ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
’عشق‘ کے اِمتحاں!
اِعتراف حقیقت‘ اِعتراف جرم نہیں ہوتا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے برطانوی خبررساں اِدارے ’بی بی سی‘ سے بات چیت کرتے ہوئے اِس بات پر ’شکر‘ کا اِظہار کیا ہے کہ ’’سال دوہزار تیرہ کے عام اِنتخابات میں اُنہیں وفاق میں حکومت سازی کاموقع ملتا تو خیبرپختونخوا کی طرح ہی صورتحال پیش آتی‘ جس میں تبدیلی سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوئیں۔‘‘ چار سال صوبے میں سیاہ و سفید کے مالک اُور فیصلہ سازی کے منصب پر فائز رہنے والے عمران خان ہم جماعتوں کو اِس ’یقین کی بنیاد‘ پر معاف کر رہے ہیں کیونکہ وہ (مبینہ طورپر) ’ناتجربہ کار‘ تھے اُور انہیں سیاسی حکومت چلانے کا تجربہ نہیں تھا لیکن درحقیقت وہ اپنی غلطیوں (اندھے اعتماد) کو نہیں کوس رہے‘ جو وزیراعلیٰ کے چناؤ سے لیکر ’اَین اَے ون‘ کی نشست خالی کرنے تک اُن کے متکبرانہ طرزعمل کی طویل فہرست کا جز ہے۔
کیا جواب ہوگا کہ صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں بلکہ مرکز اُور دیگر صوبوں میں ’تحریک اِنصاف‘ کی تنظیم سازی پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی اور اِس غلطی کو کس کے حصے میں شمار کیا جائے؟ تحریک اِنصاف کی قیادت ’بطور فیشن‘ سماجی رابطہ کاری کے وسائل بالخصوص ’ٹوئٹر (twitter)‘ اِستعمال کرتے ہیں لیکن اپنے پیغامات جاری کرنے کے علاؤہ وہ کسی ایسی ’آن لائن بحث‘ کا حصہ نہیں بنتے‘ جس کا تعلق بالخصوص تحریک انصاف کے جماعتی فیصلوں اُور نظم و ضبط سے ہو۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ تحریک انصاف نے سب سے زیادہ نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ (راغب) کیا لیکن یہی وہ جماعت بھی ہے‘ جس نے اَندرون ملک سب سے زیادہ ’نوجوانوں پر مشتمل اَثاثے‘ کی خاطرخواہ قدرومنزلت نہیں کی۔ ذرائع اَبلاغ بالخصوص ’قومی و علاقائی اُردو اَخبارات‘ چیخ چیخ کر ’خیبرپختونخوا حکومتی کارکردگی‘ کی جانب متوجہ کرتے رہے لیکن ماضی کی طرح ’محکمۂ اِطلاعات‘ کے ذریعے صوبائی حکومت کی تعریف و توصیف کرنے والوں کو نواز کر ’بنی گالہ‘ کے سامنے ایک ایسا نقشہ پیش کیا گیا‘ جس میں خیبرپختونخوا میں اِدارہ جاتی اصلاحات اور ترقی کے عمل کو خوشنمائی سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا۔ سیاسی نوزائیدہ تحریک انصاف کی سیاسی پختگی کا سفر چٹکی بجانے سے نہیں ہوگا۔ ’دیرآئید درست آئید‘ دانش ہے کہ جنون‘ تبدیلی (اصلاح) اُور انقلاب (نظریاتی عشق) کے اِمتحاں اُور بھی ہیں!
کارکردگی ملاحظہ کیجئے کہ مالی سال 2016-17ء کے دوران خیبرپختونخوا نے محصولات (ٹیکس) جمع کرنے کا مقررہ ہدف حاصل نہیں کیا تو اِس سے بھی زیادہ تعجب خیز امر یہ ہے کہ گذشتہ مالی سال میں آمدن کا مقررہ ہدف کا قریب نصف (پچاس فیصد 24.5 ارب روپے) ہی جمع کئے جا سکے ہیں۔ صوبائی حکومت کے مقرر‘ عائد ٹیکسوں سے حاصل ہونے آمدنی 25فیصد جبکہ دیگر ذرائع سے متوقع آمدنی 64فیصد کم رہی۔ آمدنی میں کمی کا میزانیہ دلچسپ و عجیب اعدادوشمار کا مجموعہ ہے۔ مثال کے طور پر خیبرپختونخوا کے محکمۂ جنگلات کو ایک سال میں ’’6 ارب روپے‘‘ ٹیکس جمع کرنے کا ہدف دیا گیا تھا لیکن اپنے ہدف سے 5.5 ارب روپے پیچھے رہا اور یوں محصولات جمع کرانے میں محکمۂ جنگلات کی کارکردگی 92فیصد کم رہی! تصور کیجئے کہ سرکاری محکموں کے ملازمین کی تنخواہیں اُور مراعات کم نہیں ہوئیں لیکن اُن کے دم کرم سے صوبائی خزانے کو جو آمدنی باآسانی حاصل کی جا سکتی تھی اُس میں محکمہ ناکام رہا! صوبائی وزارت خزانہ کی ویب سائٹ (finance.gov.pk) پر موجود اعدادوشمار‘ ذرائع سے ملنے والی دستاویزات اور اِس مؤقف سے اختلاف کی گنجائش نہیں کہ اگر جملہ صوبائی محکموں کی ’غیرسنجیدگی‘ یونہی برقرار رہتی ہے‘ تو اِس سے خیبرپختونخوا میں تعمیروترقی کا عمل متاثر ہوگا بلکہ صحت و تعلیم کے جاری اُور مجوزہ منصوبوں کے لئے بھی مالی وسائل فراہم نہیں کئے جا سکیں گے!
عمران خان اپنی ناکامی اُور کامیابی بیک وقت تسلیم کر رہے تھے کہ ’سیاسی ناتجربہ کاری‘ کی وجہ سے تحریک اِنصاف ’خیبرپختونخوا‘ میں خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی لیکن عمران خان کی شہرت‘ ساکھ اُور سیاسی حیثیت سے فائدہ اُٹھانے والے اگر اُن کے ’شریک سفر‘ رہتے ہیں تو وہ مستقبل میں بھی ملنے والی چھوٹی بڑی سیاسی ذمہ داری اَدا کرنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔ غلطیاں سرزد ہونا غلطی نہیں لیکن غلطیوں سے سبق نہ سیکھنا‘ اِن سے اظہار بیزاری اُور غلطیوں کو کسی نہ کسی جواز کے تحت قابل قبول سمجھنا ’گناہ‘ ہے کیونکہ اِسی سے مصلحت (بوجھ) جنم لیتا ہے‘ جس سے بعدازاں چھٹکارہ ممکن نہیں رہتا۔ تحریک انصاف کے جملہ فیصلہ سازوں کو برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر (Tony Blair) کی یاداشتوں (memoir) پر مبنی کتاب ’اے جرنی (A Journey)‘ کا مطالعہ یا کم سے کم ورق گردانی ضرور کرنی چاہئے جس کا نچوڑ اِس تصور کو دیا جا سکتا ہے کہ ’کسی سیاسی جماعت کے برسراقتدار رہنے کا عرصہ (پاور پولیٹیکس) اُور ’حکمرانی برائے اِصلاحات‘ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔‘‘ کھوٹے سکے اگر بانئ پاکستان قائداَعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے کام نہیں آ سکے‘ تو خوش فہم عمران خان کو حقیقت پسندی سے کام لینا چاہئے۔
حرف آخر: خیبرپختونخوا محکمۂ تعلیم کے ملازمین مسرور ہیں کہ اُن کے بچوں کو ’تعلیمی وظائف‘ دینے کے لئے ’اَیجوکیشن اِیمپلائیز فاؤنڈیشن‘ نے درخواستیں طلب کی ہیں۔ صوبائی حکومت اِس بات کو ’لازماً‘ ممکن بنائے کہ صرف اُنہی بچوں کو وظائف دیئے جائیں گے‘ جو ’سرکاری درسگاہوں (سکولوں‘ کالجوں اور جامعات)‘ میں زیرتعلیم ہیں۔ محکمۂ تعلیم کے مراعات یافتہ فیصلہ ساز جس طرح ’صرف اُور صرف‘ اپنی ’بہبود‘ کے بارے میں سوچتے ہیں تو اِن نیک خواہشات (توجہات) کا رُخ ’سرکاری درسگاہوں‘ کی سرپرستی اُور کشش میں اضافہ کرنے کی جانب بھی ہونا چاہئے۔
![]() |
Aitraf e Haqeeqat |
No comments:
Post a Comment