ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
جذبۂ تعمیر زندہ؟
تعمیروترقی کا عمل ’’منصوبہ بندی‘ تسلسل اُور پائیداری‘‘ جیسے اُوصاف (خوبیوں) کا مجموعہ نہ ہو‘ تو سوچ بچار کے بعد نت نئے تخلیقی خیالات اور اَربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ یہی کہانی پشاور کی ہے جس کا (نام نہاد) ترقیاتی اِدارہ ’’ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے)‘‘ ایک نئے روپ میں سامنے آنے والا ہے۔ یہ بات ’پی ڈی اے‘ ملازمین کے لئے خوشخبری تو ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے ’پی ڈی اے‘ کی پندرہ برس سے جاری محرومی کا خاتمہ کردیا ہے اور اب جلد ہی ’پی ڈی اے‘ کو اُس کا آئینی مقام مل جائے گا لیکن کیا یہ پیشرفت پشاور کے اُس عام آدمی (ہم عوام) کے لئے بھی خوشخبری قرار دی جاسکتی ہے جو انواع واقسام کے مسائل و مشکلات سے دوچار ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ ’پی ڈی اے‘ کو بناء ’آئینی حیثیت‘ جو اختیارات حاصل تھے اُن کا استعمال کرتے ہوئے پشاور کے مفادات کا تحفظ کس حد تک کیا گیا؟ سزأ و جزأ کے بغیر ادارے کی اصلاح ممکن نہیں۔ جن ملازمین کے منہ کو ’بدعنوانی (کرپشن) کا خون لگا ہوا ہے‘ اُن کا احتساب اور اُن سے نجات کے بغیر ’پی ڈی اے‘ کی نشاۃ ثانیہ ممکن نہیں بلکہ یہ خواب ایک خواب ہی رہے گا۔
پشاور کے مسائل اور بے ہنگم ترقی کے تناظر میں ’پی ڈی اے‘ کی اب تک کی کارکردگی کیا ہے اور اگر اس ادارے کو آئینی حیثیت مل گئی ہے تو اِس سے کارکردگی پر کیا فرق پڑے گا یعنی کیا بہتری آئے گی؟ کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ ’پی ڈی اے‘ کا مستقبل قریب میں سربراہ کسی ایسے شخص کو لگایا جائے گا جس کا دلی تعلق پشاور ہونے کے ساتھ اُس کی قابلیت اور اہلیت صرف ملازمتی تجربہ اور سیاسی وابستگی نہ ہو؟ کیا یہ امر تعجب خیز ہے کہ ایک سے زیادہ صوبائی حکومتیں ایسی بھی رہیں ہیں کہ جنہوں نے ’پی ڈی اے‘ کے سربراہ کی تعیناتی بھاری رشوت کے عوض کی لیکن اِس معلوم حقیقت کے باوجود بھی سیاسی فیصلہ سازوں کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ ’پی ڈی اے‘ کے نگران بیرون ملک دوروں اور پرتعیش مقامات پر دیکھے گئے لیکن اُن کے دامن پر بدعنوانی کا ایک بھی دھبہ نہیں پایا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ افسرشاہی پہلے سیاست دانوں کو بدعنوان کرتی ہے اور پھر دونوں ہاتھوں سے سرکاری وسائل کی لوٹ مار کی جاتی ہے۔
عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے پیش نظر بھی یہی ہوتا ہے کہ بہرقیمت منتخب ہونے کے بعد سرکاری محکموں کے انتظامی عہدوں پر تعیناتیاں فروخت کی جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’پی ڈی اے‘ ہر دور حکومت میں صرف سیاسی بنیادوں پر ملازمتوں کا مرکز رہا ہے اور نتیجہ یہ بھی ہے کہ ایک اہم ترین ادارے پر نہ صرف ضرورت سے زیادہ افرادی قوت کا بوجھ ڈال کر اُسے مفلوج کیا گیا بلکہ سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر ہونے والی بھرتیوں کو اپنے احتساب کا ڈر بھی نہیں اور نہ ہی ’جذبۂ تعمیر‘ کا زندہ ہونا شرط (ضروری) ہے!
خیبرپختونخوا قانون ساز اسمبلی میں ’’پشاور ڈویلیپمنٹ اتھارٹی بل 2017ء‘‘ نامی قانون منظوری کے لئے پیش کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئیں ہیں جس کا بنیادی مقصد ’پی ڈی اے‘ کو قانونی اور خودمختار ادارے کی حیثیت دینا ہے۔ قانونی نکتۂ نظر سے بات کی جائے تو سال 2002ء میں جب حکومت نے ’’خیبرپختونخوا اربن ڈویلپمنٹ بورڈ‘‘ کو تحلیل کرنے کا قانون منظور کیا تھا تب ’پی ڈی اے‘ محکمۂ بلدیات کو سونپ دیا گیا لیکن اِس ادارے سے نفرت کی انتہاء یہ تھی کہ اِسے ایک غیرفعال اِدارہ پکارا گیا۔ جس کے بعد ’پی ڈی اے‘ کا آئینی وجود سوالیہ نشان رہا اور پندرہ برس تک یہ ادارہ اپنی آئینی شناخت اور وجود کی تلاش میں سرگرداں رہا‘ اب جبکہ آئینی حیثیت بحال ہو رہی ہے تو خیبرپختونخوا کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’پی ڈی اے‘ کے ڈائریکٹر جنرل کے اُن جملہ امور (اُن فیصلوں) کی بھی منظوری دے گی جو پندرہ سال کے دوران مختلف مواقعوں پر صادر کئے جاتے رہے۔
حقیقت یہ رہی کہ سیاسی حکمران مختلف ادوار ’پی ڈی اے‘ کی غیرآئینی حیثیت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے رہے۔ کارکنوں کی بھرتیاں ہوں‘ ترقیاتی کاموں کے لئے مختص مالی وسائل کی اپنے انتخابی حلقوں میں تقسیم ہو یا بااثر افراد کو بلڈنگ کنٹرول (نئی تعمیرات) کے قواعد و ضوابط سے رعائت دینا ہو‘ صوبائی وزرأ کے اشارے پر سیاہ و سفید کام ہوتے رہے۔ ’پی ڈی اے‘ کے ملازمین کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی رہی جو حکمراں سیاسی و غیرسیاسی افراد کے گھروں پر ذاتی ملازمین کی طرح تعینات رہے اور کچھ عجب نہیں کہ ایسے ’بھوت ملازمین‘ آج بھی موجود ہوں! جبکہ ’پی ڈی اے‘ کے افرادی وسائل‘ گاڑیاں اور ایندھن بھی چند افراد کی صوابدید پر رہا لیکن اب اُس ماضی کو دفن کرکے ایک ’نئی شروعات‘ ہونے جا رہی ہے‘ جس میں بہتری کی توقع بہرحال رکھنی چاہئے۔
آئینی حیثیت کے ساتھ ہی ’پی ڈی اے‘ کچھ نئے قواعد و اصولوں کا پابند بھی ہو جائے گا جیسا کہ خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ (بلحاظ عہدہ) ’پی ڈی اے‘ کا چیئرمین ہوا کرے گا اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وزیراعلیٰ کی اسقدر مصروفیات ہوتی ہیں کہ اُنہیں شاید ہی کسی ایک سال کے دوران ایک مرتبہ بھی ’پی ڈی اے‘ اجلاس میں شرکت کی فرصت مل سکے۔ اگر پشاور وزیراعلیٰ کی ترجیح ہوتا تو کسی ’پی ڈی اے‘ یا ضلعی حکومت سے توقعات وابستہ کرنے کی نوبت ہی نہ آتی بہرکیف وزیربلدیات (بلحاظ عہدہ) ’پی ڈی اے‘ کا وائس چیئرمین اور اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی کسی بھی رکن اسمبلی کو بطور ’رکن (ممبر)‘ پی ڈی اے کی نگران انتظامی باڈی میں شامل کر سکیں گے۔ ضلع پشاور کا ناظم بھی (بلحاظ عہدہ) ’پی ڈی اے‘ کی گورننگ باڈی کا ایک رکن ہوگا۔ یہ ایک خوبصورت (آئیڈیل) انتظامی تشکیل ہے‘ جس میں سیاست دانوں کے ساتھ افسرشاہی (بیوروکریسی) کو بھی حصہ داری دی گئی ہے (پشاور ایک میٹھے کیک جیسا ہے جس کے گرد بیٹھنے والوں کے فرط جذبات سے سرخ چہرے تصور پر حاوی ہیں!) ’پی ڈی اے‘ کی گورننگ باڈی اراکین میں سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ‘ سیکرٹری فنانس‘ سیکرٹری بلدیات و دیہی ترقی‘ سیکرٹری جنگلات‘ سیکرٹری ماحولیات اور کمشنر پشاور بلحاظ عہدہ شامل ہوں گے جبکہ ’پی ڈی اے‘ کے فیصلوں کی منظوری ’گورننگ باڈی‘ دیا کرے گی جس میں ہر رکن کو ایک ووٹ دینے کا حق ہوگا اور کسی اجلاس میں موجود اراکین کی تعداد رائے شماری کے ذریعے ترقیاتی امور (ترجیحات) طے کرے گی لیکن ہر اجلاس کے لئے کم سے کم ’’سات اراکین‘‘ کی موجودگی لازمی ہوا کرے گی۔ پشاور پر حکمرانی کرنے والوں کی کبھی بھی کمی نہیں رہی۔ اِن میں افراد بھی ہیں اور ادارے بھی لیکن تیزی سے پھلتے پھولتے پشاور میں جس بے ہنگم انداز سے رہائشی بستیاں تعمیر ہو رہی ہیں اُمید ہے کہ ’پی ڈی اے‘ ریگی للمہ ٹاؤن شپ منصوبے کی تکمیل کے ساتھ یہ معاملہ بھی پیش نظر رکھے گی۔ منتخب بلدیاتی نمائندے (ضلعی حکومت) اور ’پی ڈی اے‘ اگر ٹھان لے تو کوئی وجہ نہیں کہ ’پشاور کو درپیش مسائل (بحرانوں) کی شدت میں نمایاں کمی نہ لائی جا سکے لیکن ’جذبۂ تعمیر‘ کی زندگی اور بیداری کے لئے بھی کوششیں ہونی چاہیءں۔ بذریعہ قانون سازی ’پی ڈی اے‘ میں ’نئی روح‘ نہیں پھونکی جا سکتی اور نہ ہی کسی بوڑھے طوطے کو نئے الفاظ سکھائے جا سکتے ہیں!
No comments:
Post a Comment