Sunday, October 15, 2017

TRANSLATION: Economic security by Dr Farrukh Saleem

Economic security
اقتصادی تحفظ!
پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق امور زیربحث لاتے ہوئے جس ایک پہلو کو سب سے زیادہ نظرانداز کیا جاتا ہے وہ ملک کی ’’اقتصادی صورتحال اور اِس کے تحفظ (economic security)‘‘ کو یقینی بنانے سے متعلق غوروخوض ہے۔ عرصہ دراز سے ہم پاکستان کے دفاع کو اِس کی عسکری طاقت اور فوجی کوششوں سے جوڑتے ہیں اور عرصہ دراز ہی سے قومی سلامتی کے بارے میں یک پہلو غور ہی کیا جاتا رہا ہے اور پھر قومی سلامتی کو ایک ہی ادارے کی ذمہ داری قرار دے دی جاتی ہے۔ درپیش چیلنجز متقاضی ہیں کہ ہم اپنے اِس مؤقف سے رجوع کر لیں۔

قریب گیارہ برس قبل امریکہ کا آرمی لاء کالج‘ کینیڈا کی لینڈ فورسیز ڈاکٹرائن اور ٹریننگ سسٹم (عسکری تربیتی اداروں) نے کینیڈا کے ایک اعلیٰ تحقیقیسرکاری ادارے ’’کوئنز کالج‘‘ کے اشتراک سے دانشوروں پر مشتمل ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس سے حاصل نتیجۂ خیال یہ تھا کہ ’’دنیا میں جنگ کرنے کے طریقے بدل چکے ہیں۔ اب کسی ملک کی ایک فوج دوسرے ملک پر حملہ آور نہیں ہوتی بلکہ کئی ایسے محاذوں پر حملے کئے جاتے ہیں جس سے وہ ملک داخلی طور پر کمزور ہو جائے اور اُسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکے۔‘‘ یہ تصور کہ اپنی جگہ اہم پایا گیا کہ ارتقاء پذیر دنیا کو درپیش اِن پیچیدہ چینلجز آج کی دنیا کی تلخ حقیقت لیکن اِس حقیقت سے نمٹنے کی حکمت عملی یکساں وضع کرنا یکساں ضروری ہے اور جب تک ہم کسی مصیبت کی موجودگی اور نزول کا احساس ہی نہیں کریں گے تو اس کے نمٹنے کے لئے ہماری کوششیں بھی مربوط و کافی نہیں ہوں گی۔

پاکستان کے تناظر میں بات کی جائے تو ہماری عسکری قوت اور ہماری اقتصادیات آپس میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال تو خراب رہے لیکن اُس کا دفاع وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط و توانا ہوتا چلا جائے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی اِقتصادی صورتحال فی الوقت جس قدر خطرات سے دوچار ہے‘ اس سے زیادہ کبھی بھی دگرگوں نہیں رہی! پاکستان کو چار قسم کے خطرات درپیش ہیں۔ پہلا: پاکستان کا تجارتی خسارہ (درآمدات و برآمدات میں عدم توازن) ’32.6 ارب ڈالر‘ جیسی بلند شرح کو عبور کر چکا ہے۔ دوسرا: پاکستان کا بجٹ 2 کھرب روپے ہے۔ تیسرا: پاکستان کے ذمے واجب الادأ قرضہ ’600 ارب روپے‘ کو چھو رہا ہے اور چوتھا: پاکستان ’25کھرب روپے‘ مالیت جیسے خطیر (بڑے) قرضوں میں جھکڑا ہوا ہے۔

بھارت کے جواہر لعل یونیورسٹی کا ذیلی شعبہ ’سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز‘ کی جانب سے بعدازتحقیق تجویز کیا گیا ہے کہ ’’یہ بات بھارت کے مفاد میں ہے کہ وہ پاکستان کے اقتصادی طور پر عدم استحکام کا شکار ہونے کو یقینی بنائے۔‘‘ اِسی طرح نئی دہلی کے ’انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفینس سٹڈیز‘ نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے اِس کا پانی روکنے جیسی جارحیت کے علاؤہ ایسے حالات پیدا کرنے کی تجویز دی تھی کہ جن سے غربت میں اضافہ ہو‘ سماجی طور پر ملک میں بے چینی پھیلے‘ ماحولیاتی مسائل پیدا ہوں‘ سیاسی قیادت غیرفعال لوگوں پر مشتمل ہو‘ سیاسی ادارے کمزور ہوں اور سرکاری ادارہ جاتی کارکردگی اِس حد تک خراب ہو کہ پاکستان ایک ناکام ریاست قرار پائے۔‘‘ 

تصور کیجئے کہ پاکستان دنیا میں مٹر (سبزی) کی پیداوار کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ روئی (کاٹن) کی پیداوار رکھنے والا چوتھا بڑا ملک بھی پاکستان ہی ہے۔ گنے اور آڑو کی پیداوار کے لحاظ سے بھی چوتھے نمبر پر ہے جبکہ دودھ اور پیاز (سبزی) کی پیداوار کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے۔ کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا‘ چاول کی پیداوار کے لحاظ سے 8واں‘ گندم کی پیداوار کے لحاظ سے 9واں اور مالٹے (پھل) کی پیداوار کے لحاظ سے 10واں بڑا ملک ہے۔

دنیا میں کسی ملک کی آبادی اور اُس کی پیداواری صلاحیت کو جاننے کا ایک معیار (کسوٹی) وسطی عمر (Median age) دریافت کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کی اُوسط ’وسط عمری‘ 21.2 سال ہے جبکہ عالمی معیار کے مطابق موناکو (Monaco) کی اوسط ’وسط عمری 48.9 سال‘ اور یوگینڈا (Uganda) کی 15 برس ہے۔ اِس لحاظ سے عالمی کسوٹی پر پاکستان دنیا کا ایسا منفرد ملک ہے جس کی آبادی اکثریت کام کاج کرنے والی افرادی قوت (ہیومن ریسورس) پر مبنی ہے اور یہ ریاست پر بوجھ نہیں ہوسکتے۔ 

سال 2017ء سے 2040ء کے درمیان پاکستان میں کام کاج کرنے والوں کی تعداد بڑھنے کی توقع ہے۔ عالمی ادارہ ’ووڈ ڈرو ویلسن انٹرنیشنل سنٹر فار سکالرز (Woodrow Wilson International Center for Scholars) کا کہنا ہے کہ آئندہ چند دہائیوں تک پاکستان کی اکثر نوجوانوں پر مشتمل آبادی کا تناسب جاری رہے گا۔ سال 2020ء میں پندرہ سے چوبیس برس عمر کی آبادی کا تناسب بیس برس تک بڑھ جائے گا اور سال 2030ء تک پاکستان کی چوبیس سال سے کم عمر کی آبادی اکثریت میں ہوگی جبکہ 2050 میں اوسط عمر 33 سال تک پہنچ جائے گی۔

پاکستان کو جن اقتصادی مسائل (امراض) کا سامنا ہے اُن کا علاج ممکن ہے۔ بجٹ خسارے پر بھی قابو پانا ممکن ہے۔ گردشی قرضہ جات بھی قابل علاج ہیں لیکن کیا کوئی علاج کا خواہشمند بھی ہے؟ پاکستان کو ایسے اقدامات لینے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے اقتصادی حالات کی اصلاح ممکن ہو اور اِن حالات کی بہتری کے لئے برآمدات‘ درآمدات‘ پاکستانی روپے کی عالمی قدر کے مطابق تعین اور قرضوں کی واپسی کرنے کے لئے اصلاحات پر غور ہونا چاہئے لیکن کیا اصلاحات لانے کے لئے سنجیدگی سے غوروخوض کیا جا رہا ہے؟ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

2 comments:

  1. Pakistan’s economic security is by far the most neglected element of our national security. For way too long, we remained focus on Pakistan’s military security. For way too long, we remained focus on Pakistan’s nuclear security. For us, national security has been all about military security. For us, national security has long been uni-dimensional. For us, national security has long been uni-organisational.

    Some eleven years ago, the US Army War College, the Canadian Land Forces Doctrine and Training System along with Queen’s University, Canada’s premier public research university, co-sponsored an academic conference. The conference concluded that: “War has changed. New organising principles require a new paradigm that facilitates change from a singular military approach to a multidimensional, multi-organizational... approach to deal more effectively with the contemporary global security reality.” Furthermore, “Time-honoured concepts of national security and the classical military means to attain it, while still necessary, are no longer sufficient.”

    Yes, Pakistan’s economy and Pakistan’s national security are – as a matter of fact – deeply, deeply interlinked. To be certain, Pakistan’s economy is vulnerable like never before. The four major threats are: external account (the trade deficit is at a historical high of $32.6 billion); fiscal deficit (the budgetary deficit is approaching a colossal Rs2 trillion); circular debt approaching Rs600 billion and an unsustainable debt of Rs25 trillion.

    John Perkins in ‘Confessions of an Economic Hit Man’ wrote, “We (economic hitmen) work very much like some of the hitmen for the mafia-because like them, we are looking for a favour, except we do it on a large level with governments and countries”.

    The School of International Studies at Jawaharlal Nehru University has made the following prescription: “On the strategic side, it is in India’s interests to ensure economic instability in Pakistan”. The New Delhi-based Institute of Defense Studies and Analysis has opined, Pakistan’s “water problems, when combined with poverty, social tension, environmental degradation, ineffectual leadership, and weak political institutions; contribute to growing disruptions that can result in state failure”. Now consider this: Pakistan is the 2nd largest pea producer in the world; 4th largest cotton producer; 4th largest sugarcane producer; 4th largest peach producer; 5th largest milk producer; 5th largest onion producer; 6th largest date producer; 8th largest rice producer; 9th largest wheat producer and 10th largest orange producer.

    Now consider this: Pakistan’s median age of 21.2 years – with a global range of 48.9 for Monaco and 15 for Uganda – makes Pakistan one of the youngest countries in the world. Between 2017 and 2040, Pakistan’s working age population is expected to expand rapidly. Yes, “Empirical evidence suggests that a large part of East Asia’s spectacular economic growth derives from demographic transition, ie from working age population bulge…”

    ReplyDelete
  2. Here’s what the Woodrow Wilson International Center for Scholars stated: “Pakistan’s population promises to remain youthful over the next few decades. In the 2020s, the 15-24 age bracket is expected to swell by 20 percent. Pakistan’s under-24 population will still be in the majority come 2030. And as late as 2050, the median age is expected to be only 33.” Europe’s demographic transition opened up the demographic window that remained open for some five decades. The Chinese window opened up in 1990 and is expected to remain open till 2015

    Pakistan’s deteriorating external account has a cure. Pakistan’s budgetary deficit has a cure. Pakistan’s circular debt has a cure. Pakistan’s burgeoning debt has a cure. Is anyone seriously looking for a cure? Pakistan needs to take corrective measures on four counts: exports, imports, the international value of the rupee and debt servicing. Is anyone seriously looking to undertake corrective measure?

    ReplyDelete