ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
گورگٹھڑی: کون کیا چاہتا ہے!؟
محکمۂ آثار قدیمہ (خیبرپختونخوا) کی کوشش ہے کہ ’’پشاور شہر کے وسط میں واقع قریب تین ہزار سال پرانی عمارت ’گورگٹھڑی (گورگھ دی ہٹی)‘ کے باقی ماندہ حصوں کو اُس کی تاریخی اہمیت اور اصل کے مطابق ’بحال‘ کر دیا جائے۔‘‘ اِس عمارت کو پہلے ہی ’’پاکستان کے پہلے آرکیالوجیکل پارک‘‘ کا درجہ دیا جاچکا ہے اور یہاں پشاور شہر کی تاریخ کے حوالے سے ایک عدد عجائب گھر (سٹی میوزیم) بھی قائم ہے۔ اگرچہ بہت کم پشاوریوں کو اِس بات کا علم ہوگا کہ اُن کے شہر کی پہلی اینٹ قریب چھبیس سو سال پہلے رکھنے جیسا انکشاف (ڈسکوری) بھی ’گورگٹھڑی‘ ہی کے مقام پر ہونے والی متعدد کھدائیوں سے کی گئی اور ایسی ہی ایک کھدائی کو اُس کی اصل حالت میں دائم رکھا گیا ہے تاکہ نہ صرف ’آثار قدیمہ‘ کا علم حاصل کرنے والے طالب علم‘ ملکی و غیرملکی تحقیق کاروں‘ دلچسپی رکھنے والے سیاحوں بلکہ نئی نسل کو بھی پشاور‘ اِس خطے اور پاکستان و بھارت (برصغیر پاک و ہند) کی تاریخ جاننے اور اِس کے بارے میں مزید غور کرنے کی ترغیب و مواقع فراہم کئے جا سکیں۔ یوں سندی تاریخی اعتبار کے علاؤہ ’گورگٹھڑی‘ کی اہمیت علمی و تحقیقی اعتبار سے ہٹ کر ایک حوالہ مذہب بھی ہے کہ یہاں کئی مندروں پر مشتمل ہندو مذہب کی مقدس عبادت گاہیں موجود ہیں اور اگر ’گورگٹھڑی‘ کو اُس کے اصل کے مطابق بحال کر دیا جاتا ہے تو اِس سے پشاور میں ’’مذہبی سیاحتی‘‘ کے موجود اِمکانات میں ایک بیش قیمت نگینے (ہیرے) کا اِضافہ ہو جائے گا۔
تحریک انصاف کی قیادت میں ’خیبرپختونخوا حکومت‘ یہ چاہتی ہے کہ ۔۔۔ ’’پشاور ہائی کورٹ‘‘ کے اُن احکامات کو عملی جامہ پہنایا جائے‘ جس کے مطابق ۔۔۔ ’گورگٹھڑی‘ کے اِحاطے میں تعمیر ہونے والا شادی ہال ’تجاوز‘ ہے‘ جس کا اِس عمارت میں وجود کسی بھی طرح ضروری نہیں اور اسے ’فوری طور پر مسمار کر دیا جائے‘‘ لیکن ماضی کے حکمران مصلحتوں کا شکار رہے اُور اُنہوں نے عدالتی احکامات کو حیلوں بہانوں سے پس پشت ڈالے رکھا۔ عدالتی احکامات کی تعمیل نہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ صوبائی اور پشاور کی ضلعی حکومتوں (ٹاؤن ون) نے مذکورہ شادی ہال قوم پرست صوبائی وزیر (رُکن اسمبلی) کو اَجارے (لیز) پر دے دیا‘ جن کی کوشش تھی کہ شادی ہال سمیت تمام ’گورگٹھڑی‘ ہی اَجارے پر لینے کے بعد اِسے پارٹی کارکنوں میں تقسیم کر دیا جائے اُور یہاں روائتی دستکاروں‘ ہنرمندوں اُور کھانے پینے کے مراکز (فوڈ سٹریٹ) ہونا چاہئے۔ تصور کیجئے کہ تاریخی اہمیت کی حامل ایک عمارت‘ کہ جس میں فضل حق کے آمرانہ دور میں شادی ہال تعمیر کیا گیا اور پھر تین دہائیوں بعد اُسے سیاسی ملی بھگت سے ہڑپ لینے کی کوشش کی گئی!
پشاور کے تاریخی اَثاثوں کے لئے دردمند مؤقف رکھنے والے مطالبہ کرتے ہیں کہ ۔۔۔ ’گورگٹھڑی‘ کے اَحاطے (صحن) میں قائم ’باغات (پبلک پارکس)‘ کی تعداد اور سبزہ زاروں میں اضافہ کیا جائے۔ نجی اداروں کو عمارت کے احاطے میں کسی بھی قسم کی کمرشل (بڑے پیمانے پر) سرگرمیوں کے انعقاد کی اجازت نہ دی جائے جس سے یہاں کے سبزہ زاروں‘ راہداریوں یا درودیوار کو تراش خراش سے نقصان پہنچے۔ قریب ایک مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ’گورگٹھڑی‘ کا استعمال سرکاری گاڑیوں کو کھڑا (پارکنگ) کے لئے بھی نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس کا کوئی بھی حصہ سرکاری و نجی تجارتی‘ کاروباری یا دیگر سرگرمیوں کے کیا جائے۔ گورگٹھڑی ایک نعمت ہے‘ جس کے ذریعے نہ صرف ملحقہ گنجان آباد اندرون پشاور کے علاقوں میں ماحولیات توازن قائم ہے بلکہ اِس کے اطراف چھ یونین کونسلوں سے ’ہلکی پھلکی ورزش (صبح کی سیر اور واک) کے لئے آنے والے مردوخواتین کے علاؤہ بچوں کے لئے ’’صحت مند تفریح‘‘ کا ذریعہ ہے اور اہل علاقہ بالخصوص نئی نسل کو پشاور کے ماضی سے متعارف کرانے کی سبیل ہے۔ محکمۂ موسمیات خبردار کر چکی ہے کہ ہر سال گرمیوں کے ایک دن میں اضافہ ہو رہا ہے اور اگر ماحول کی تباہی اِسی طرح جاری رہی تو آئندہ پندرہ برس بعد چند دنوں کے لئے آنے والا ’موسم بہار‘ نہیں رہے گا۔ ماحول اگر ترجیح ہے تو ’گورگٹھڑی‘ کو بطور سبزہ زار اور بڑے پیمانے پر شجرکاری کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سردمہر ضلعی حکومت کی سوچ ہے کہ گورگٹھڑی میں قائم ’کتب خانہ (لائبریری)‘ راتوں رات (13 اکتوبر کی شب) اچانک مسمار کرنے سے پہلے اُسے اعتماد میں لیا جاتا اور یہ کام خوش اسلوبی سے کرنا بھی ممکن تھا۔ چھ سے سات ہزار کتب کا ذخیرہ رکھنے والی مذکورہ میونسپل لائبریری کا قیام 1914ء میں ہوا تھا جس میں عطیہ کی گئی سینکڑوں ایسے نسخے موجود ہیں‘ جو نایاب ہو چکے ہیں۔ مادی ترقی کے دور میں چونکہ نئی نسل کا تعلق کتاب سے زیادہ ’انٹرنیٹ‘ سے جڑ چکا ہے اِس لئے لائبریریاں ویران دکھائی دیتی ہیں! تو ’’کتاب سے دوستی‘‘ کے لئے نئے وسائل اور ذرائع سے استفادہ بھی ہونا چاہئے۔ شادی ہال سے متصل لائبریری سے کتابیں بوریوں میں بھر کر شاہی باغ (شالیمار گارڈن) کے اُس حصے میں فرش پر پھینک (ڈھیر کر) دی گئی ہیں جو ’فٹ بال ایسوسی ایشن‘ نے بنایا ہے۔ اس سلسلے میں جب لائبریرین سے بات کی گئی تو وہ کافی دُکھی پائی گئیں اور گلہ کیا کہ سرکاری اِداروں کو مربوط اور ایک دوسرے پر اعتماد (بھروسہ) کرنا چاہئے۔ وہ ایک کتابیں ایک خزانہ تھا‘ اُس کتب خانے کا فرنیچر اور دیگر اَشیاء اثاثہ تھا۔ سب کچھ تہس نہس کر دیا گیا۔ بہت سی کتابیں اُور سازوسامان گم ہو چکا ہے۔
میونسپل لائبریری کبھی بھی ’ضلعی حکومت‘ کی ترجیح نہیں رہی‘ یہی وجہ ہے کہ ’’ڈپٹی ڈائریکٹر‘ ویمن پروگرام‘‘ کو مذکورہ لائبریری کی اضافی ذمہ داریاں سونپی گئیں‘ جن کا کہنا ہے کہ وہ اُردو اخبار نہیں پڑھتیں۔ پردہ باغ میں زیب دفتر ہیں اور لائبریری کے بیس سے پچیس افراد کے عملے کی نگران ہونے کے علاؤہ پچاس دستکاری (ہنرمندی) کے سنٹرز اُن کی بنیادی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ محترمہ کا کہنا ہے کہ ’’لائبریری مسمار ہونے سے اگر کسی کا نقصان ہوا ہے تو وہ پشاور ہے اُور پشاور کو اِس کا احساس تک نہیں!‘‘
۔
![]() |
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-10-19 |
No comments:
Post a Comment