ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعلیم: بیزاری سی بیزاری!
تیس ستمبر کی تحریر بعنوان ’’تعلیم: واجبات اُور بوجھ!‘‘ کے حوالے سے خواندگی کے فروغ کے لئے جاری کوششیں اُور نتائج کا تذکرہ دراصل مرثیہ تھا کہ ’’محکمۂ اِبتدائی و ثانوی تعلیم (ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ) کے مرتب کردہ اَعدادوشمار کے بقول خیبرپختونخوا میں ’سات لاکھ پچاس ہزار‘ بچے سکولوں سے اِستفادہ نہیں کر رہے اُور اِس کی دو بنیادی وجوہات میں ’غربت‘ اُور والدین کی ’عدم دلچسپی‘ شامل ہے۔‘‘ لیکن غربت و والدین کی عدم دلچسپی کے علاؤہ بھی دیگر ایسے محرکات ہیں‘ جس کے باعث لاکھوں بچے تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے اور یہ قطعی اُن بچوں کا قصور نہیں۔
ہر مرتبہ ’شعبۂ تعلیم‘ سے متعلق فیصلہ سازی کے عمل میں پائے جانے والے نقائص (کمی بیشی) کی نشاندہی کا مقصد ’تنقید برائے تنقید‘ نہیں ہوتا لیکن عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر سے فیصلہ سازوں کو آگاہ کرنے کی سعی کی جاتی ہے کہ ۔۔۔ ’’حضور توجہ فرمائیں: عوام کی اکثریت صوبائی حکومت اور بالخصوص محکمۂ تعلیم کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔‘‘
ہر مرتبہ ’شعبۂ تعلیم‘ سے متعلق فیصلہ سازی کے عمل میں پائے جانے والے نقائص (کمی بیشی) کی نشاندہی کا مقصد ’تنقید برائے تنقید‘ نہیں ہوتا لیکن عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر سے فیصلہ سازوں کو آگاہ کرنے کی سعی کی جاتی ہے کہ ۔۔۔ ’’حضور توجہ فرمائیں: عوام کی اکثریت صوبائی حکومت اور بالخصوص محکمۂ تعلیم کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔‘‘
ویمن میڈیکل کالج (ایبٹ آباد) کے ’شعبۂ فنانس (خزانہ)‘ میں ہر وقت ’اپنے کام سے کام‘ رکھنے والے ’اَحمد صاحب‘ کے لئے ایسے مضامین (کالم) ’بورنگ‘ ہوتے ہیں‘ جن میں اِدارہ جاتی کارکردگی اور اُس کے حاصل پر بحث کی گئی ہوتی ہے۔ تجویز کرتے ہیں کہ ’’اِن دنوں سیاسی جماعتوں کے داخلی معاملات‘ الیکشن کمیشن‘ سپرئم کورٹ‘ احتساب عدالتیں اور حکمراں جماعت کی جانب سے قانون سازی جیسے موضوعات کا احاطہ ہونا چاہئے جبکہ باقی سب ’ضمنی باتیں‘ ہیں!‘‘ لیکن یہی وہ غلطی ہے جو ’تعلیم یافتہ‘ اُور ’دانشور طبقات‘ میں فرق کرتی ہے۔ درحقیقت ہمارے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز اور بالخصوص افسرشاہی بھی یہی چاہتی ہے کہ قوم کی توجہ ’سیاسی بیان بازیوں (سرگرمیوں)‘ میں اُلجھی رہے۔
’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کی گردان سے ہوتے ہوئے احتساب کا عمل جس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اُس پر حکمراں جماعت کو اعتراض ہے جیسا کہ چار اکتوبر کے روز‘ وفاقی وزیر انوشہ رحمان نے فرمایا کہ ’’ماضی میں ہوئی ایسی کسی تیزرفتار عدالتی کاروائی کی مثال نہیں ملتی۔‘‘ تو حکمراں ’نواز لیگ‘ کے اِس ’اجتماعی مؤقف‘ کو اَصول مان کر پاکستان میں عدالتی انصاف کے طریقۂ کار اُور طرزعمل کو جوں کا توں ’سست رو‘ رکھا جائے جس کا فائدہ اکثر بدعنوانی کے مرتکب ملزمان اُٹھاتے چلے آ رہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت‘ جمہوری ادارے‘ سیاسی جماعتوں کے داخلی معاملات‘ قومی سیاست‘ قانون سازوں‘ قانون نافذ اور آئینی انصاف کی فراہمی (آؤٹ پٹ)‘ اُس وقت تک درست (اصلاح) نہیں ہوگی جب تک ہمارا ’نظام تعلیم‘ پوری طرح فعال نہیں ہوجاتا۔ لب لباب یہ ہے کہ بناء تعلیم ’قومی ترقی‘ کے لئے کی جانے والی ہر کوشش اور حد درجہ بڑے حجم کے مالی وسائل ’’ناکام و ناکافی‘‘ ثابت ہوں گے۔
’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کی گردان سے ہوتے ہوئے احتساب کا عمل جس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اُس پر حکمراں جماعت کو اعتراض ہے جیسا کہ چار اکتوبر کے روز‘ وفاقی وزیر انوشہ رحمان نے فرمایا کہ ’’ماضی میں ہوئی ایسی کسی تیزرفتار عدالتی کاروائی کی مثال نہیں ملتی۔‘‘ تو حکمراں ’نواز لیگ‘ کے اِس ’اجتماعی مؤقف‘ کو اَصول مان کر پاکستان میں عدالتی انصاف کے طریقۂ کار اُور طرزعمل کو جوں کا توں ’سست رو‘ رکھا جائے جس کا فائدہ اکثر بدعنوانی کے مرتکب ملزمان اُٹھاتے چلے آ رہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت‘ جمہوری ادارے‘ سیاسی جماعتوں کے داخلی معاملات‘ قومی سیاست‘ قانون سازوں‘ قانون نافذ اور آئینی انصاف کی فراہمی (آؤٹ پٹ)‘ اُس وقت تک درست (اصلاح) نہیں ہوگی جب تک ہمارا ’نظام تعلیم‘ پوری طرح فعال نہیں ہوجاتا۔ لب لباب یہ ہے کہ بناء تعلیم ’قومی ترقی‘ کے لئے کی جانے والی ہر کوشش اور حد درجہ بڑے حجم کے مالی وسائل ’’ناکام و ناکافی‘‘ ثابت ہوں گے۔
تعلیم آج کا ’ضمنی‘ نہیں بلکہ ’کلیدی‘ موضوع ہے۔ اگر خیبرپختونخوا کی بات کی جائے تو ’پانچ سے سولہ سال‘ کی عمروں کے ’پندرہ لاکھ‘ سے زیادہ بچے بچیاں تعلیم حاصل نہیں کر رہے۔
تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کی دعویدار صوبائی حکومت کے لئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہئے کہ خیبرپختونخوا میں ’’10 لاکھ 14 ہزار 419‘‘ بچیاں اور ’’5لاکھ 4 ہزار 952‘‘ بچے ’آؤٹ آف سکول‘ ہیں! یہ اَعدادوشمار محکمۂ اِبتدائی و ثانوی تعلیم (ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ) کے مرتب کردہ ہیں جو سال 2016ء میں کئے گئے ایک سروے (جائزہ) سے معلوم ہوئے۔ یہ سروے پچیس اضلاع میں چالیس لاکھ سے زیادہ گھرانوں سے پوچھے گئے سوالات کی بنیاد پر مرتب کیا گیا اور اِس کے نتائج رواں ہفتے جاری ہوئے ہیں۔ اِسی قسم کے جائزے (سروے) کے مطابق ’’قبائلی علاقوں میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کرنے والی طالبات کی تعداد ’پانچ لاکھ‘ سے زیادہ ہے!‘‘ چونکہ فیصلہ سازوں کے اپنے بچے اندرون و بیرون ملک اعلیٰ تعلیم اداروں سے استفادہ کر رہے ہیں‘ اِس لئے کسی کو پریشانی لاحق نہیں اور نہ ہی تشویش ہے کہ خیبرپختونخوا اُور ملحقہ قبائلی علاقوں میں بیس لاکھ سے زیادہ ’آؤٹ آف سکول‘ بچے بچیوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ ایسے ’’بیس لاکھ‘‘ بچوں سے کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ عام انتخابات میں وہ اپنا حق رائے دہی کا دانشمندی‘ بصیرت اور ملکی سیاسی تاریخ مدنظر رکھتے ہوئے استعمال کریں گے!
جمہوریت شعوری اور دانستہ طرزفکروعمل کا مجموعہ ہوتی ہے۔ یہ کسی ازخود آسمانی نعمت کے طور پر کہیں بھی نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی ہوگی بلکہ جمہوریت کسی ایسے معاشرے کے لئے مفید (کارآمد) ہو ہی نہیں سکتی جہاں شرح خواندگی نہ صرف خطرناک حد تک کم ہو بلکہ وہاں لاکھوں کی تعداد میں بچے بچیاں تعلیم سے بھی محروم ہوں۔ اگر یہ ’تلخ حقیقت‘ معلوم نہ ہوتی تو بات الگ تھی لیکن اگر ایک حکومتی ادارہ ہی نشاندہی کر رہا ہے تو اِسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں ’آؤٹ آف سکول‘ بچے بچیوں کی تعداد معلوم کرنے کے لئے صوبائی خزانے سے ’’22 کروڑ 70 لاکھ (227 ملین) روپے‘‘ جیسی خطیر رقم مالی سال 2015-16ء میں مختص کی گئی لیکن مالی وسائل فراہم نہ کرنے کی وجہ سے یہ کام ملتوی ہوتا رہا۔ رواں سال مکمل ہونے والی اس کوشش میں 40 ہزار پرائمری اساتذہ کی خدمات سے استفادہ کیا گیا‘ جن میں ساڑھے سات ہزار اعدادوشمار جمع کرنے کے نگران مقرر تھے۔ ہر ایک معلم کو ’’ایک سو‘‘ گھروں کے اعدادوشمار اکٹھا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی! اِن تفصیلات کے بیان کرنے کا مقصد اُس سنجیدہ کوشش کی اہمیت بیان کرنا ہے‘ جس سے حاصل ہونے والے نتائج صرف اِس وجہ سے رد نہیں کئے جاسکتے کہ تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ سیاسی قیادت کو جب خیبرپختونخوا حکومت ملی تو اُس وقت تعلیمی اِداروں سے استفادہ نہ کرنے والے بچے بچیوں کی کل تعداد ’’25 لاکھ‘‘ سے زیادہ تھی جو کم ہو کر ’’پندرہ لاکھ‘‘ رہ گئی ہے!
حسب وعدہ ’’تبدیلی ضروری ہے۔‘‘ ہر سال دو مرتبہ داخلہ مہمات کے باوجود بھی اگر سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد غیرمعمولی ہے‘ تو ’’حکمت عملی وضع‘‘ اور اِس ’’حکمت عملی کا اطلاق‘‘ کرنے والے انتظامی نگرانوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔
تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کی دعویدار صوبائی حکومت کے لئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہئے کہ خیبرپختونخوا میں ’’10 لاکھ 14 ہزار 419‘‘ بچیاں اور ’’5لاکھ 4 ہزار 952‘‘ بچے ’آؤٹ آف سکول‘ ہیں! یہ اَعدادوشمار محکمۂ اِبتدائی و ثانوی تعلیم (ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ) کے مرتب کردہ ہیں جو سال 2016ء میں کئے گئے ایک سروے (جائزہ) سے معلوم ہوئے۔ یہ سروے پچیس اضلاع میں چالیس لاکھ سے زیادہ گھرانوں سے پوچھے گئے سوالات کی بنیاد پر مرتب کیا گیا اور اِس کے نتائج رواں ہفتے جاری ہوئے ہیں۔ اِسی قسم کے جائزے (سروے) کے مطابق ’’قبائلی علاقوں میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کرنے والی طالبات کی تعداد ’پانچ لاکھ‘ سے زیادہ ہے!‘‘ چونکہ فیصلہ سازوں کے اپنے بچے اندرون و بیرون ملک اعلیٰ تعلیم اداروں سے استفادہ کر رہے ہیں‘ اِس لئے کسی کو پریشانی لاحق نہیں اور نہ ہی تشویش ہے کہ خیبرپختونخوا اُور ملحقہ قبائلی علاقوں میں بیس لاکھ سے زیادہ ’آؤٹ آف سکول‘ بچے بچیوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ ایسے ’’بیس لاکھ‘‘ بچوں سے کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ عام انتخابات میں وہ اپنا حق رائے دہی کا دانشمندی‘ بصیرت اور ملکی سیاسی تاریخ مدنظر رکھتے ہوئے استعمال کریں گے!
جمہوریت شعوری اور دانستہ طرزفکروعمل کا مجموعہ ہوتی ہے۔ یہ کسی ازخود آسمانی نعمت کے طور پر کہیں بھی نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی ہوگی بلکہ جمہوریت کسی ایسے معاشرے کے لئے مفید (کارآمد) ہو ہی نہیں سکتی جہاں شرح خواندگی نہ صرف خطرناک حد تک کم ہو بلکہ وہاں لاکھوں کی تعداد میں بچے بچیاں تعلیم سے بھی محروم ہوں۔ اگر یہ ’تلخ حقیقت‘ معلوم نہ ہوتی تو بات الگ تھی لیکن اگر ایک حکومتی ادارہ ہی نشاندہی کر رہا ہے تو اِسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں ’آؤٹ آف سکول‘ بچے بچیوں کی تعداد معلوم کرنے کے لئے صوبائی خزانے سے ’’22 کروڑ 70 لاکھ (227 ملین) روپے‘‘ جیسی خطیر رقم مالی سال 2015-16ء میں مختص کی گئی لیکن مالی وسائل فراہم نہ کرنے کی وجہ سے یہ کام ملتوی ہوتا رہا۔ رواں سال مکمل ہونے والی اس کوشش میں 40 ہزار پرائمری اساتذہ کی خدمات سے استفادہ کیا گیا‘ جن میں ساڑھے سات ہزار اعدادوشمار جمع کرنے کے نگران مقرر تھے۔ ہر ایک معلم کو ’’ایک سو‘‘ گھروں کے اعدادوشمار اکٹھا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی! اِن تفصیلات کے بیان کرنے کا مقصد اُس سنجیدہ کوشش کی اہمیت بیان کرنا ہے‘ جس سے حاصل ہونے والے نتائج صرف اِس وجہ سے رد نہیں کئے جاسکتے کہ تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ سیاسی قیادت کو جب خیبرپختونخوا حکومت ملی تو اُس وقت تعلیمی اِداروں سے استفادہ نہ کرنے والے بچے بچیوں کی کل تعداد ’’25 لاکھ‘‘ سے زیادہ تھی جو کم ہو کر ’’پندرہ لاکھ‘‘ رہ گئی ہے!
حسب وعدہ ’’تبدیلی ضروری ہے۔‘‘ ہر سال دو مرتبہ داخلہ مہمات کے باوجود بھی اگر سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد غیرمعمولی ہے‘ تو ’’حکمت عملی وضع‘‘ اور اِس ’’حکمت عملی کا اطلاق‘‘ کرنے والے انتظامی نگرانوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔
۔
No comments:
Post a Comment