ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کھلا خط!
تاریخ خاموش ہے کہ آج تک کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ ۔۔۔ ’احتساب‘ کی خصوصی عدالت کا بطور ملزم سامنا کرنے والے سرکاری گاڑیوں اور محافظوں کے حصار میں ’تشریف‘ لائیں۔
عدالت عظمیٰ سے تاحیات نااہل قرار پانے والے سابق وزیراعظم اور اُن کے اہل خانہ (اٹھائیس جولائی دوہزار سترہ سے) جس ایک حقیقت کا مسلسل انکار کر رہے ہیں وہ پاکستان میں انصاف کی بنیاد ہے اور اگر اِس ڈھانچے (نظام) پر بھی عوام کا اعتماد اُٹھ گیا تو باقی جو کچھ بھی رہے گا‘ اُس سے ملک و معاشرے کی اجتماعی بہبود نہیں ہوگی۔ موروثی سیاست ’مضبوط‘ سے ’مضبوط تر‘ ہوتی چلی جائے گی۔ تصور کیجئے کہ جب نوازشریف کی صاحبزادی کو ’وی وی آئی پی‘ پروٹوکول کے ساتھ ’احتساب عدالتوں‘ کی چند ایک سماعتوں کا سامنا کرنا پڑا تو اُن کے چہرے پر ناگواری اور بیزاری کا احساس الفاظ میں اُمڈ آیا اور بے اختیار چلا اُٹھیں کہ ’’روز روز کی پیشی سے تو بہتر ہے کہ سزا ہی سنا دی جائے۔‘‘ دست بستہ عرض ہے کہ بی بی یہ تو ’’ابتدائے عشق‘‘ ہے۔ اس ملک میں کسی غریب کی بیٹی کو عدالتوں کے دھکے کھانے پڑجائیں‘ تو وہ روز روز نہیں بلکہ سال ہا سال پیشیاں بھگتنے پر مجبور ہوتی ہے اور پھر دعا کرتی ہے کہ اے رب‘ اس ذلت آمیز نظام کے ذریعے انصاف ملنے سے تو کئی درجے بہتر ہے کہ عزت سے موت ہی آجائے‘ بلکہ ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں کہ عدالتوں کے چکر لگانے والے مرد و خواتین نے ’اُس خاص ماحول‘ کی وجہ سے خودکشیاں کیں‘ جس میں عام آدمی کے لئے نہ تو عزت ہے اور نہ ہی تکریم۔
محترمہ مریم بی بی سے قوم پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ آپ نے کب اس قدر مشکلات جھیلی ہوں گی جس قدر ایک عام پاکستانی کے مقدر میں لکھی ہوئی ہیں! آپ تو وہ خاص لوگ ہیں کہ عدالتیں چل کر آپ کی دہلیز تک آتی رہی ہیں۔ آپ نے درست کہا کہ ’’روز روز کی سزا‘‘ ختم ہونی چاہئے لیکن کیا یہ روز روز کی سزا بناء کسی جرم نازل ہوئی ہے؟ کیا آپ کو اپنے خاندان کے بے انتہاء مالی اثاثوں کو دیکھ کر شک نہیں ہوتا کہ آخر یہ سب کہاں سے آ گیا؟ کیا آپ نے کبھی اپنے والد گرامی کو مشورہ دیا کہ وہ انصاف تک رسائی کے عدالتی نظام کی اصلاح فرمائیں کہ کس طرح ’روز روز کی پیشیاں‘ سزا سے کم نہیں ہوتیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تھانہ کچہری اور عدالتوں کے نظام کو اس قدر پیچیدہ رکھا گیا ہے کہ تاکہ عوام کو سیاسی جماعتوں کا محکوم و غلام رکھا جا سکے؟ کیا ہم یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ عوام کا غم اور تکلیف کا احساس ہمارے حکمرانوں کے لئے معنوی وجود رکھتا ہے؟ اہل پاکستان کے لئے صرف انصاف کا حصول ہی بذریعہ عدالت ممکن نہیں رہا بلکہ یہاں تو تعلیم وعلاج کے لئے بھی پیشیاں (حاضریاں) بھگتنا پڑتی ہیں۔ ملازمتیں بناء پیشی نہیں مل سکتیں اور بناء جرم بھی پیشیوں پر پیشیاں پیش آ سکتی ہیں!
کیا یہی پاکستان ہے کہ عام آدمی تاحیات عام رہے؟
غریب ہمیشہ غریب رہے اور حکمراں ہمیشہ حکمراں رہے؟
کیا سادہ لوح محترمہ مریم بی بی جانتی ہیں کہ پاکستان کی عدالتوں میں پندرہ لاکھ سے زائد مقدمات زیرالتوأ ہیں اور اِس قدر بڑی تعداد میں مقدمات زیرسماعت ہونے کے ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں نئے مقدمات ہر ماہ درج ہو رہے ہیں!؟
کیا ہم ایسے نظام کو اِنصاف تک رسائی کی سبیل قرار دے سکتے ہیں جس میں انصاف ملنے کی اُمید میں نسل در نسل انتظار کرنا پڑے۔ کیا محترمہ مریم بی بی حقیقت آشنا نہیں کہ ’تاخیری اِنصاف درحقیقت انصاف تک رسائی سے انکار ہی ہوتا ہے۔‘ یہ کہا تو جا سکتا ہے کہ انصاف بکتا ہے لیکن اِس کا مطلب وکلاء کی بھاری فیسیں ہیں جن کی ادائیگی ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں ہوتیں! جتنا نامور وکیل اتنے ہی کامیابی کے امکانات! کیا مریم بی بی کو کچھ اندازہ ہے کہ عدالتوں میں اہم (وی آئی پی) اور غیر اہم (ہم عوام) سے الگ الگ سلوک کا مطلب کیا ہے؟ کیا ہر پاکستانی کا یہ حق نہیں کہ اُس سے عدالتوں کا رویہ یکساں یعنی مؤدبانہ ہو؟ افسوس کہ ہم یہ بات تو جانتے ہیں کہ جرائم کا ارتکاب کرنے والے نوے فیصد مجرم پکڑے نہیں جاتے جو دس فیصد گرفت میں آتے ہیں تو اُن کی اکثریت یا تو ضمانتیں کروا لیتی ہے یا پھر بیماری کا بہانہ بنا کر ہسپتالوں کے خصوصی وارڈز میں ’بستر‘ نشین ہو جاتی ہے! قتل اُور اقدام قتل جیسے گھناؤنے جرائم کے مرتکب اگر سرمایہ دار ہوں اور سیاسی اثرورسوخ رکھتے ہوں تو ایسی کوئی بھی عدالت کم سے کم پاکستان میں تو نہیں جو اُنہیں سزا دے سکے۔ یہاں جرائم قوانین کے سہارے اپنا وجود رکھتا ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ قاتل ضمانتوں پر رہا ہوئے۔ عینی شاہدین قتل ہوئے۔ میر مرتضی‘ میر شاہنواز اور بینظیر بھٹو جیسی اہم شخصیات کے قاتل آج تک معلوم نہ ہوسکے تو اس بات پر کیا تعجب کہ اگر کسی عام آدمی کے معلوم قاتل بھی صاف بچ نکلیں!
کیا شریف خاندان کا مقدمہ اُن سینکڑوں خاندانوں سے زیادہ سنگین ہے جن کے عزیز قتل ہو چکے ہیں؟
حالت یہ ہے کہ جائیدادوں اور کرایہ داروں سے بذریعہ عدالت گھر خالی کرانا بھی ممکن نہیں رہا۔ دیوانی کے مقدمات میں نسلیں رُل جاتی ہیں! نوازشریف خاندان کو صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ اِن کے اثاثے معلوم آمدنی کے ذرائع سے زیادہ کیسے ہیں اور اِن کی خریداری کے لئے مالی وسائل کن ذرائع سے اَدا کئے گئے یعنی منی ٹرائل کیا تھی۔ اِس سیدھے سادے مقدمے کو اُلجھا کر کہیں ووٹ کے تقدس یاد دلایا جاتا ہے اور کہیں انتقام کی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ عدالت اُور انصاف پر سوال اُٹھانے کی بجائے اُن دو بنیادی سوالات کا جواب کیوں نہیں دیا جارہا‘ جن کا تعلق مالی اَمور سے ہے۔ پاکستان کی اِجتماعی دانش و بصیرت کا اِمتحان ہے کہ قوم کسی ایسے خاندان کو کس طرح بطور حکمران تسلیم کر سکتی ہے جن کے مالی معاملات و اَمور مشکوک ہیں اور جو سوالات کا جواب دینے کی بجائے عدالتی معاملے کو غیرضروری طور پر طول دے رہے ہیں!
۔
![]() |
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-10-22 |
No comments:
Post a Comment