Wednesday, October 18, 2017

Oct 2017: The hooters. GOVERNANCE BASED ON VVIP CULTURE!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
’بے اثر‘ باتیں!
خیبرپختونخوا کے اَراکین اِسمبلی کو ’اِستحقاق‘ حاصل ہے کہ وہ اپنی گاڑیوں پر ’سائرن (تیز آواز (شور) پیدا کرنے والے ایسے آلات)‘ نصب کر سکتے ہیں‘ جن کے ذریعے وہ دیگر ہم وطنوں سے منفرد و ممتاز نظر آئیں۔ ٹریفک کے رش میں پھنسے بغیر اپنا راستہ تلاش کر سکیں اور کسی خاص مقام پر پہنچنے سے قبل اُن کی آمد کے بارے اہل علاقہ مطلع ہو سکیں تاکہ ’’صاحب بہادر‘‘ کا حسب شان استقبال ممکن ہو۔ ’’اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں۔۔۔ ہم غریبوں کی آن بان میں کیا؟ (جان اِیلیا)۔‘‘ 

درحقیقت اراکین اسمبلی وہ ممتاز خاص (وی وی آئی پی) لوگ ہیں جنہیں اُسی ’ہم عوام‘ سے نفرت ہو جاتی ہے‘ جن کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں! یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا استحقاق ’عام آدمی (ہم عوام)‘ سے مختلف سمجھنے لگتے ہیں اور ہونا بھی یہی چاہئے کیونکہ وہ قانون ساز اُور فیصلہ ساز ہوتے ہیں۔ ملک و معاشرے کی تعمیروترقی اُنہی کی فہم و فراست اور تجربے کا نتیجہ ہوتی ہے لیکن (آیئے خود سے پوچھتے ہیں کہ) کیا خیبرپختونخوا اسمبلی سمیت دیگر صوبائی و قومی اور سینیٹ ایوانوں کی رکنیت رکھنے والوں کی کارکردگی اِس قابل ہے کہ اُنہیں ’حسن کارکردگی‘ کے طور پر معاشرے میں ’’منفرد مقام‘‘ حاصل ہونا چاہئے؟ سولہ اکتوبر (دوہزارسترہ) کے روز ’خیبرپختونخوا اسمبلی‘ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ’وزیر بلدیات عنایت اللہ خان‘ نے ’بیدارمغز‘ ایوان کو ایک مرحلے پر آگاہ کیا کہ ’’جب قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے اہلکار ’ہوٹر (Hooter)‘ استعمال کرسکتے ہیں تو اراکین اسمبلی کو بھی استحقاق حاصل ہے اور ہونا چاہئے کہ وہ ’ہوٹرز‘ کا استعمال کریں اور اُن پر قواعد وضوابط کی رو سے ایسی کوئی پابندی عائد بھی نہیں۔‘‘ یہ وضاحت جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) سے تعلق رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی محترمہ عظمی خان کے ایک سوال کے جواب میں سامنے آئی‘ جنہوں نے کمال سادگی سے اعتراض کی صورت پوچھا تھا کہ ’’کیا اراکین صوبائی اسمبلی اپنی گاڑیوں پر سائرن استعمال کر سکتے ہیں؟‘‘ 

اصولی طور پر صوبائی وزیر کو موصوفہ سے پوچھنا چاہئے تھا کہ آخر کسی رکن صوبائی اسمبلی کو اپنی گاڑی پر سائرن استعمال کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ہے اور اگر ایک سو سے زیادہ اراکین صوبائی اسمبلی سائرن کا استعمال کریں گے تو پشاور میں ’صوتی (آواز سے پیدا ہونے والی) آلودگی‘ میں مزید اِضافہ ہو جائے گا جو پہلے ہی صوبائی دارالحکومت کے کئی علاقوں بشمول صوبائی اسمبلی کے آس پاس اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے گردونواح میں ناقابل برداشت اور انسانی سماعت کے تناسب سے بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ رکن صوبائی اسمبلی کا درپردہ اعتراض اِس بات پر تھا کہ ضلعی حکومتوں کے نمائندے (ناظمین) اپنی گاڑیوں پر ’سائرن‘ کیوں اِستعمال کرتے ہیں؟ 

وزیربلدیات نے اِس ’توجہ دلاؤ نوٹس‘ کا نوٹس لیتے ہوئے یہ کہنا ضروری نہیں سمجھا کہ ناظمین کو بھی حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی گاڑیوں پر سائرن نصب کریں اور یہ سائرن (پریشر ہارن) صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ہی استعمال کرسکتے ہیں جن کے لئے تیزرفتاری کا مقصد اُن کی ذاتی تشہیر (نمودونمائش) نہیں ہوتی بلکہ وہ انسانی جانوں کو بچانے اور سماج دشمن جرائم پیشہ عناصر سے نمٹ رہے ہوتے ہیں! 

لمحۂ فکریہ ہے کہ ۔۔۔ ’’کیا ہر سرکاری گاڑی میں سائرن نصب ہونا چاہئے؟ کیا ناظمین کو ملنے والی سرکاری گاڑیوں میں پہلے سے سائرن نصب تھے یا یہ آلات بعد میں سرکاری خرچ سے نصب کئے گئے اور کیا ایسا کرنے کے لئے صوبائی محکمۂ داخلہ سے اجازت لی گئی؟ کیا اسپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو اِس صورتحال کو نوٹس نہیں لینا چاہئے کہ پریشر ہارن‘ سائرن یا ہوٹرز کا استعمال اگر کسی کو زیب دیتا ہے یا جائز ہوسکتا ہے تو وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سوأ کوئی دوسرا نہیں۔ یہی چیئرمین عمران خان کی تبدیلی‘ جنون اور انقلاب کے اطلاق کا عملی اظہار بھی ہوگا۔

اراکین صوبائی اسمبلی کی اکثریت خود کو منفرد و ممتاز (وی وی آئی پی) سمجھتے ہوئے اُس حد سے بھی تجاوز کر گئی ہے‘ جو ’حفظ مراتب‘ کے لحاظ سے اُن کے شایان شان نہیں۔ اگر صوبائی کابینہ سادگی و کفایت شعاری اور ’وی وی آئی پی‘ کلچر کا اطلاق اپنی ذات سے نہیں کرتی تو دیگر صوبوں کے لئے کس طرح مثال بن سکتی ہے یا پھر اپنے ’ہم جماعت‘ اراکین اسمبلی اور بلدیاتی نمائندوں (ناظمین) سے کس طرح توقع (مطالبہ) کر سکتے ہیں کہ وہ ’وی وی آئی پی‘ طرزعمل (اَزخود) ترک کر دیں گے اور ایسے کسی بھی نمائشی اقدام کے دلدادہ نہیں بنیں یا اُسے اپنا استحقاق نہیں سمجھیں گے جس کا تعلق کسی بھی طرح معاشرے کی اجتماعی فلاح و بہبود سے نہیں ہے۔ 

لفظ ’سیاست‘ کا اصطلاحی مفہوم ’خدمت‘ جبکہ ’سیاست دان‘ ایسی شخصیت کو کہا جاتا ہے‘ جو معاشرے میں اِختلافات اور اِمتیازات ختم (کم) کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں ’سیاست دان‘ اُسے کہا جاتا ہے جو اختلافات کو ہوا دے۔ معاشرے کو تقسیم رکھے‘ جو اپنے ’ووٹ بینک (انتخابی و سیاسی مفادات) کے تحفظ میں نسلی‘ لسانی‘ گروہی‘ قبائلی اُور فروعی اِمتیازات کو زندہ (برقرار) رکھے! حقیقت یہ ہے کہ ’’ماضی کی طرح موجودہ اَراکین ’خیبرپختونخوا اسمبلی‘ اور ’بلدیاتی نمائندوں‘ کو مراعات حاصل ہیں لیکن اگر کسی کی اُمیدوں اور توقعات کا خون ہوا ہے تو وہ عام آدمی (ہم عوام) ہیں‘ جن کی خدمت کے کم ترین معیار پر بھی اراکین صوبائی اسمبلی و بلدیاتی نمائندے پورے نہیں اُترے۔‘‘ 

عمر گزرے گی اِمتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دَان میں کیا
میری ہر بات بے اَثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا؟ (جان اِیلیا)۔‘‘
۔

No comments:

Post a Comment