ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
فیلڈ ہاکی زوال: اَلمیہ یہ ہے ۔۔۔!
پندرہ اکتوبر: ایشیاء کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں ’’ٹائٹل فیورٹ‘‘ بھارت نے پاکستان کو ایک کے مقابلے تین گولز سے شکست دے کر ’’گروپ اے‘‘ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ میچ کے تیسرے کوارٹر میں جب پاکستانی کھلاڑی ’’رضوان سینئر‘‘ اور ’’ابو محمود‘‘ کو اندھا دھند کھیلنے پر ’’پیلا کارڈ‘‘ دکھا کر میدان سے باہر بھیجا گیا اور قومی ٹیم کچھ وقت کے لئے 9 کھلاڑیوں سے کھیلنے پر مجبور ہوئی تو بھارت کی ٹیم نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور تیسرے کوارٹر کے اختتام سے قبل کھلاڑی ’’ہرمن پریت سنگھ‘‘ نے یکے بعد دیگرے ’’دو گول‘‘ کر کے فیصلہ کن برتری دلا کر پاکستان کی میچ میں واپسی کی تمام تر اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ بہرحال پاکستان بھارت کی برتری کم کرسکتا تھا لیکن ’پینالٹی کارنر‘ ضائع کیا گیا اور کھلاڑیوں کی ’باڈی لینگویج‘ سے بھی صاف ظاہر تھا کہ وہ کھیل کے جوہر دکھانے سے زیادہ اپنی اُس کارکردگی کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش میں ہیں‘ جو اِس اہم ٹورنامنٹ میں عملی شرکت کی تیاری و تربیت بشمول جسمانی فٹنس نہ ہونے کا ثبوت بھی تھی! خوش قسمت سے پاکستان کی ’’گرین شرٹس‘‘ نے بھارت کے ہاتھوں شکست کے باوجود بھی ’’بہتر گول اوسط‘‘ کے باعث ’’سپر فور راؤنڈ‘‘ میں جگہ بنالی لیکن کھیل کا جو معیار بھارت کے خلاف پیش کیا گیا وہ کسی بھی صورت اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ’’پاکستان کے قومی کھیل ’ہاکی‘ کے زوال پذیر ہونے کے منجملہ اسباب کیا ہیں؟‘‘
بنیادی بات یہ ہے کہ آج کی دنیا میں ’کھیل صرف کھیل نہیں رہے بلکہ ایک سائنس اور رہن سہن کا طریقہ بن چکے ہیں‘ جنہیں زیادہ سنجیدگی سے لئے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔‘ اِس حوالے سے متعلقہ شعبے کے ایک ماہر سے بات چیت کی۔ عالمی سطح پر ہاکی کے کھیل کے قواعد و ضوابط‘ مقابلے اور ریکارڈ رکھنے والی تنظیم ’’فیڈریشن انٹرنیشنل ڈی ہاکی (ایف آئی ایچ) کے ایمپائر ’’محمد صدیق شاہ بخاری‘‘ زندگی کی 65 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ 1980ء میں آپ انٹرنیشنل ایمپائر بنے جس کے بعد 1988ء میں اُنہیں ’گریڈ ون‘ درجے کا ’ایمپائر‘ بنا دیا گیا۔ پاکستان‘ کینیا اور زمبابوے میں 22 عالمی مقابلوں میں ایمپائرنگ کر چکے ہیں۔ آپ ’پی ایچ ایف‘ کے کوالیفائڈ کوچ بھی ہیں اور انٹرنیشنل کوچنگ کورسیز میں حصہ لے چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں ’’گریڈ ون (پہلے درجے)‘‘ کے ایسے صرف دو ہی ایمپائر ہیں‘ ایک فیض احمد فیضی (پشاور) اور دوسرے ’صدیق شاہ (آبائی تعلق سینی گھمبٹ‘ کوہاٹ)‘ ہیں جو گذشتہ 56 برس سے ایبٹ آباد میں مقیم ہیں اور اِن دنوں فیلڈ ہاکی سے الگ لیکن اِس کھیل سے دلی تعلق رکھنے کے باعث ہر مقابلے اور بالخصوص پاکستان و خیبرپختونخوا میں ہاکی کے معیار پر رنجیدہ (صدمے کا شکار) ہیں!
خیبرپختونخوا سپورٹس بورڈ کے بانی اراکین اور کوچ صدیق شاہ نے پاکستان کو تین کھلاڑی دیئے جن میں پاکستان ہاکی ٹیم کے چیف کوچ اولمپئن فرحت خان (بنوں)‘ پاکستان ہاکی ٹیم کے کھلاڑی ارشد قریشی (ایبٹ آباد) اور پاکستان ہاکی جونیئر کے کھلاڑی شوکت حیات (مردان) شامل ہیں جبکہ ایسے درجنوں کھلاڑی ہیں جو مختلف اداروں بشمول واپڈا کے لئے کھیلتے ہیں۔ صدیق شاہ کا حق بنتا تھا کہ اُن کے تجربے‘ مہارت اور فیلڈ ہاکی سے لگاؤ کو خاطرخواہ تسلیم کیا جاتا اُور اُن کی خدمات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے صوبائی اور ملکی سطح پر فیلڈ ہاکی کے کھیل کی عالمی معیار کے مطابق تربیت ہوتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ آج ہاکی کے میدان میں پاکستان کی حکمرانی کا سورج یوں غروب ہوتا۔
1982ء میں جب پہلا ایشیاء کپ کا مقابلہ کراچی میں ہوا تو پاکستان اُس کا فاتح تھا۔ 1984ء میں لاس اینجلنس اولمپک پاکستان نے گولڈ میڈل حاصل کیا تھا لیکن جولائی 2017ء میں ’ایف آئی ایچ‘ کی جاری کردہ عالمی رینکنگ میں پاکستان 20 ہاکی کھیلنے والے ممالک میں 14ویں نمبر پر ہے جبکہ بھارت چھٹے اور ارجنٹائن‘ آسٹریلیا‘ جرمنی بالترتیب پہلے سے تیسرے نمبر پر ہیں۔ پاکستان نے جتنے بھی عالمی مقابلے یعنی ٹائٹل (اعزازات) جیتے وہ بریگیڈئر منظور عاطف کے دور میں تھے اور اِن کے بعد سے فیلڈ ہاکی زوال پذیر ہے۔ بنیادی طور پر ہمارے پاس فیلڈ ہاکی کی نرسری نہیں ہیں۔ ووٹ لینے کے لئے ’بوگس (جعلی) ہاکی کلب‘ بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں کیونکہ اُنہیں اضلاع کی سطح پر ہاکی کے انہی کلبوں سے ووٹ (حمایت درکار) ہوتی ہے۔
حل یہ ہے کہ موجودہ کلبوں کو ختم کرکے کلب سطح پر اہلیت کو ترجیح دی جائے۔ ڈسٹرکٹ‘ ریجن‘ صوبہ اور قومی سطح پر نمائندگی کرنے والے کردار سال ہا سال سے ہاکی پر مسلط ہیں۔ خیبرپختونخوا کاالمیہ یہ رہا کہ چھبیس برس سے زائد عرصے تک ایک ایسا سیکرٹری رہا جس کا تعلق واپڈا سے تھا۔ آئی جی (ریٹائرڈ) سعید خان کی بھی بہت خدمات ہیں لیکن وہ بھی اِس محاذ پر ناکام رہے۔ وہ بذات خود کئی ایسوسی ایشننز کے رکن اور بڑے عہدوں پر فائز ہیں لیکن وہ اپنے صوبے اور ملک کے لئے نیک نامی نہیں کما سکے۔ کیا یہ امر لائق تشویش نہیں کہ اُنیس سو نوے سے پشاور سے فیلڈ ہاکی کا آخری کھلاڑی قومی سطح پر ابھر کر سامنے آیا تھا۔ المیہ یہ بھی ہے کہ رواں سال (دوہزارسترہ) میں ہاکی فیڈریشنوں کے قومی انتخابات کا عمل مکمل ہونے والا ہے اور یقیناًاِن کے نتائج بھی ماضی سے مختلف ثابت نہیں ہوں گے۔ فیصلہ سازوں کو یقین کرنا ہوگا کہ ہاکی کے عروج و زوال کا تعلق مقامی سطح پر درست فیصلوں میں پنہاں ہے۔
۔
![]() |
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-10-17 |
No comments:
Post a Comment