ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاسی کارکردگی: مَظہر و مُظہر!
’ایبٹ آباد‘ کے شہری و دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی اکثریت کا ماننا ہے کہ ’’تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی کارکردگی (اُور دلچسپی) دیکھ کر نہیں لگتا کہ اِس جماعت سے تعلق رکھنے والے منتخب اراکین ’آئندہ عام انتخابات‘ میں بطور اُمیدوار حصہ لیں گے۔‘‘ یہ کوئی اَچھوتا نتیجۂ خیال نہیں اور نہ ہی پہلی مرتبہ اِس قسم کی ’تشویش کا اظہار‘ کیا جا رہا ہے لیکن سیاسی عدم توجہی کے باعث تحریک انصاف کو صرف صوبائی دارالحکومت پشاور ہی میں غیرمعمولی انتخابی خسارہ برداشت کرنا نہیں پڑے گا بلکہ دیگر اضلاع میں تحریک کے کارکنوں میں مایوسی پائی جاتی ہے جس کے مَظہر اور مُظہر الگ الگ ہیں۔ کارکنوں کو گلہ ہے کہ مرکزی قیادت تنظیم سازی پر خاطرخواہ توجہ نہیں دے رہی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کا کوئی ایک ضلع بھی ایسا نہیں جہاں تحریک داخلی دھڑے بندیوں کا شکار نہ ہو لیکن اِس سے بھی زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ قیادت کو اِس کا رتی بھر احساس بھی نہیں! تحریک انصاف کے ذمے واجب الادأ ذمہ داریوں میں ترقیاتی کام ہیں جن کی چار سالہ دور میں سست رفتار الگ سے تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ دو سال ہونے کو ہیں لیکن ایبٹ آباد کے ’مری روڈ‘ کی توسیع پر مبنی تعمیراتی کام مکمل نہیں ہوسکا۔ یہ شاہراہ قراقرم کی طرح اہم و مصروف شاہراہ ایبٹ آباد کو بالائی علاقوں سے ملاتی ہے اور اِسی کے ذریعے لاکھوں کی تعداد میں سیاح بالائی گلیات (نتھیاگلی‘ ٹھنڈیانی و ملحقہ سیاحتی مقامات) کی سیر کے لئے سارا سال آتے ہیں۔ علاؤہ ازیں بالائی ایبٹ آباد کی جنت نظیر وادیوں میں رہنے والوں کے لئے اشیائے خوردونوش (مال برداری) کے لئے بھی یہی شاہراہ استعمال ہوتی ہے اور مقامی افراد جن میں بڑی تعداد سکولوں کے طلباء و طالبات کی ہے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ تصور کیجئے کہ جس شاہراہ سے صرف تین ماہ میں استفادہ کرنے والی ’ہیوی اور لائٹ‘ گاڑیوں کی تعداد پندرہ لاکھ سے زیادہ ہو‘ اُس کی توسیع کس قدر ضروری اور کس قدر تیزرفتاری سے مکمل ہونا چاہئے تھی۔ عجب ہے کہ ایبٹ آباد سے منتخب ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی (پی کے پینتالیس) کی رہائشگاہ اور اُن کا نجی سکول بھی اِسی ’مری روڈ‘ کے کنارے پر واقع ہے اور اپنے آبائی حلقے سے ہفتہ وار دوروں کے موقع پر وہ خود بھی اِسی مری روڈ سے گزرتے ہیں جو کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے لیکن موٹے ٹائروں والی لینڈکروزر ائرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھنے والوں کو نہ تو چیچک زدہ سڑکیں دکھائی دیتی ہیں اور نہ ہی تعمیراتی ملبے سے اَٹی ہوئی سڑکیں اور گردوغبار کے بادل اُن کے لئے پریشانی کا باعث بنتے ہیں!
اگر کوئی صوبائی حکومت چند کلومیٹر شاہراہ ہی چار سال میں مکمل نہ کر پائی تو اُس سے کس طرح اُمید کی جا سکتی ہے کہ اپنی آئینی مدت کے باقی ماندہ آٹھ ماہ سے کم عرصہ میں سارے ترقیاتی کام مکمل کر سکے گی؟
’مری روڈ‘ کی طرح ’نواں شہر روڈ‘ جو کہ کڑی پنہ چوک سے ’پی ایم اے‘ کاکول (بائی پاس) زیرتعمیر ہے اور بیک وقت جابجا جاری تعمیراتی کاموں کی وجہ سے اِن علاقوں پر بھی گردوغبار کے بادل مستقل چھائے رہتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ایبٹ آباد سے بارشیں روٹھ گئیں ہوں۔ خشک سالی کی رواں اور گرم موسمی لہر کی وجہ سے اِس ’صحت افزأ مقام‘ کی سرسبزی و ہریالی متاثر ہو رہی ہے۔ تحفظ ماحول کے لئے کوششوں میں ’شجرکاری مہم‘ تحریک انصاف کا طرۂ امتیاز ہے لیکن اِس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہونے میں کئی برس لگیں گے تو کیا اُس وقت تک ایسی کوئی صورت نہیں کہ جس سے ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تپش کو کم کیا جا سکے؟ تجویز ہے کہ زیرتعمیرشاہراؤں پر پانی کے چھڑکاؤ کو مستقل بنیادوں پر دن میں متعدد مرتبہ دہرایا جائے تاکہ کم سے کم ’گردوغبار‘ کے بادل چھٹ جائیں۔ المیہ ہے کہ مری روڈ اور ملحقہ نواں شہر کی رابطہ شاہراہ گنجان آباد علاقوں سے گزرتی ہے اور اِسی کے کنارے تجارتی مراکز بھی ہیں جہاں کے دکاندار چہروں کو ڈھانپنے کے باوجود بھی مٹی کی تہہ سے اٹے رہتے ہیں۔
ایبٹ آباد کا شہری و دیہی علاقہ قومی اسمبلی کی نشست ’این اے سترہ‘ اور صوبائی اسمبلی کی نشست ’پی کے پینتالیس‘ پر مشتمل ہے‘ جس پر کامیاب ہونے والے دونوں عوامی نمائندوں کا تعلق ’تحریک انصاف‘ سے ہے اسی طرح حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں ضلع ایبٹ کی اکثریتی نشستوں پر ’تحریک انصاف‘ کے نامزد بلدیاتی نمائندے منتخب ہوئے لیکن داخلی انتشار اور پارٹی کی مضبوط گرفت نہ ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف ضلعی حکومت تشکیل دینے میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکی۔
سازشوں کا شکار وہی ہوتے ہیں جو معلوم کمزوریوں اور ظاہری حالات (برسرزمین حقائق) کو جانتے ہوئے بھی اُن پر قابو پانے کی تدبیر نہیں کرتے۔ ہر کوئی عمران خان کی نظروں میں رہنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پس پردہ تحریک انصاف کی مضبوطی و نظم و ضبط کے لئے درمے درہمے سخنے سرمایہ کاری کرنے والا کوئی نہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط (بیجا) نہیں ہوگا کہ آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کو کسی مخالف سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ پارٹی کے داخلی نظم وضبط کے فقدان اور کمزور جماعتی ڈھانچے سے خطرات لاحق ہوں گے۔ ضلع ایبٹ آباد میں تحریک انصاف کے نظریاتی‘ نوجوان‘ خواتین اور رضاکار کارکنوں میں پائی جانے والی مایوسی کو سمجھنا قطعی دشوار نہیں جن کے لئے اُن کی اپنی ہی جماعت کی صوبائی حکومت (پشاور) اُور بنی گالہ (پارٹی چیئرمین عمران خان) سے فاصلے (اور مسافت) ایک جیسی ہے۔ عمران خان اپنی مصروفیات سے بہت سا وقت نکال کر نتھیاگلی تشریف لاتے ہیں لیکن محض تیس کلومیٹر (آدھ گھنٹے کے فاصلے پر) ملحقہ ایبٹ آباد قدم رنجہ نہیں فرماتے‘ جہاں سے تعلق رکھنے والے اُن سے بہ نفس نفیس ملاقات و دیدار کے متمنی ہیں۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو اِن کی طاقت اور حمایت کا جواب محبت ہی سے دینا ہی ایک ایسی منطق ہے‘ جس کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا!
۔
No comments:
Post a Comment