CPEC
سی پیک!
پہلی حقیقت: پاکستان کے جن فیصلہ سازوں نے ’’چین پاکستان اقتصادی اقتصادی راہداری (منصوبہ)‘‘ کی منظوری دیتے ہوئے اِس معاہدے پر دستخط کئے ہیں اُن کے پاکستان میں کاروباری مفادات یا تو نہ ہونے کے برابر ہیں یا وہ اندرون ملک اپنی سرمایہ کاری نہیں رکھتے۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو جن فیصلہ سازوں نے ’سی پیک‘ کی منظوری اور اِسے عملی جامہ پہنانے کے لئے چین سے معاہدہ کیا‘ اُن کے زیادہ ترکاروباری مفادات پاکستان سے باہر ہیں۔
دوسری حقیقت: چین کی وہ کمپنیاں جو پاکستان میں بڑے ترقیاتی منصوبے (میگا پراجیکٹس) لے رہی ہیں وہ یہاں قدم جما رہی ہیں اور اپنے ساتھ چین سے افرادی قوت بھی لا رہی ہیں۔ چین کی کمپنیاں پاکستانی کمپنیوں سے بمشکل شراکت داری کرتی ہیں اور ترقیاتی منصوبوں کو ہرممکنہ اپنے ’افرادی و تکنیکی وسائل‘ سے پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کی صنعتیں بطور ادارہ یا افراد بطور افرادی قوت ’سی پیک‘ کے جاری منصوبوں سے تکنیکی اور فنی طور پر مستفید نہیں ہو رہے۔ اِسی طرح چین کی کمپنیاں پاکستان میں ٹیکنالوجی منتقل بھی نہیں کر رہیں‘ جس سے مقامی افراد کے لئے روزگار کے مواقع یا پاکستان میں صنعتی ترقی کا نیا دور شروع ہو۔
تیسری حقیقت: ترقیاتی مقاصد کے لئے قرضہ جات کسی بھی ملک کی ترقی میں ’کلیدی کردار‘ ادا کرتے ہیں۔ قرض بھلے ’ترقیاتی مقاصد‘ کے لئے لیا جائے یا کسی دوسرے مقصد کے لئے‘ اِس کا انحصار دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ 1: قرض کی شرائط کیا طے کی گئیں ہیں اور دوسرا‘ اُس پر شرح سود کتنی ادا کرنا پڑے گی۔
چوتھی حقیقت: پاکستان نے ’سی پیک‘ منصوبوں کے لئے جو قرضہ جات حاصل کئے اُن کی تفصیلات ’غیرضروری طور پر‘ خفیہ رکھی گئی ہیں۔ اگر ہم کوئلے سے بجلی سے پیداواری منصوبوں کی بات کریں تو اُس کے لئے حاصل کئے جانے والے قرضہ جات پر بنیادی رقم کے 27.2 فیصد سے لیکر 34.49فیصد سالانہ کے تناسب سے سود ادا کیا جائے گا۔
پانچویں حقیقت: جہاں کہیں سرکاری خریداری ہوتی ہے تو اس کے لئے عالمی اصول یہ ہے کہ اُسے خفیہ نہیں رکھا جاتا بلکہ مقابلے کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے جس میں خدمات فراہم کرنے والے ایک دوسرے سے کم قیمت پر ٹھیکہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو عالمی سطح پر مشتہر کیا جاتا ہے جو ایک معمول کی بات ہے۔ اس کے بعد ٹھیکہ اُس کمپنی کو دیا جاتا ہے جو قیمت میں نسبتاً کم اور جو قدرے نرم شرائط رکھتی ہو۔
چھٹی حقیقت: عالمی سطح پر مشتہر کرنے سے اداروں کے درمیان مقابلے کا ماحول پیدا ہوتا ہے جس سے کسی ترقیاتی منصوبے پر خرچ ہونے والی لاگت میں کمی آتی ہے اور اس سے حتمی طور پر ملک کا فائدہ ہوتا ہے۔
ساتویں حقیقت: سی پیک کے لئے منصوبے عالمی سطح پر ٹھیکوں کو مشتہر کئے بناء دیئے گئے۔
آٹھویں حقیقت: حکومت پاکستان سی پیک منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے والی چینی کمپنیوں کو ٹیکس میں رعائت اور دیگر مراعات دے رہی ہے لیکن اِس قسم کی رعائت اور مراعات اُن کی ہم عصر پاکستانی کمپنیوں کو نہیں دیئے جا رہے۔
نویں حقیقت: پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات (میڈ اِن پاکستان) کی مانگ تیزی سے کمی آ رہی ہے۔
دسویں حقیقت: پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کی ملک کی مجموعی برآمدات میں حصہ داری 52فیصد ہے اور اِس پیداواری شعبے سے ملک کا 40فیصد روزگار بھی وابستہ ہے۔
پاکستان ٹیکسٹائل سٹی کی کہانی: سال 2009ء میں حکومت پاکستان نے ’پورٹ قاسم (بندرگاہ)‘ پر ایک صنعتی علاقہ (زون) تخلیق کیا جس کا مقصد ٹیکسٹائل مصنوعات اور اِس صنعت سے وابستہ امور کو سہولیات دینا تھا۔ اِس منصوبے میں وفاقی حکومت کی حصہ داری 40فیصد تھی۔ سندھ حکومت کی 16فیصد‘ نیشنل بینک کی 8فیصد‘ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کی 4فیصد‘ سعودی پاک انشونس کمپنی‘ پاک قطر انویسٹمنٹ کمپنی‘ پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی میں سے ہر ایک کی 4فیصد اور پی آئی ڈی سی (PIDC) کی ایک فیصد شراکت داری رکھی گئی۔ چار اگست 2017ء کے روز پارلیمانی کمیٹی کو بتایا گیا کہ ’’حکومت پاکستان ’ٹیکسٹائل سٹی‘ کا مذکورہ منصوبہ ختم کر رہی ہے۔‘‘
زیانجنگ Xinjiang ٹیکسٹائل پارک کی کہانی: پاکستان کے سرحدی علاقے سے متصل چین کے صوبے ’زیانجنگ‘ میں چین حکومت نے ’ٹیکسٹائل پارک‘ کے نام سے ایک خصوصی صنعتی علاقہ قائم کیا۔ اِس پارک میں ایک کروڑ میٹر کاٹن سے کپڑا (کلاتھ) تیار کیا جاتا ہے جو نہ صرف چین میں ٹیکسٹائل کی صنعتی ترقی کا کلیدی منصوبہ ہے بلکہ اس سے چین کی برآمدات بڑھی ہیں اور مقامی افراد کو روزگار کے اضافی مواقع میسر آئیں ہیں۔ زیانجنگ ٹیکسٹائل پارک سے وابستہ کاشتکاروں وک حکومت نے 33 ارب ڈالر کی رعائت بھی دی جو اِس دس سالہ حکمت عملی کو کامیاب بنانے کی سوچ کا حصہ ہے تاکہ زیانجنگ ٹیکسٹائل پارک کو خطے کی سب سے بڑی ’ٹیکسٹائل ایکسپورٹنگ حب (مرکز)‘ بنایا جائے۔ اگر ہم چین میں ٹیکسٹائل کی صنعت کی سرپرستی کا موازنہ پاکستان سے کریں تو پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت قریب المرگ ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ’سی پیک‘ نہ تو مفید ہے اور نہ ہی نقصان دہ لیکن ہم اِس سے جو کچھ حاصل کرنا چاہیں وہ مقاصد پاکستان کے لئے مفید یا نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
ایک آخری سوال: کیا ’سی پیک‘ منصوبے پاکستان کے لئے مفید ہیں اور اِن سے ترقی کے امکانات پیدا ہوں گے؟
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
Fact 1: Pakistan’s decision-makers who approve and sign contracts under CPEC have little or no business interests in Pakistan. In other words, Pakistan’s decision-makers who approve and sign contracts under CPEC have most of their business interests outside of Pakistan.
ReplyDeleteFact 2: Chinese companies that are undertaking mega-projects in Pakistan maintain a heavy corporate presence in Pakistan. Plus, Chinese companies that are undertaking mega-projects in Pakistan bring in ship-loads of Chinese workers. Plus, Chinese companies that are undertaking mega-projects in Pakistan rarely form genuine partnerships with Pakistani companies. As a consequence, there is little or no transfer of skills. As a consequence, there is little or no transfer of technology.
Fact 3: Developmental loans play a vital role in the development of a country. Whether a ‘developmental loan’ is truly ‘developmental’ or not depends on two things: terms of the loan and the rate of interest. Fact 4: In Pakistan, the terms of Chinese loans and the real rate of interest being charged on them somehow continues to be a ‘state secret’ (the disclosed return on equity in case of coal-fired power plants is between 27.2 percent to 34.49 percent per annum).
Fact 5: International competitive bidding is “the most appropriate method of competitive bidding in public procurement. The process entails the procurement entity to internationally advertise their requirement of goods and services; in an internationally acceptable language. The contract is then awarded to the bidder with the best bids and contract terms.” Fact 6: International competitive bidding “promotes competition between suppliers, resulting in best ‘value for money’ for the purchaser.” Fact 7: Projects under CPEC are awarded without international competitive bidding.
Fact 8: The Government of Pakistan is providing tax breaks and other incentives to Chinese companies undertaking projects in CPEC – with no comparable tax breaks or incentives to Pakistani companies. Fact 9: The demand for ‘Made-in-Pakistan’ goods is going down like a pebble in a clear-water lake.
Fact 10: Pakistan’s textile sector has a 52 percent share in Pakistan’s total exports and employs 40 percent of the total manufacturing labour force.
ReplyDeletePakistan Textile City: In 2009, the Government of Pakistan established an industrial zone at Port Qasim specifically “dedicated to textile processing and related industry”. The federal government had a 40 percent share, Sindh government 16 percent, National Bank of Pakistan 8 percent, Export Processing Zone 4 percent, Saudi Pak Insurance Company, Pak Qatar Investment Company, Pak Kuwait Investment Company each 4 percent and PIDC 1 percent. On August 4, 2017, a parliamentary committee was told that the “government had decided to wind up the Pakistan Textile City”.
Xinjiang Textile Park: The Chinese government inaugurated the Xinjiang Textile Park in the neighbouring province of the China-Pakistan border. The Park now produces more than 10 million meters of cotton cloth and has close to a million spindles. The Chinese government doles out $33 billion in subsidies to cotton farmers of Xinjiang and under the 10-year Textile Development Plan the Xinjiang Textile Park will be the largest textile exporting hub in the region. Yes, Pakistan’s textile industry is scared to death. To be certain, CPEC is neither good nor bad; it is what we can extract out of it.
One last question: Are the CPEC projects really creating opportunities for Pakistanis?