ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِشارے کنایئے!
''ورلڈ بینک'' کی ’’ساؤتھ ایشیاء اِکنامک فوکس 2017ء‘‘ رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ ۔۔۔ ’’پاکستان کو اپنی اقتصادیات بہتر بنانے کے لئے ’فوری توجہ‘ دینا ہوگی۔‘‘ کسی ملک کے داخلی معاملے میں مداخلت نہ کرتے ہوئے بھی مداخلت کرنے اور بیانیئے کا یہ ایک محتاط اظہار تھا۔
حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کو ’دس ارب ڈالر‘ کے تجارتی (درآمدی و برآمدی عدم توازن پر مبنی) خسارے کا سامنا ہے۔ ملک پر قرضہ جات مجموعی خام قومی آمدنی (جی ڈی پی) کے 68فیصد تک جا پہنچی ہے مطلب یہ ہے کہ پاکستان اپنی ہر ایک سو روپے مالیت کی پیداوار کا 68فیصد قرضوں میں ادائیگی کر رہا ہے۔ اسی طرح وصول ہونے والے ٹیکسوں سے آمدنی کا 33 فیصد سے زیادہ حصہ بھی قرض کی اقساط یا سود میں ادا ہو رہا ہے جبکہ مزید قرض لینے کی بھی ضرورت بیان کی جا رہی ہے تو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگانا قطعی دشوار نہیں۔ ایک طرف یہ منظرنامہ ہے کہ ملک کی کل پیداوار اور ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ مالی ذمہ داریاں ادا کرنے پر خرچ ہو رہی ہیں اور تعمیروترقی کے جاری و نئے منصوبوں کے لئے خاطرخواہ وسائل موجود نہیں بلکہ شاہانہ طرز حکمرانی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے لئے بھی قرض لینا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی وفاقی حکومت ہے جس کی ساٹھ رکنی وفاقی کابینہ صرف اور صرف اپنے قائد ’نوازشریف اور اُن کے اہل خاندان کو احتساب سے بچانے کا ہدف (مشن) رکھتی ہے۔
وفاقی وزیرخزانہ اپنے عہدے اور سرکاری وسائل کا استعمال کرتے ہوئے کس طرح ’احتساب مقدمات‘ پر کس طرح اثرانداز نہیں ہوسکتے؟ اگر جمہوریت یہ ہے کہ ملک میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں ہوں اور اُن میں حزب اختلاف کا وجود بھی ضروری ہو تو حالت یہ ہے کہ سوائے ایک سیاسی جماعت (نوازلیگ) کے علاؤہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں مطالبہ پیش کر چکی ہیں کہ ’’وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈارکو مستعفی ہو جانا چاہئے۔‘‘ تو پھر کیوں اِس اجتماعی سیاسی مطالبے کو جمہوری نہیں سمجھا جا رہا؟ نواز لیگ اِس مطالبے کو بھی رد کر رہی ہے کہ ۔۔۔ ’’وزیراعظم کو ملک کی اِقتصادی صورتحال پر قوم سے خطاب کرنا چاہئے۔‘‘ (چلو پھر رو ہی لیتے ہیں کیونکہ) اگر وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ اُن کی کابینہ کے سب سے بہترین وزیر اسحاق ڈار ہیں تو کیا ہم ملک کے تمام چیمبرز آف کامرسیز (ایوان ہائے صنعت و تجارت) کی جانب سے آنے والے اِس مشترکہ مطالبے (دانش) کو بھی رد کردیں جو ملک کی اقتصادی صورتحال کو کم ترین سطح (dead-low) قرار دے رہے ہیں۔
حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں‘ ایوان ہائے صنعت و تجارت سے وابستہ تجربہ کاروں‘ ذرائع ابلاغ کے ذریعے تجزیہ کاروں کی اکثریت اور حتی کہ پاک فوج جیسے محتاط ردعمل کا مظاہرہ کرنے والے اہم قومی ادارے کی جانب سے بھی یہ بات ’علی الاعلان‘ کہی جا چکی ہے کہ اگر پاکستان کی اقتصادی حالت بُری نہیں تو یہ زیادہ اچھی (مثالی) بھی نہیں! تو اِن اِشارے کنائیوں کا مطلب (مقصد) کیا ہے؟ الفاظ کی صداقت و گہرائی پر غور کریں کہ ’’فی الوقت پاکستان کی جمہوریت پر منڈلانے والے بنیادی خطرے میں جمہوری اقدار پر عمل درآمد نہ کرنے سے زیادہ بڑا کوئی دوسرا خطرہ نہیں!‘‘
وفاقی حکومت کا یہ دعویٰ اپنی جگہ بالکل درست تو ہے کہ اِن کی وجہ سے ٹیکسوں (محصولات) سے حاصل ہونے وآلی آمدنی گذشتہ چار برس میں بڑھی ہے لیکن یہ صرف آمدنی ہی بڑھی ہے ٹیکس اَدا کرنے والوں کی تعداد میں خاطرخواہ اِضافہ نہیں ہوا۔ درحقیقت آمدنی پر ٹیکس وصولی کے لئے وفاقی اِدارے نے جس اَنداز میں ’’اِختیارات‘‘ کے ’’وحشیانہ‘‘ استعمال پر مبنی حکمت عملی سے کام لیا۔ اُس کے باعث سرمایہ دار اِس بات کو زیادہ باعزت سمجھنے لگے ہیں کہ وہ یا تو اپنا سرمایہ پراپرٹی‘ کرنسی یا قیمتی دھاتوں کی صورت محفوظ رکھیں یا پھر بیرون ملک سرمایہ کاری کر لیں کیونکہ لاتعداد امکانات محفوظ اور منافع بخش ہیں۔
حالیہ چند ہفتوں میں حسب آمدنی ٹیکس اَدا نہ کرنے کی پاداش میں اِداروں کے بینک اکاونٹس منجمند کرنے سے خوف و ہراس پھیلا جبکہ زبردستی ایڈوانس (پیشگی) ٹیکس وصولی اور ٹیکس ادائیگیوں کی مد میں رقومات روکنے سے کیا حاصل ہوا؟ پہلے ہی سے ٹیکس اَدا کرنے والوں پر بوجھ بڑھانا بھی موجودہ وفاقی حکومت ہی کا ’کارنامہ‘ ہے جبکہ وہ تمام بااثر طبقات جن کی ایک نمائندہ تعداد قانون ساز ایوانوں کا حصہ بھی ہے جو حسب آمدنی ٹیکس ادا نہیں کر رہے لیکن محفوظ ہیں۔ تصور کیجئے کہ پاکستان میں بجلی کے یوٹیلٹی بلز میں ’’اُوور بلنگ‘‘ جرم نہیں لیکن بجلی کی چوری ’’جرم‘‘ تصور کی جاتی ہے۔
قوانین اور قواعد آپس میں ایک دوسرے سے اُلجھے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح ٹیکس کے قوانین پہلے ہی سے ٹیکس اَدا کرنے والوں کے لئے زیادہ سخت گیر کر دیئے گئے ہیں۔ غیرحقیقی ٹیکس اہداف مقرر کرنے اور وصولیاں عملاً ممکن بنانے کے لئے ’ایف بی آر‘ کو ’بہ اَمر مجبوری‘ زیادہ اختیارات دینے پڑ گئے ہیں اور اِس پورے ماحول میں ٹیکس اَدا کرنے والوں کی تعداد ایک حد پر آ کر رک گئی ہے! بنیادی سوال‘ جس کی نشاندہی ’پاک فوج‘ کی جانب سے بھی کی گئی ہے کہ ۔۔۔ ’’کیا معیشت اور قومی سلامتی کا آپس میں تعلق ہے؟‘‘
قوانین اور قواعد آپس میں ایک دوسرے سے اُلجھے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح ٹیکس کے قوانین پہلے ہی سے ٹیکس اَدا کرنے والوں کے لئے زیادہ سخت گیر کر دیئے گئے ہیں۔ غیرحقیقی ٹیکس اہداف مقرر کرنے اور وصولیاں عملاً ممکن بنانے کے لئے ’ایف بی آر‘ کو ’بہ اَمر مجبوری‘ زیادہ اختیارات دینے پڑ گئے ہیں اور اِس پورے ماحول میں ٹیکس اَدا کرنے والوں کی تعداد ایک حد پر آ کر رک گئی ہے! بنیادی سوال‘ جس کی نشاندہی ’پاک فوج‘ کی جانب سے بھی کی گئی ہے کہ ۔۔۔ ’’کیا معیشت اور قومی سلامتی کا آپس میں تعلق ہے؟‘‘
اکیسویں صدی کی (فورتھ جنریشن) جنگ یہ ہے کہ ۔۔۔ ’’کسی ملک کو اقتصادی طور پر کمزور و ناتواں کر دیا جائے!‘‘ پاکستان کو درپیش بہت بڑا خسارہ تجارت اور بہت ہی بڑا خسارہ بجٹ میں درپیش ہے۔ اسحاق ڈار نے پاکستان کی بیماری کے لئے جو کچھ بھی تجویز کیا وہ سبھی نسخے (علاج) غلط ثابت ہوئے ہیں۔ شرح نمو چار فیصد کے لگ بھگ کو آٹھ سے دس فیصد کرنا ہے لیکن کیسے؟ اکنامی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے ساتھ پاکستان کو ’’ورکشاپ آف دی ورلڈ‘‘ بننے کی صلاحیت کا احساس کرنا ہے لیکن کیسے؟ پیداوار کا معیار اور مقدار بڑھانی ہے مگر کیسے؟ زراعت پر توجہ دینا ہے تاکہ ’کم پانی اُور کم رقبے‘ کے استعمال فی ایکڑ پیداوار بڑھ جائے مگر کیسے؟ زراعت سے ہم جو کچھ بھی کما رہے ہیں وہ ٹیکسوں اور پیداوار کی صورت اندرون ملک ضروریات کے لئے بھی کافی نہیں تو غذائی خودکفالت کیسے حاصل ہوگی؟ کاشتکاروں کی سرپرستی (سپورٹ سسٹم) کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس ہو رہی ہے تو یہ بندوبست کس نے کرنا ہے؟ زراعت کی ترقی کے اِدارے‘ کارکردگی سے خالی ہیں تو کیوں!؟
پاکستان کو اپنے اردگرد کی دنیا میں آنکھیں کھول کر دیکھنا ہوگا۔ ہر طرف اندھیرا نہیں بلکہ ہماری آنکھیں بند ہیں اور نئی منڈیاں تلاش کرنا ہوں گی جیسا کہ ہمسایہ عوامی جمہوریہ چین کی منڈی جو‘ ہر سال ’’اٹھارہ کھرب ڈالر‘‘ کی درآمدات کرتی ہے اور چین قریب ’’پچاس ارب ڈالر‘‘ کا گوشت آسٹریلیا سے درآمد کر رہا ہے تو کیا صرف یہی ضرورت پاکستان پوری نہیں کر سکتا اور چین کی نظر سے پاکستان کو دیکھنے کی طرح پاکستان کی نظر سے چین کو بطور ’’ایک منڈی‘‘ نہیں دیکھا جا سکتا؟
No comments:
Post a Comment