Sunday, October 15, 2017

Oct 2017: Chitral can turn into the hub of agriculture production

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
گل و گلزار: خیبرپختونخوا
پاک سرزمین میں قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کا مشاہدہ ’خیبرپختونخوا‘ کے بالائی علاقوں میں قریب سے کیا جا سکتا ہے جہاں ایک سے بڑھ کر ایک زرخیز اُور شاداب وادیاں صوبائی حکومت کی خاطرخواہ توجہ سے محروم ہیں۔ ضلع چترال کی وادی ’کریم آباد‘ کا گاؤں ’درونیل‘ بھی ایسی ہی ایک جنت نظیر وادی کا حصہ ہے‘ جہاں کی مٹی آب و ہوا (موسمی درجۂ حرارت) ٹماٹر‘ مٹر اور آلو جیسی (منافع بخش) سبزی کی کاشت کے لئے موزوں ہیں۔ تحریک انصاف ضلع چترال کے (سابق) جنرل (اکتالیس سالہ) ’’اسرارالدین صبور‘‘ نے سال 2005ء میں مقامی کاشتکاروں کو ’اپنی مدد آپ‘ کے تحت منظم کیا اور مٹر‘ ٹماٹر اور آلو (سبزی) کی بڑے (کمرشل) پیمانے پر کاشتکاری کی۔ انہوں نے کاشتکاروں کو منڈی تک رسائی اور زیادہ منافع کے لئے براہ راست منڈیوں میں سبزی کی فروخت سے بھی روشناس کرایا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ دو ایکڑ زیرکاشت رقبہ بڑھ کر پچاس ایکڑ تک جا پہنچا۔ اسرار الدین صبور کہتے ہیں کہ اگر ’کریم آباد وادی‘ میں پائپوں کے ذریعے آبپاشی کا بندوبست کر دیا جائے تو 300 ایکڑ سے زائد رقبہ زیرکاشت لایا جا سکتا ہے اور ماہ اگست سے دسمبر (برفباری) تک اِس وادی سے پورے ملک کو ٹماٹر کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ سردست علاقے میں ’9 کلومیٹر‘ کا واٹر چینل موجود ہے لیکن اگر پائپ بچھا کر باقی ماندہ ستر فیصد علاقے کو بھی زیرکاشت بنا دیا جائے تو اِس سے غذائی خودکفالت کا ایک اہم ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔ درحقیقت چترال کے مذکورہ گاؤں ’’درونیل (کریم آباد)‘‘ اور اِس سے ملحقہ دیگر دیہی علاقوں کی پسماندگی اور غربت دور کرنے کے لئے زراعت سے زیادہ کوئی دوسرا ’پائیدار ذریعہ (وسیلہ)‘ نہیں ہوسکتا۔ صوبائی حکومت ضلع چترال کو ’دو اضلاع‘ میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اِس کے ساتھ ہی اگر ’جیپ ایبل خطرناک راستوں‘ کو محفوظ سڑکوں سے تبدیل کرنے کے عمل کا بھی آغاز کیا جائے تو اِس سے زرعی و سماجی انقلاب کا عمل تیزرفتار ہو جائے گا۔

درونیل اور ملحقہ دیہات میں ماہ جولائی سے اگست تک مٹر کی کاشت ہوتی ہے جبکہ بیس اگست سے دسمبر (برفباری تک) یہاں سے ٹماٹر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس علاقے کا مرکزی چترال سے فاصلہ قریب تیس کلومیٹر جبکہ گاؤں کی کل لمبائی ’پنتالیس کلومیٹر‘ ہے‘ جس تک رسائی کا بیس کلومیٹر خستہ حال حصہ موجود اور باقی مٹی‘ بجری اور ریت پر مشتمل غیرہموار پہاڑی راستے ہیں۔ پختہ سڑک ’فارم ٹو مارکیٹ‘ روڈ ثابت ہو سکتی ہے۔ صوبائی حکومت کے تجاہل عارفانہ کی مثال وہ سانحہ بھی رہا جب اِس وادی میں تودہ کی زد میں سکول کے پانچ بچے آئے۔ ایک ماہ تک پانچ سو مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت تودے سے بچوں کی لاشیں نکالیں لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے بھاری مشینری اِس علاقے میں نہ پہنچ سکی کیونکہ سڑک موجود نہیں تھی۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات (لوکل باڈی الیکشنز) میں چترال سے ضلعی‘ تحصیل اور ویلیج کونسلوں کی نشستوں پر ’تحریک انصاف‘ کے نامزد اُمیدواروں نے اکثریت سے کامیابی حاصل لیکن تین سال سے تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے ’ضلع چترال‘ میں تحریک انصاف کو سیاسی طور پر نقصان پہنچ رہا ہے۔ مرکزی اور صوبائی قیادت کو چترال میں تحریک انصاف کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ چترال کے مسائل اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں مایوسی پائی جاتی ہے‘ جن کی انقلاب‘ جنون اور تبدیلی سے وابستہ توقعات‘ اُمیدیں اور کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔

ضلع چترال میں جنگلات اور سیاحت کے علاؤہ ’زرعی ترقی‘ کے لاتعداد امکانات موجود ہیں۔ سبزی اور پھلوں کی مصنوعات تیار کرکے برآمد کی جاسکتی ہیں جو مقامی افراد کے لئے روزگار اور متعلقہ شعبوں میں تعلیم کے مواقع روشناس کرائے گا۔ چترال نظرانداز کیوں؟ اِس بنیادی و سادہ سوال کا جواب جاننے کے لئے باوجود کوشش بھی وزیر زراعت اکرام اللہ خان گنڈا پور سے رابطہ نہ ہو سکا اور نہ ہی خیبرپختونخوا کے ’بیورو آف ایگرکلچر انفارمیشن‘ کا کوئی ذمہ دار حکومتی ترجیحات کے بارے میں بات کرنا پسند کرتا ہے۔ ’خوش گوار احساس‘ صرف اِس حد تک ہی محدود ہے کہ ’’(ضلع) چترال خیبرپختونخوا کا حصہ ہے‘‘ لیکن چترال کے وسائل اور وہاں زندگی بسر کرنے والوں کی مشکلات بھری زندگی پر نظر کریں تو ایک سے بڑھ کر ایک محرومی ’مستقل ڈیرے‘ ڈالے دکھائی دیتی ہے۔ چترال میں زراعت سے متعلق صوبائی حکومت کے ایک زیادہ دفاتر موجود (فعال) ہیں جن میں ’’واٹر منیجمنٹ‘‘ اور ’’سایل کنزوریشن‘‘ کا بنیادی کام ہی یہ ہے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر آبپاشی کے منصوبے تخلیق کرے یا مقامی ضروریات کے مطابق اُن کی تعمیروترقی اور توسیع جیسی خدمات سرانجام دے۔

زراعت کی ترقی کے علاؤہ حکومتی اداروں کی نظر اِس بات پر بھی ہونی چاہئے کہ غذائی قلت کے ماحول میں دستیاب وسائل سے بہترین استفادہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ باعث تعجب ہے کہ چارسدہ سے تعلق رکھنے والے خیبرپختونخوا کے سب سے زیادہ فعال‘ مستعد اور صداقت و امانت کے لحاظ سے ہم عصروں میں نسبتاً اچھی ساکھ رکھنے والا سیکرٹری زراعت ’محمد اسرار‘ جیسی نایاب نعمت کے ہوتے ہوئے بھی خاطرخواہ ثمرات ظاہر نہیں ہو رہے۔ سیکرٹری زراعت اِن دنوں محکمانہ ترقی کے لئے تربیتی کورس میں شریک ہیں لیکن وہ اِس کے باوجود باقاعدگی سے شام گئے تک ضروری اور معمول کے دفتری اَمور نمٹاتے ہیں۔ شاید ہی خیبرپختونخوا کے کسی دوسرے محکمے کا سیکرٹری اس قدر عملاً ’فرض شناس (ڈیوٹی فل اینڈ بیوٹی فل)‘ ہو یا ماضی میں کبھی پایا گیا ہو۔ زراعت کی توسیع و ترقی کے لئے متعلقہ صوبائی محکمے سمیت کسی بھی فیصلہ ساز بشمول وزیراعلیٰ سے توقعات وابستہ کرنا عبث ہیں‘ اگر کوئی مرکز نگاہ (اُمید کی کرن) ہے تو وہ سیکرٹری اسرار ہی ہیں جو اپنی تعلیم (ایم ایس سی‘ ایگری کلچر)‘ تجربے اور لگن سے خیبرپختونخوا کو ’’گل و گلزار‘‘ بنا سکتے ہیں۔ خوش لباس و گفتار‘ اِسرار نہایت ہی ’پُراَسرار‘ بھی ہیں کہ انہیں سیکشن آفیسر سے ایڈیشنل سیکرٹری اور آج کل سیکرٹری جیسے انتظامی عہدوں پر فائز ہونے (ترقی کے مواقع) ایک ترتیب و تواتر سے ملتے رہے ہیں‘ اُن جیسے بہت کم ایسے خوش نصیب ہوں گے۔ اِلتجا کے ساتھ یقین ہے کہ وہ اپنے تجربہ (مہارت) کا بہترین استعمال کرتے ہوئے ’چترال‘ کی وادیوں میں سبزی‘ پھل اور کوہاٹ سے ڈیرہ اسماعیل خان تک ’تیل دار فصلوں بشمول ’زیتون‘ کی کاشتکاری (زرعی ترقی) کے لئے اپنی توجہات اور جملہ وسائل مختص کریں گے۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-10-15
http://epaper.dailyaaj.com.pk/epaper/pages/1507997192_201710147211.gif

No comments:

Post a Comment