Monday, October 9, 2017

Oct 2017: Remembering Prof Zia ul Qamar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
نایاب ہستیاں: پروفیسر سیّد ضیاء القمر
دانشور‘ مفکر‘ اَداکار‘ صداکار‘ شاعر (لفظ آشنا) اُور نہایت ہی نفیس شخصیت و طبیعت کے مالک ’پروفیسر سیّد ضیاء القمر‘ کی ذات کا سب سے مستند (اعلیٰ و بالا) حوالہ ایک ایسے معلم کا تھا جو کبھی بھی کلاس روم میں نصابی (درسی) کتب اور رٹے رٹائے (ازبر) اسباق کو اپنے تدریسی تجربے کی بنیاد پر بیان کرنے کی حد تک محدود نہیں پائے گئے بلکہ اُن کی کوشش رہتی کہ وہ ایک شفیق والد (سرپرست) کی طرح ’طالبِ علموں کی علمی و فکری تشنگی‘ دور کریں۔ حقیقت اور آج کی ضرورت بھی یہی ہے کہ ہمارے معلم دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ماہر ہونے کی بجائے اُس بنیادی کام کے بھی ماہر ہوں‘ جو اُن کی ذمہ داری (فرض) ہے۔ افسوس (المیہ ہے) کہ ہمیں اساتذہ سب کچھ دکھائی دیتے ہیں سوائے اِس بات کہ اُنہیں بطور استاد اپنی زندگی وقف کرنے کی فرصت نہیں رہی! 

پروفیسر سیّد ضیاء القمر‘ کا مقصد ’’تعلیم‘‘ رہتا‘ وہ بورڈ کے اِمتحانات میں کارکردگی (حافظے اور حاضر دماغی کی بنیاد پر کامیابی کے) قائل نہیں تھے بلکہ زندگی کے (عملی) امتحان کے لئے تیار کی ضرورت پر زور دیتے کہ تعلیم ہمارے ظاہر و باطن کو روشن کر دے۔ وہ دلچسپ پیرائے میں بوریت اور بوجھ محسوس ہونے والے نصابی اسباق کے درپردہ اسباق ذہن نشین کرواتے۔ وہ اپنی ذات میں ایک ایسی عمدہ مثال تھے‘ کہ جنہیں دیکھ کر طالب علموں میں یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ بھی اِسی قسم کے ’’آئیڈیل معلم‘‘ بنیں۔ 

ذاتی تجربہ ہے کہ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان (شعبۂ اُردو‘ گورنمنٹ کالج پشاور) اور پروفیسر سیّد ضیاء القمر (شعبۂ انگلش‘ ایڈورڈز کالج پشاور) میں یہی قدر مشترک پائی گئی کہ اِن دونوں مرحوم و مغفور معلم شخصیات نے اپنی تمام زندگی پڑھنے‘ پڑھانے اور اپنی ذات کو بطور عملی نمونہ (مثال) پیش کرنے کے لئے وقف کئے رکھی اور آج ہر طرف سے گواہی سنائی دے رہی ہے کہ وہ دنیاوی زندگی کامیابی و کامرانی سے بسر کرنے کے بعد پورے اطمینان و سکون سے رخصت ہوئے ہیں۔ 

ڈاکٹر ظہور احمد کی رحلت تین اپریل دوہزار گیارہ جبکہ پروفیسر سیّد ضیاء القمر کی روح ’قفس عنصری‘ سے پرواز کرنے کی تاریخ ’چوبیس اگست دوہزار سترہ‘ کی شب ہے جب وہ نارتھ ویسٹ (نجی) ہسپتال (حیات آباد پشاور) کے شعبۂ انتہائی نگہداشت میں زیرعلاج تھے اور قریب ایک سال تک سرطان (کینسر) کے مرض اور اس سے پیدا ہونے والی دیگر عارضوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔ اُنہیں اگلے روز (پچیس اگست) کو اضاخیل بالا (ضلع نوشہرہ) میں اُن کے آبائی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔ 

وہ ایک باہمت انسان تھے‘ جنہوں نے اگر زندگی میں کسی چیز سے ہار مانی بھی تو وہ اُن کی بیماری تھی‘ جو ایک وقت تک بے بس دکھائی دی اور بالآخر اُس وقت موقع پر کر حاوی ہو گئی جبکہ وہ بیہوشی کی حالت میں تھے۔ بطور طالب علم ڈاکٹر ظہور اور پروفیسر ضیاء القمر میں قدر مشترک یہ رہی کہ یہ دونوں ہی شخصیت و کردار سازی پر توجہ دیتے تھے۔ (اُستاد جی) ڈاکٹر ظہور اُردو کے معلم تھے اور اُن کی بول چال‘ رہن سہن اِسی مناسبت سے رکھ رکھاؤ کا مجموعہ دکھائی دیتا تھا جبکہ (سر) ضیاء القمر انگریزی زبان کے پروفیسر تھے اُور اُن کا لباس‘ بولنے کا انداز اور عمومی بات چیت سے لیکر چال تک سے انگریزی چھلکتی تھی‘ جسے وہ اپنے شاگردوں میں منتقل کرنے کی خداداد صلاحیتوں (قدرت) کے مالک تھے۔ 

بقول شیکسپیئر ۔۔۔ ’’اگرچہ ہر جاندار شے نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن کچھ ہستیاں ایسی (انمول) بھی ہوتی ہیں جن کے لئے موت ’ابدی حیات‘ کا آغاز (ضامن) ثابت ہوتی ہے۔‘‘ پروفیسر سیّد ضیاء القمر ہمیشہ زندہ رہیں گے‘ دعاؤں اور اُن جیسا بننے کی کوشش کرنے والوں طالب علموں کے قول و فعل میں۔‘ کالج کے پرنسپل Neyyer Firdaus سے درخواست ہے کہ وہ پروفیسر ضیاء القمر کی موجودگی کو دائم رکھنے کے لئے کالج میں اُن کا مجسمہ نصب کروائیں‘ جس پر جلی حروف میں اُن کا تعارف اور شیکسپیئر کے کھیل ’’ہیملٹ‘‘ کا یہ جملہ تحریر ہونا چاہئے کہ 
Thou know'st 'tis common; all that lives must die, Passing through nature to eternity.۔

سات اکتوبر (بروز ہفتہ) سہ پہر تین بجے سے شام سات بجے تک ’ایڈورڈز کالج‘ میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا‘ جس کے دعوت نامے پر تحریر ’تمہیدی جملے‘ نہایت ہی جامع اور دل کو چھو لینے والے تھے کہ ’’پروفیسر سیّد ضیاء القمر نے خیبرپختونخوا کے تعلیمی منظرنامے پر گہرے نقوش ثبت کئے ہیں۔ اُنہیں انگریزی (انگلش کے مضمون) پر غیرمعمولی عبور حاصل تھا اُور اُن کی دیگر مختلف شعبوں (ہم نصابی سرگرمیوں) میں مہارت کا نہ صرف تعلیم بلکہ فنون لطیفہ‘ علمی‘ ادبی‘ سماجی اُور سیاسی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔ اُن کا ’ایڈورڈز کالج‘ اور طالب علموں پر گہرا‘ اَثر رہا اُور آج بھی زائل نہیں ہوا۔ 

تعلیم کے علاؤہ دیگر بہت سے شعبوں میں اُن کی ’بے لوث خدمات‘ کا اعتراف کیا گیا ہے (جو بذات خود ایڈورڈز کالج کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں)۔‘‘ وہ ایک غیرمعمولی تقریب رہی جس میں گورنر خیبرپختونخوا‘ اقبال ظفر جھگڑا (اُولڈ ایڈورڈین) نے بھی اظہار خیال کیا۔ ’پروفیسر سیّد ضیاء القمر سے علم تحصیل کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اشکبار آنکھوں سے خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ’مال روڈ‘ کے کنارے ایڈورڈز کالج میں (حسب پروگرام) جمع ہوئی اور یقیناًکالج کے سبزہ زاروں اور راہداریوں سے گزرتے ہوئے سبھی کی آنکھیں اُس خراماں خراماں چلتی پھرتی ہنستی مسکراتی اور ہمیشہ خوشگوار موڈ میں تہینتی جملوں سے استقبال کرنے والی شخصیت کو ڈھونڈ رہی تھیں جو’ایڈورڈز کالج اور پشاور کے تعلیمی منظرنامے‘ کی ایک طویل عرصے تک شان اُور پہچان رہا۔ سوال اپنی جگہ ذہن میں گونجتا رہا کہ کیا اِس بات کو ’ایڈورڈز کالج‘ کے لئے اعزاز سمجھا جائے کہ جہاں خوش قسمت پروفیسر سیّد ضیاء القمر کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اطلاق کا موقع ملا یا سال 1900ء میں قائم ہونے والے ایڈورڈز کالج (پشاور کے قدیم ترین ادارے) کے لئے یہ بات اِعزاز رہی کہ ’پروفیسر ضیاء القمر‘ جیسے معلم اِس ادارے سے وابستہ رہے ہیں؟ 

ایڈورڈز کالج کا تعارف (اُور مشن) لاطینی جملے ’’ad majorem Dei gloriam‘‘ میں پنہاں ہے‘ جس کا مطلب ’’for the greater glory‘‘ ہے اور یقیناًچالیس برس تک ’پروفیسر سیّد ضیاء القمر (مرحوم ومغفور)‘ نے ’ایڈورڈز کالج‘ کے اِس مقصد (مشن) کی بھرپور تکمیل کی۔ کسی طالب علم کی کامیابی کی کسوٹی امتحان ہوتا ہے لیکن کسی معلم کی کامیابی کا معیار یہ ہوتا ہے کہ اُس کے لگائے ہوئے شجر کتنے ثمربار ثابت ہوئے۔ جب ہم ’ایڈورڈینز‘ کو دیکھتے ہیں تو اِن کی اکثریت آج مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لئے ’’باعث صد افتخار (greater glory)‘‘ ہیں۔ 

خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینیت را۔

۔۔۔ایبٹ آباد: 8 اکتوبر 2017ء ۔۔۔

No comments:

Post a Comment