداروں کا تعلق بس یہی رہ گیا ہے (اس حد تک محدود تصور کیا جائے) کہ والدین مطلوبہ فیسیں (بلاچوں چرا) اَدا کریں اور تعلیم میں سرمایہ کاری کرنے والے عوام کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے رہیں؟ سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کی تعلیمی اداروں میں تربیت کس انداز سے کر رہے ہیں کہ سوائے فیسوں اور دیگر مدوں میں وصولیوں سے زیادہ اُن کی کوئی اہمیت نہیں!

نجی تعلیمی اِداروں میں ’والدین اُور اساتذہ کے درمیان رسمی بات چیت (پیرنٹس ٹیچرز ملاقات) عموماً سالانہ نتائج کے موقع پر ہوتی ہے‘ جس کا نہ تو پہلے سے کوئی ’لائحہ عمل (ایجنڈا)‘ طے ہوتا ہے اور نہ ہی اِس میں سکول کے انتظامیہ کے اہم فیصلہ ساز حصہ لینے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں۔ کلاس ٹیچرز (ملازمین) سالانہ نتائج کے دن‘ بن سنور کر مصنوعی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے والدین کا استقبال کرتے یا کرتی ہیں‘ والدین کو نتیجہ تھاما کر انہیں اپنے تاثرات قلمبند کرنے کا کہا جاتا ہے جس پر عمل درآمد کون کرتا ہے‘ کتنا کیا جاتا ہے‘ اُسے قابل عمل کیوں نہیں سمجھا جاتا اور والدین کی تجاویز و آرأ پر کیا تبدیلیاں (اصلاحات) لائی جاتی ہیں‘ اِس بارے میں والدین کو نہ تو مطلع کیا جاتا ہے اور نہ ہی اِس سلسلے میں اُن سے رابطہ رکھا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کے فیصلہ ساز بچوں کی طرح اُن کے والدین کو بھی ناخواندہ ہی سمجھتے ہیں! تجویز ہے کہ انٹرنیٹ پر منحصر ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے نجی تعلیمی ادارے اور والدین بطور صارفین کے درمیان فاصلوں کو کم کیا جائے۔ یہ عمل سیکورٹی کے نکتۂ نظر سے بھی محفوظ ہے کہ آئے روز والدین سکولوں کا دورہ نہیں کریں۔ ایک سیدھی سادی ’موبائل فون ایپلی کیشن‘ کے ذریعے والدین نہ صرف ’تعلیمی سال‘ کے دوران سکول انتظامیہ اور کلاس ٹیچر سے رابطے میں رہ سکتے ہیں بلکہ اگر کسی بچے کو اچانک رخصت درکار ہو تو اُس کے لئے بھی موبائل فون ایپلی کیشن (سافٹ وئر) یا ویب سائٹ کا استعمال کیا جا سکتا ہے اور والدین خاص اکاونٹس اور پاس ورڈز کے ذریعے رخصت کی صورت سکولوں کو مطلع کر سکتے ہیں۔ 

کلاس رومز میں بچوں کو ’ہوم ورک (گھر کا کام)‘ دینے کی ایک روایت بھی ہے لیکن بچوں کو اپنی اپنی ڈائری اَزخود لکھنے کو کہا جاتا ہے۔ ماضی میں یہ کام سکول ٹیچر (معلم یا معلمہ) کی ذمہ داری ہوا کرتا تھا لیکن چونکہ (کاروباری مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے) فی کلاس طلبہ کی اُوسط تعداد قریب پچاس یا اِس سے زیادہ کر دی گئی ہے‘ اِس لئے اساتذہ کے لئے یہ بات عملاً ممکن نہیں رہی کہ وہ ہر بچے کی ’ڈائری‘ میں اُس کا ’ہوم ورک‘ کم سے کم اِس حد تک خوش خطی سے تحریر کریں کہ والدین اُسے پڑھ کر سمجھ اور سمجھا سکیں۔ موبائل فون ایپلی کیشن (سافٹ وئر) یا ویب سائٹ کی مدد سے ہر طالب علم کا ’ہوم ورک‘ کی تفصیلات کا تبادلہ اُس کے والدین سے ممکن بنایا جاسکتا ہے جس کے لئے متعلقہ معلم یا معلمہ کی بجائے اگر یہ تکنیکی کام ’آئی ٹی کے تربیت یافتہ دفتری اہلکاروں‘ کے ذریعے کیا جائے تو بہتر ’فیڈبیک (نتائج)‘ حاصل ہوں گے۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم سے متعلق جملہ اَمور صوبائی حکومت کو سونپ دیئے گئے ہیں لیکن کسی ایک صوبے میں سرکاری و نجی سکولوں کی ایک ایسی تعداد بھی ہوتی ہے جو صوبائی کی بجائے وفاقی یا دیگر امتحانی بورڈز سے منسلک ہو جاتی ہے یا جن کے ہاں غیرملکی نصابی کتب (آکسفورڈ پریس کی کتب) پڑھائی جاتی ہیں اور اُنہی کے غیرملکی بورڈز کی نگرانی میں امتحان لئے جاتے ہیں۔ اِس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن آئینی طور پر خیبرپختونخوا کی حدود میں نجی سکول چاہے وہ جس کسی امتحانی بورڈ سے بھی منسلک ہوں لیکن اُن پر صوبائی حکومت کے احکامات کی پابندی واجب (لازم) ہوتی ہے۔ 

تحریک انصاف کی قیادت میں صوبائی حکومت کا فرض ہے کہ صرف ٹیوشن فیسیں مقرر کرنے کی حد تک نہیں بلکہ ’ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی‘ کے ذریعے انواع و اقسام کے جرمانوں اور اِن جرمانوں کی شرح بھی مقرر کی جائے۔ وزیراعلیٰ پرویز خان خٹک اور صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ 30مئی 2018ء سے قبل تک ملنے والی ’مہلت (آخری آٹھ ماہ)‘ کا فائدہ اُٹھائیں۔ اپنی نہیں تو کم سے کم ’تحریک انصاف‘ کی عزت و ساکھ ہی کا خیال کریں کہ کس طرح ’مئی دوہزارتیرہ‘ کے عام اِنتخابات سے قبل عوام سے تبدیلی کے وعدے کئے گئے جو عملاً پورے نہیں ہوئے۔ 

عوام کی خدمت کا عہد کرنے والے جب فیصلہ سازی کے منصب پر ’غفلت‘ کا ارتکاب کریں تو وہ محض کوتاہی نہیں بلکہ ناقابل معافی جرم شمار ہوتا ہے۔ نجی تعلیمی اِداروں کی من مانیاں‘ ٹیوشن فیسیوں اُور جرمانوں کی شرح پر غوروخوض کے ساتھ درس و تدریس کو کاروبار بنانے والے عناصر کی حوصلہ شکنی ضروری ہے تو یہ ’کارِدارد‘ کون کرے گا؟ محاورہ ہے کہ ’’دم اَز گندم بروید جو‘ اَزجو۔۔۔ اَز مکافاتِ عمل غافل مشو۔ (ترجمہ): گیہوں سے گیہوں اُگتا ہے اور جُو سے جُو: خود احتسابی سے ہمیں غافل نہیں رہنا چاہئے!‘‘

No comments:

Post a Comment