ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اِستقبال محرم الحرام!
ماضی کی طرح رواں برس بھی خیبرپختونخوا میں ’نئے اسلامی سال‘ کا آغاز (استقبال) اَمن و امان کو لاحق خطرات سے نمٹنے‘ دہشت گردی کے خوف کو کم کرنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے امن و امان برقرار رکھنے کے لئے غیرمعمولی ’حفاظتی انتظامات‘ کے ذریعے کیا جارہا ہے لیکن اُس ایک مسئلے (دردسر) کا ’مستقل حل (علاج)‘ تلاش نہیں کیا جاتا‘ جس کی وجہ سے ہر سال قومی خزانے سے کروڑوں روپے ’بنام عارضی سیکورٹی‘ پر خرچ کئے جاتے ہیں! خیبرپختونخوا پولیس کی جانب سے رواں سال ’’محرم الحرام 1439ہجری‘‘ کی مناسبت سے مجالس عزاء‘ ماتمی جلوسوں اُور مذہبی اجتماعات کی ’براہ راست نگرانی‘ کے لئے ’کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن نشریاتی الیکٹرانک آلات‘ نصب کئے جائیں گے۔ یہ بیش قیمت آلات دہشت گردی یا فرقہ واریت اور انتہاء پسندی پر قابو پانے میں کس حد تک معاون ثابت ہوں گے یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے لیکن محرم الحرام کی سیکورٹی کے نام پر کروڑوں روپے نت نئے آلات کی خریداری کی نذر ضرور ہو جائیں گے۔ سوال یہ بھی ہے کہ گذشتہ برس نگرانی کے لئے جو کیمرے (نگران آلات) نصب کئے گئے وہ اِس مرتبہ کتنے کارآمد ہیں اور رواں برس نئے آلات کی تنصیب کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے جبکہ محرم الحرام کی مناسبت سے جملہ سرگرمیاں روائتی ہیں اور ان کے اوقات و راستے پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں۔ کسی بھی نئے جلوس یا اجتماع کے انعقاد کی باوجود درخواست بھی اجازت نہیں دی جاتی اور کسی مخصوص علاقے میں چھوٹے بڑے اجتماعات کے انعقاد کے باقاعدہ لائسینس (اجازت نامے) جاری کئے جاتے ہیں جن کے بغیر کسی بھی قسم کا چھوٹا بڑا‘ اجتماع یا تقریب منعقد نہیں کئے جا سکتے۔
نیشنل کاونٹر ٹریرازم اتھارٹی (نیکٹا) کی ویب سائٹ (nacta.gov.pk) پر دستیاب 20 نکاتی ’اِنسداد دہشت گردی‘ سے متعلق پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی متفقہ قومی حکمت عملی ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ جنوری دوہزارپندرہ سے توجہ کا طالب ہے‘ جس پر عمل درآمد وفاقی حکومت سے زیادہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری تھی لیکن اِس جامع پلان کے کسی ایک نکتے پر بھی ’سو فیصد‘ عمل درآمد نہیں کیا جا سکا۔ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات اور اس سے قبل و بعدازاں ہر انتخابی معرکے میں کالعدم تنظیموں کے نامزد اُمیدواروں کی کسی نہ کسی صورت نمائندگی ہوتی ہے لیکن اِنتہاء پسندی اور فرقہ وارانہ جذبات کو اُبھارنے والوں کے خلاف خاطرخواہ کاروائی نہیں کی جاتی تو پھر ہمیں غیروں (امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ) کی الزام تراشیوں پر سیخ پا نہیں ہونا چاہئے۔ صدر ٹرمپ نے 21 اگست کو جنوب ایشیاء کے لئے نئی امریکی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کو ’’دہشت گردوں کی پناہ گاہ‘‘ قرار دیا تھا اور اُن کے اِس بیان کی حمایت میں 4 ستمبر کو عالمی تعاون تنظیم برکس (برازیل‘ روس‘ بھارت‘ چین اور جنوبی افریقہ)‘ کے اجلاس میں جہاں شمالی کوریا کے جوہری تجربے اور میزائل ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کی مذمت کی گئی وہیں پاکستان کو خطے اور عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’’دنیا کی چند انتہائی خطرناک دہشت گرد تنظیمیں پاکستان میں اپنے مراکز رکھتی ہیں۔‘‘ اگرچہ مذکورہ ’مشترکہ اعلامیے‘ میں اِس الزام سے متعلق زیادہ تفصیل سے بات نہیں کی گئی لیکن مغربی تجزیہ کار پاکستان کی اُس حکمت عملی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ جس میں پاکستان کو ’غیرریاستی کرداروں‘ کی ’ریاستی پشت پناہی‘ کرنے ’’اچھے اور بُرے عسکریت پسندوں (طالبان)‘‘ کے ذریعے خطے میں جنگی مہمات کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ’دہشت گردی‘ سے پریشان حال پاکستان پر ’دہشت گردی‘ کی سرپرستی کرنے کا الزام لگانے عائد کرنے والوں میں ہمارا سب سے اچھا دوست ’چین‘ بھی ہم آواز ہو چکا ہے لیکن اِس کے باوجود ہمارے سیاسی و عسکری فیصلہ سازوں ایک ایسی حقیقت کا مسلسل (مستقل) انکار کر رہے ہیں‘ جس پر (سوائے ہمارے) پوری دنیا یقین کئے بیٹھی ہے لیکن چاہے دنیا ہمارا اعتبار کرے یا نہ کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’اِنسداد دہشت گردی‘ کی کوششیں اگر بیانات کی حد تک محدود رہیں تو اِن کی کامیابی کے خاطرخواہ امکانات نہیں ہوں گی۔ جب تک پاکستان یہ بات ’عمل‘ سے ثابت نہیں کر دیتا کہ ملک کے طول و عرض میں مذہب کے نام پر‘ اَمن کے لئے خطرہ بننے والے عناصر بالخصوص دہشت گرد ہی نہیں بلکہ اِنتہاء پسند‘ فروعی اِختلافات اور فرقہ واریت پھیلانے والی کالعدم تنظیموں کے علاؤہ اِن کے سہولت کاروں کے لئے سیاسی و عسکری قیادت (اسٹیبلشمنٹ) کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں‘ اُس وقت تک پاکستان داخلی خطرات سے دوچار اور بے یقینی کا شکار ہی رہے گا۔
حسب سابق اِس مرتبہ بھی محرم الحرام کے پہلے عشرے کے دوران ’سیکورٹی کے نام پر غیراعلانیہ کرفیو‘ کا نفاذ ہونے جا رہا ہے۔ ماتمی جلوسوں یا اجتماعات سے متصل لیکن غیرمتعلقہ مرکزی شاہراہیں بند کی جائیں گی۔ نویں اور دسویں محرم الحرام کے روز موبائل فون اور موبائل انٹرنیٹ (ڈیٹا) سروسیز معطل ہونے سے خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح پشاور کے اندرون شہری و دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو آمدورفت اور مواصلاتی رابطوں میں پریشانی کا سامنا رہے گا اُور عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت گھروں میں محصور ہو کر رہ جائے گی۔
خیبرپختونخوا حکومت اور پولیس پشاور کا فرض بنتا ہے کہ وہ صرف محرم الحرام کے آغاز سے اِیام عزاء کے اختتام (دو ماہ آٹھ دن کی مدت) کے لئے مستعدی کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع میں اُس مذہبی راواداری‘ برداشت اور مثالی (شیعہ سنی) بھائی چارے کو بحال کرنے کے لئے بھی عملی کوشش کریں‘ جو کبھی یہاں کے معمولات و معاشرت کا حسن ہوا کرتا تھا۔ ہر سال روائتی سیکورٹی پلان ’خان رازق شہید‘ کی تیار کردہ دستاویز پر تاریخیں اُور نام بدلنے سے امن و امان کو لاحق خطرات دور (ختم) نہیں ہوں گے۔
مسلمہ ہے کہ محرم الحرام کے پہلے عشرہ (دس روز) کو بالخصوص ہر فرقے اور مذہب کے ماننے والے محترم تصور کرتے ہیں۔ اِن ایام میں کثرت سے روزے رکھنا اور نفلی عبادات بھی معمول سے زیادہ کی جاتی ہیں کیونکہ کربلا توحید کی سربلندی اور اِس کے بقاء کے لئے جانی و مالی قربانیاں دینے کا عہد (اِستعارہ) ہے۔ محرم الحرام ایک نسبت بھی ہے جس میں خصوصیت کے ساتھ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور اُن کے جانثاروں کی میدان کربلا میں قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں کی اکثریت اِس واقعے کو ’حق و باطل کا معرکہ‘ قرار دیتی ہے اُور بقول علامہ اقبالؒ ’’پیغام ملا تھا جو حسینؓ اِبن علیؓ کو ۔۔۔ خوش ہوں وہی پیغامِ قضاء میرے لئے ہے۔‘‘
No comments:
Post a Comment