عیدالاضحی: یادش بخیر!
اِنسان کا اِختیار یہ ہے کہ اِسے اپنے اِختیار پر بھی اِختیار نہیں۔ مسلسل سفر کے پراؤ بدلتے ہیں لیکن سفر نہیں۔ حالت سکون بھی سفر ہے‘ اگر زاد راہ ’خود شناسی‘ شامل حال رہے اور یہی وہ آگہی ہے جو انسان کو ’مظہرالعجائب‘ کے منصب پر فائز کر دیتی ہے کہ یہ خود منزل بن جاتا اُور نشان منزل بھی۔ ایک ہی ذات میں راہ‘ راہی‘ اور ’راہ نما‘ جیسی خصوصیات کا ظہور صرف اُسی صورت ہوتا ہے‘ جبکہ رہنمائی میسر آ جائے۔ اِنسان کی تکمیل اِس کی شعوری (بامقصد) زندگی اُور علمی و عملی سفر ایک ’خاص تعلق‘ شروع سے ہوتا ہے جو بقول علامہ نصیرالدین نصیر گولڑوی (14نومبر1949ء: 13 فروری 2009ء) ’’اِک سلسلۂ نور ہے ہر سانس کا رشتہ۔‘‘ تصوف کے تابکار خانوادۂ ’قادریہ حسنیہ‘ کے ’فقیر‘ لقب بزرگوار حضرت سیّد محمد اَمیر شاہ قادری گیلانی العمروف ’مولوی جی‘ رحمۃ اللہ علیہ ’دُرویش‘ تھے لیکن شاید ہی کوئی ایسا ذی شعور ہوگا‘ جس نے اُن سے صحبت و تعلق کے باوجود بھی اپنے ظرف کے مطابق فیض نہ پایا ہو اور اُن کی رحلت (سال دوہزار چار عیسوی) کے بعد سے ہر دن خود کو زیادہ ’محروم‘ محسوس نہ کر رہا ہو۔ مولوی جیؒ کی کمی کبھی پوری نہیں ہوگی لیکن عطائے مسلسل جاری و ساری ہے۔ علم و حکمت کے لعل و جواہر آج بھی تقسیم ہو رہے ہیں بس متوجہ (طلبگار) ہونے کی ضرورت ہے۔
اندرون یکہ توت (شریف) کوچہ آقا پیر جان‘ پشاور کی وہ نامی گرامی خانقاء ہے جہاں وقت گزرنے کا احساس نہیں رہتا۔ اے کاش لکڑی کے شہ تیروں اور سہاروں سے کھڑی چھت‘ مٹی سے چنی ہوئی دیواریں اور چونے و گاڑھے کی آمیزش سے مزین دیواروں کی سادگی سے تعلق اِس زندگی میں نہ ٹوٹتا۔ میراث کی تقسیم میں گھر کے اُن وارثوں کی ’حصہ داری‘ کا خیال نہیں رکھا گیا‘ جو اِس کی ساخت کے ہر ذرے کو عقیدت سے چومتے اور سرآنکھوں پر سجاتے رہے۔
مولوی جیؒ کے بعد اجتہاد کا دروازہ کھل گیا۔ راتوں رات قدیم عمارت کی جگہ اینٹ‘ ریت اور سیمنٹ نے لے لی اور اِس ’اجتہاد‘ پر خاموشی (سکوت) اور یہ خیال ہی بہتر ہے کہ ’’تبدیلی انسانی زندگی کا مستقل جز ہے۔‘‘ مرید کہیں بھی ہو لیکن ایسا ممکن ہی نہیں کہ عیدالاضحی (یا کسی بھی تہوار) کے موقع پر سراپا شفقت ’مولوی جیؒ ‘ کی یاد گرامی نہ آئے۔ اُس روحانی معالج (گدی نشینی) سے علمی‘ اَدبی اور سیاسی موضوعات کا احاطہ کسی ایک مضمون میں ممکن نہیں بس 2 واقعات اسفار (کتابوں) کا نچوڑ ہیں۔
پہلا واقعہ: عمومی نشست میں پنجم اِمام حضرت محمد ابن علی باقر (ولادت یکم رجب المرجب 57 ہجری۔ شہادت 7 ذی الحجہ 114ہجری) کا ذکرِخیر اُن کے قول سے ہوا جس میں ’کووّں (Corvus)‘ سے 3 باتیں سیکھنے کی نصیحت فرمائی گئی ہے۔ 1: الصبح جاگنا اُور محنت: کوا (Crow) پرندوں میں سب سے پہلے جاگتا (اُڑتا) ہے اُور رزق تلاش کرنے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ کسی کے شکار کا اِنتظار نہیں کرتا۔ کسی کے آسرے پر نہیں رہتا۔ 2: خبردار رہنا: کوا‘ اپنے کسی دشمن کو کمزور نہیں سمجھتا۔ ہر وقت خود کو خطرے میں محسوس کرتا ہے۔ سبق آموز ہے کہ اِنسان کا کھلا دشمن شیطان ہے‘ جس کے وار سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ 3: عزت نفس: کوا خوددار ہوتا ہے اور اپنی نجی زندگی کی مصروفیات ظاہر نہیں کرتا۔ بے حیاء نہیں ہوتا۔
دوسرا واقعہ: سردیوں کی شب پیپلزپارٹی کے بانی رکن‘ 1967ء سے تادم شہادت سیاسی کارکن رہنے والے صوبائی وزیر سیّد قمر عباس (وفات سات مئی دوہزار سات عیسوی) اچانک آستانہ عالیہ پر آئے (اندرون پشاور ’مدینۃ الفاضلہ‘ تو کبھی نہیں رہا لیکن امن وامان کی صورتحال مثالی ضرور تھی کہ لوگ گھروں کے دروازے اور بالخصوص آستانہ عالیہ کا واحد داخلی دروازہ بند نہیں کیا جاتا تھا)۔ قمر عباس نے مولوی جیؒ سے ملنے کی خواہش کا اِظہار کیا۔ مولوی جیؒ کے صاحبزادے (جانشین) سیّد نورالحسنین گیلانی (سلطان آغا) کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ نصف شب کے قریب کس طرح مولوی جیؒ کو مطلع کیا جائے جبکہ وہ اپنی قیام گاہ ’شہ نشین‘ تشریف لے جا چکے تھے اور بالخصوص شب کے اِس پہر کوئی اُن کی عبادت میں مخل ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا حتیٰ کے اہل خانہ باتیں بھی دھیمی آواز میں کرتے۔ ابھی رسمی جملوں کا تبادلہ جاری تھا کہ مولوی جیؒ موٹا کمبل (لوئی) اُوڑھے برآمد ہوئے حالانکہ اُنہیں کسی نے مطلع نہیں کیا تھا اور نہ ہی اُن دنوں موبائل فونز عام ہوا کرتے تھے۔ آپؒ تشریف لائے اور پوچھا کون کون ہے؟ مقصد تھا کہ مہمان کون آیاہے؟ اِس دوران قمرعباس آگے بڑھے‘ ہاتھ چوما اور اُنہوں نے مسکراتے ہوئے گلے لگا لیا۔ پھر مولوی جیؒ اپنی گدی (عمومی نشست) پر تشریف فرما ہونے کی بجائے قمر عباس کے ساتھ اَلگ سے بیٹھ گئے۔ دونوں کے درمیان چند لمحے گفت گو ہوئی اور پُرتکلف قہوہ سے تواضع کے بعد وہ جس تیزی سے آئے‘ اُسی تیزی سے رخصت ہو گئے۔ چند روز بعد موقع ملا تو قدم بوسی کے بعد مولوی جیؒ سے اُس نشست کے بارے میں پوچھا‘ آپؒ نے کہا کہ ’’وہ (قمرعباس) اپنا ایک مسئلہ لیکر آیا تھا اور میں نے اُسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے شعر سے جواب دے کر مطمئن کردیا۔ پھر کچھ دیر خاموش رہے اور جوش سے عربی زبان کا یہ شعر پڑھا ’’رضینا قسمتہ الجبار فینا: لنا علم وللجھال مال ۔۔۔ لان المال یفنی عن قریب: وان العلم لیس لہ زوال (ترجمہ): میں (امام علیؓ) اپنے رب کی اِس تقسیم پر راضی ہوں کہ اُس نے مجھے علم اُور (میرے دشمنوں) جاہلوں کو مال سے نوازہ۔ عطیۂ علم ہمیشہ باقی رہنے والا ہے جبکہ مال و دولت زوال پذیر ہیں۔)
مولوی جیؒ کے بقول محنت اُور ’اعتماد برنفس‘ کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ ’رزق کی طلب‘ کے لئے محنت اِس یقین کے ساتھ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ پر بھروسہ برقرار (غیرمتزلزل‘ مسلسل) رہے‘ اِس کا حاصل سیلف کانفیڈنس (اِعتماد برنفس) ہوگا‘ جو ترقی کے زینے پر چڑھنے (ارتقاء) کے لئے ضروری ہے۔ کوشش قابل فخر نہیں بلکہ محنت پر ناز (زور) ہونا چاہئے۔ اگر کامیابی خواہش (مطلوب و مقصود) ہے تو صرف دعائیں کافی نہیں‘ لیکن ’’بغیرِ دُعا‘‘ بھی عملی زندگی میں کامیابی نہیں مل سکتی۔ دُعا اِنسانی زندگی بیلنس (ضرورت پوری) کرتی ہے اُس منزل پر جہاں تسکین اُور تسلی درکار ہو کہ اِنسان سے جو کچھ بھی سرزد رہا ہے وہ ’درست سمت‘ میں ہے اُور یہ سفر اپنی اور مستجاب الدعاء ہستیوں سے تعلق و دعاؤں کے زیرسایہ جاری ہے۔’’جلتا ہر شب ہے آسماں پہ چراغ۔۔۔جام یزداں ہے منتظر کس کا۔‘‘
۔۔۔
![]() |
Remembering Molvee Gee on Eid with 2 events |
No comments:
Post a Comment