Tuesday, October 3, 2017

Oct 2017: Eye lose o'clock disappeared

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ویسے کا ویسا!
غور کرنا شرط ہے۔ تخیل کی دنیا میں اَچھوتے خیالات کی کبھی بھی کمی نہیں رہی اور انہیں اچھوتے خیالات کی بدولت انسانی معاشروں نے ترقی کی ہے۔ نت نئی سائنسی ایجادات کے پیچھے بھی تخلیقی قوتوں ہی کا عمل دخل ہے یعنی معاشرے کے وہ لوگ جو دوسروں سے مختلف سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہی ایجادات یا ایجادات کی وجہ بننے والے تصورات اگلتے (پیش) کرتے ہیں۔ یہ ایک ارتقائی عمل ہے جو انسانی معاشروں کے ساتھ جاری ہے۔ 

برق رفتار ’انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)‘ پر مبنی ہمارے موجودہ دور میں گردوپیش کے بارے مطالعے کے اسلوب تبدیل ہو گئے ہیں۔ بالخصوص ترقی یافتہ مغربی دنیا میں فلم (صرف تفریح طبع کا ذریعہ نہیں رہی) بلکہ اِسی فلم کے ذریعے ایک مسلسل کوشش یہ بھی ہو رہی ہے کہ ’علم و دانش‘ کو گھول گھول کر پلایا جا رہا ہے۔ فرانسیسی فلم ساز نے ’دعوت فکر‘ دی ہے کہ ’’اگر ہمارے فوت شدگان اور بالخصوص وہ لوگ کہ جنہوں نے ملک کو داخلی یا خارجی محاذوں پر جانی قربانیاں دے کر محفوظ بنایا اور وہ انہیں دوبارہ زندگی مل جائے تو وہ ہماری دنیا واپس آ جائیں تو پھر اِس دنیا کو کیسا پائیں گے! 

ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فلم کی کہانی (ڈرامہ) میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک رات فرانسیسی شہر کے مردہ لوگ اپنی اپنی قبروں سے نکل آتے ہیں اور اپنے اپنے علاقوں اور گھروں کی طرف لوٹتے ہیں تو انہیں جو کچھ دیکھنے کو ملتا ہے وہ اُن کے لئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے کہ ہر جگہ معمولات زندگی جوں کے توں جاری ملتے ہیں۔ سب کچھ ’ویسے کا ویسا‘ ہی ہوتا ہے جیسا کہ وہ چھوڑ کر گئے تھے اور کچھ بھی نہیں بدلا ہوتا۔ انہیں یہ جان کر زیادہ حیرت ہوتی ہے کہ جن محرکات اور سماج دشمن عناصر کے خلاف انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا وہ سب بھی اپنا اثرورسوخ بنائے (بحال رکھے) ہوئے تھے۔ یہ رواں دواں زندگی دیکھ کر اُنہیں بہت دُکھ ہوتا ہے کہ جن کے لئے‘ جن کی محبت میں اُنہوں نے قربانی دی وہ اہل و عیال اور دوست احباب ہنستی بستی دنیا میں مگن ہیں۔ کچھ کھانا کھاتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ کچھ نجی محافل میں ناچ گانے سے محظوظ ہو رہے ہیں اور یوں ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں بھرپور زندگی سے لطف اندوز ہو ہوتا ہے۔ تکلیف دہ حقیقت یہ بھی سامنے آئی کہ چند ایسے افراد بھی تھے جن کی بیویوں نے دوسری شادیاں کر لی تھیں اور اب وہ اپنے نئے شوہروں کے ساتھ معمول کی زندگی بسر کر رہی تھیں جن پر اُن کی رحلت (غیرحاضری) کا کوئی دکھ (اثر) نہیں تھا۔ ہر کوئی یوں خوش اور معمول کے مطابق زندگی بسر کر رہا تھا جیسا کہ اُس کا حافظہ جواب دے گیا ہو۔ اُن میں سے کسی کو بھی یاد نہیں رہا تھا کہ جو کبھی اُنہیں ’عزیزازجان‘ تھے وہ اب نہیں رہے ہیں۔ ملک و قوم کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والوں نے ایک دوسرے سے سوال کیا کہ ’’آخر ہمارا قصور کیا تھا؟ ہمیں کیوں اکسایا گیا؟ کیا دنیا ایک ایسی جگہ نہیں بن سکتی جہاں کسی کو اپنی موت سے پہلے موت نہ آئے؟ 

ملک و قوم کے ہماری قربانیاں دینے کا فائدہ اور نقصان کسے ہوا؟ اور یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ لیکن مرنے والے ایک ایسی دنیا میں تھے جہاں اُن کی آوازیں اور وجود سنائی اور دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ اُن کے چھبتے ہوئے سوالات کا جواب صرف اُسی صورت مل سکتا تھا جبکہ وہ بہ نفس نفیس وہاں موجود ہوتے۔ مذکورہ فلم کا نام ’They Came Back‘ فرانسیسی نام ’Les Revenants‘ ہے اور یہ سال 2004ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اِس فلم کا ایک جملہ شاید اِس کا حاصل قرار دیا جا سکتا ہے کہ ’’دنیا میں کچھ بھی عظیم نہیں ہوتا بس چند چیزیں اور معاملات دوسروں کے مقابلے کم یا زیادہ قابل قبول ہوتی ہیں!‘‘

مشاہدہ شرط ہے۔ فرانسیسی گاؤں سے متعلق فلم کی یاد اپنے ایک عزیز دوست ’’سیّد سعید الزمان گیلانی المعروف سعید آغا (بکی)‘‘ کی فیس بک پر حالیہ تصویر دیکھ کر آئی‘ جس میں اُس کی چہرے اور سر کے بالوں پر سفیدی حاوی دکھائی دی۔ وہ کبھی بھی اتنا بوڑھا نہیں دیکھا گیا اور وہ اپنی عمر سے کئی سال بڑا دکھائی دے رہا تھا جبکہ مسکراہٹ کی ایک ہلکی سی لکیر بھی چہرے پر سجی ہوئی نہیں تھی! اقتصادی وجوہات (محنت مزدوری کے لئے) سعید آغا کو پاکستان سے امریکہ (نیویارک) منتقل ہوئے بیس برس سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے اور یہی عمر عزیز کا وہ عرصہ ہے کہ جس کا ایک بھی دن خرید کر واپس نہیں لایا جا سکتا۔ اُس کے پاس بھلے ہی بہت دولت ہو۔ ایک سے زیادہ گھر ہوں لیکن رہنا تو ایک ہی گھر اور ایک ہی وقت کے کھانے پر ہے! آج ’سعید آغا‘ صرف اُنہی لوگوں کے لئے ’زندہ‘ ہے‘ جن کی زندگیوں میں اُس کی ارسال کردہ ’مالی معاونت‘ کا کچھ نہ کچھ عمل دخل ہے۔ باقی ماندہ پشاور (آبائی شہر) کے لئے اُس کا وجود ایک حوالہ تو ہے لیکن اِس سے زیادہ نہیں۔ اِس بیس برس میں اُس نے اپنے دو بچوں (منزہ اور سکندر) کو سپرد خاک کیا اُور جو کچھ سپردخاک ہونے سے رہ گیا وہ دن گن رہا ہے۔ اقتصادی ضرورت کب مجبوری بنی اور کب معاش کی طلب نے دوسروں کی آسائش و توقعات پر پورا اُترنے جیسی دلدل میں ’سعید آغا‘ کو دھکیلا‘ یہ کہانی صرف کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ ایسے کئی جوانوں کی ہے‘ جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ’دیار غیر‘ میں محنت مشقت کی نذر کر دیا ہے لیکن اگر وہ کبھی اچانک واپس لوٹ آئیں تو پائیں گے کہ اُن کی موجودگی سے زیادہ اُن کی عدم موجودگی سے بھی فرق نہیں پڑے گا ہاں اگر خسارہ ہو رہا ہے تو وہ صرف اُنہی کا اپنا ہے۔ ہر گزرتا دن‘ اُن کے خسارے میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ 

ضروری نہیں کہ کسی کے مرنے ہی سے اُس کا وجود ختم ہو جائے بلکہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کوئی زندہ شخص بھی شمار میں نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ جنہیں ہم بھول جاتے ہیں اُنہیں ہم کھو دیتے ہیں اور کھوئی ہوئی چیزیں کبھی کبھار بیٹھے بٹھائے یاد آ جاتی ہے۔ سعید آغا کی یاد ’آئی فون‘ کے نئے ماڈل کے لانچ ہونے پر آئی لیکن کسی ایسے شخص سے فرمائش بھلا کیسے کی جاسکتی ہے جسے خود اپنے ہاتھوں دفن کردیا ہو!؟
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-10-03

No comments:

Post a Comment