ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین امام
۔۔۔ آؤ سچ بولیں!
پاکستان کی خارجہ و داخلہ پالیسی کے خدوخال مرتب کرنے والوں کے لئے نوجوان نسل کی سوچ رہنما اصول فراہم کر سکتی ہے‘ جن کی نظر میں ’’کشمیر مسئلہ نہیں بلکہ ایک مقصد ہے۔‘‘ ایبٹ آباد کے ’برن ہال کالج برائے طلباء‘ کے زیراہتمام ’اکیسویں کل پاکستان‘ بین الکلیاتی تقریری مقابلوں‘‘ کے اِنعقاد میں ’وطن کی محبت اُور شناخت‘ کے نظریاتی حوالوں پر جس تفصیل سے روشنی ڈالی گئی‘ اُس سے فکروعمل کو نئی جہتیں ملی ہیں۔ ’’اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔ اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار۔ قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں اور کشمیر ایک مقصد ہے مسئلہ نہیں‘‘ جیسے موضوعات کو تفصیل سے بیان کیا۔ طلباء و طالبات نے ’’امن کو خواہش نہیں بلکہ عمل کی اساس بھی قرار دیا۔‘‘ انتظامیہ اگر اِن تقاریر کو کتابی شکل میں شائع (مجموعہ) کرے اور اِن کی ویڈیو ریکارڈنگز ’یو ٹیوب چینل‘ کے ذریعے مشتہر کرے تو اِس سے نہ صرف تقریر کے فن‘ جوش خطابت اور موضوعاتی تحقیق و بیان کی خوبیاں عام ہوں گی بلکہ فیصلہ سازوں کو بھی نئی نسل کی سوچ کے مطالعے اور رہنمائی حاصل کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ یہ بات نہایت اہم ہے کہ آج کا نوجوان کیا سوچ رہا ہے اور اُس کے ذہن میں پاکستان کی ترقی کے اہداف کیا ہیں۔ ’’کھلا ہے جھوٹ کا بازار‘ آؤ سچ بولیں: نہ ہو بلا سے خریدار‘ آؤ سچ بولیں ۔۔۔ سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر: یہی ہے موقع اِظہار‘ آؤ سچ بولیں (قتیل شفائی)۔‘‘
پاکستان کے معروف تعلیمی اِداروں میں شمار ہونے والے ’’برن ہال‘‘ کا قیام 1943ء میں سرینگر (کشمیر) میں ہوا۔ قیام پاکستان (1947ء) کے وقت عیسائی میشنری (رضاکاروں) نے ’ایبٹ آباد‘ کا انتخاب کرتے ہوئے ’برن ہال‘ ہی کے نام سے تعلیمی اِدارہ قائم کیا۔ 1956ء میں ’برن ہال‘ کی دوسری شاخ (مانسہرہ روڈ ایبٹ آباد) قائم کی گئی‘ جو ’سینئر سیکشن‘ کہلائی۔ 1977ء میں اِن تعلیمی اداروں کے جملہ انتظامی و تدریسی امور ’پاک فوج‘ کے سپرد کر دیئے گئے اور اُس موقع پر ’برن ہال‘ کے ’سینئر سیکشن‘ کا نام تبدیل کر کے ’آرمی برن ہال کالج فار بوائز‘ رکھا گیا۔ پاک فوج کے سربراہ بلحاظ عہدہ اِن تعلیمی اداروں کے ’پیٹرون انچیف‘ ہوتے ہیں جبکہ کالج کے معاملات پاک فوج کی ’10ویں کور (راولپنڈی)‘ کی زیرنگرانی ’بورڈ آف گورنرز‘ طے کرتا ہے۔ کورکمانڈر (10ویں کور) اِس کے چیئرمین اور پاکستان ملٹری اکیڈمی (کاکول) کے کمانڈنٹ کی تقرری بلحاظ عہدہ بطور ڈپٹی چیئرمین ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ’آرمی برن ہال سکول و کالجز‘ برائے طلباء اور برائے طالبات (کی الگ الگ شاخیں) نہ صرف عصری تقاضوں سے ہم آہنگ‘ جدید تدریسی خوبیوں سے مزین ہیں بلکہ طلبہ کی کردارسازی اور اُن کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے‘ جس سے اُن کی شخصیت میں نظم و ضبط جیسا کلیدی عنصر شامل ہو جاتا ہے۔
پاک فوج کی ’اِیجوکیشن کور‘ بشمول ’برن ہال‘ پاکستان میں معیاری تعلیم و تربیت کی بہت بڑی کمی پوری کر رہی ہے اور یہ کسی بھی صورت معمولی خدمت نہیں بلکہ ایسی شعوری کوشش ہے جو نہایت ہی خاموشی اور تسلسل سے جاری ہے۔ عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ تعلیمی اِدارے ’ہم نصابی سرگرمیوں‘ کے لئے اپنے ہی ادارے کے طلباء و طالبات کا انتخاب کرتے ہیں لیکن ’آرمی برن ہال کالج برائے طلباء‘ (ایبٹ آباد) میں ’21ویں کل پاکستان سالانہ ’’بین الکلیاتی (اُردو انگریزی زبانوں میں) تقریری مقابلوں کے لئے ملک کے طول و عرض اور ایبٹ آباد کے مقامی سرکاری کالجز کے طلباء و طالبات کو بھی مدعو کیا گیا اور یوں نہ صرف اِن اداروں میں زیرتعلیم طلباء و طالبات کا ایک دوسرے سے تعارف ممکن ہوا بلکہ درس و تدریس کی ذمہ داریاں ادا کرنے والوں کو بھی تبادلہ خیال کا موقع ملا اُور سب سے بڑھ کر پاکستان کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز سے متعلق چنیدہ موضوعات پر اظہار خیال کی دعوت دے کر طلباء و طالبات کو گردوپیش میں رونما ہونے والے حالات و واقعات سے مربوط کر دیا گیا۔ رواں برس اکیسویں بین الکلیاتی تقریری مقابلوں میں ایبٹ آباد کے علاؤہ دیگر شہروں سے معروف تعلیمی اِداروں کی ’اکیس ٹیموں‘ نے حصہ لیا‘ جن میں پاکستان ائرفورس اکیڈمی رسالپور‘ پی ایم اے کاکول‘ یونیورسٹی آف پنجاب لاہور‘ ملٹری کالج آف سنگنلز‘ پاکستان میرین اکیڈمی کراچی‘ فوجی فاؤنڈیشن کالج فار بوائز روالپنڈی‘ کیڈٹ کالج حسن اَبدال‘ ملٹری کالج آف اِنجنیئرنگ‘ ملٹری کالج سوئی بلوچستان‘ پاکستان اِئرفورس کالج لوئر ٹوپہ‘ کرنل شیرخان کیڈٹ کالج صوابی اُور مقامی سرکاری کالجز شامل تھے۔
مقابلوں کے کئی مراحل طے کرنے کے بعد حتمی (فائنل) نشست بارہ ستمبر کے روز برن ہال کالج فار بوائز کے ’سکینلون ہال (Scanlon Hall)‘ میں منعقد ہوئی‘ جس کی فاتح ٹیم ’کیڈٹ کالج حسن ابدال‘ قرار پائی۔ پرنسپل بریگیڈئر واجد قیوم پراچہ (پی ایس سی‘ جی ایس سی) نے آئندہ برس طلباء و طالبات کے لئے الگ الگ ٹرافیز اور تقریری مقابلوں کے موقع پر ’محفل موسیقی‘ کے انعقاد کا بھی اعلان کیا تاکہ موسیقی کے ذریعے بھی طلباء و طالبات کی شخصیت میں چھپی صلاحیتوں کو اظہار اور ستائش کا موقع مل سکے۔ بریگیڈئر واجد نے ’’ہے جرم ضعیفی کی سزأ مرگ مفاجات‘‘ کے حوالے پاکستان کی دفاعی صلاحیت کی اہمیت جس منفرد انداز میں پیش کی‘ وہ ایک ایسا موضوع ہے جو الگ نشست اُور تفصیلاً غوروخوض کا متقاضی ہے۔
مجموعی طور پر ’برن ہال‘ کے زیراِہتمام ’تقریری مقابلوں‘ کے کامیاب اِنعقاد اِس ادارے کو چارچاند لگانے کی منفرد کوشش تھی لیکن اگر محترم جج صاحبان اپنی ذمہ داریاں اَدا کرنے میں الفاظ کی ادائیگی‘ درست انتخاب و تلفظ‘ موضوعاتی تحقیق اُور جامعیت کو بھی شمار کرتے تو یقیناًکامیابی ’ملٹری کالج سوئی بلوچستان‘ کے ہونہاروں کے حصے میں آتی! بہرکیف اُردو اُور اَنگریزی زبانوں کے سبھی مقرر ایک سے بڑھ کر ایک خطیب ثابت ہوئے‘ جن کی سبقت کے لئے معیار مقرر کرنا ممکن (آسان) نہیں۔ منتظمین کی طرح مقابلوں میں حصہ لینے والے تمام طلباء و طالبات اُور اُن کی رہنمائی کرنے والے اساتذہ دلی مبارکباد (داد) کے مستحق ہیں۔ اُمید ہے کہ حساس و مشکل موضوعات سے متعارف ہونے کے بعد طلباء و طالبات گردوپیش میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کو زیرمطالعہ رکھیں گے کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ صرف تعلیم حاصل کرکے اچھی ملازمت و خوشحال عملی زندگی ہی مقصد نہیں بلکہ اُنہوں نے ہر حیثیت میں پاکستان کی ’’خدمت کا حق اَدا کرنا ہے‘‘ اُور ’’وطن کو عظیم سے عظیم تر‘‘ بنانے کے لئے مواقعوں کی تلاش نہیں بلکہ ایک جوہری کی طرح تراش خراش کے ذریعے ’مواقع تخلیق کرنا ہیں۔‘
No comments:
Post a Comment