Wednesday, October 25, 2017

Oct 2017: What's the standard of Quality in Education?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
معیارِ تعلیم: ’معیار‘ کیا ہے؟
خیبرپختونخوا میں شعبۂ تعلیم کی بہتری کے لئے وضع کی گئیں حکمت عملیوں کا ’’شمار انگلیوں پر ممکن نہیں‘‘ لیکن اِن کے نتائج ایک جیسے ہی برآمد ہوئے ہیں اور جن شعبوں میں بہتری کے واضح اشارے دکھائی بھی دیتے ہیں تو وہ پائیدار نہیں جیسا کہ پرائمری سطح تک سکولوں میں داخلوں اور دوران تعلیم سکول چھوڑنے والوں کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار دیکھ کر صرف طالب علم اور والدین ہی دل برداشتہ (مایوس) ہوتے دیکھے گئے ہیں آج تک ایسے کسی معلم (سرکاری ملازم) سے ملنے کا شرف نہیں مل سکا‘ جو یہ کہتے ہوئے ملازمت سے الگ ہو گیا ہو کہ ’کیا اِدارے ایسے ہوتے ہیں؟ کیا مجھے یہ زیب دیتا ہے کہ میں معلم بن کر خود کو اور دوسروں کو دھوکہ دوں‘ جبکہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اِس فرض کے لئے اہل نہیں۔‘ کیا ہمارے ہاں معلم بننے کے لئے نفسیاتی ٹیسٹ اور درخواست گزاروں کا ماضی دیکھا جاتا ہے کہ وہ جرائم میں ملوث نہیں؟ اہلیت کے بعد دوسری اہم بات ’معیار‘ کی ہے۔ 

ہر دور حکومت میں ’تعلیم‘ کے ساتھ ’معیار‘ کا لفظ ضرور استعمال کیا جاتا ہے بلکہ یہ دونوں الفاظ لازم و ملزوم بن چکے ہیں لیکن آخر اِس ’معیار‘ نامی شے کا وجود یا حقیقت کیا ہے؟ یہ معیار کہیں سے مستعار (ادھار) لیا گیا ہے‘ امداد میں ملا ہے یا ہمارے اپنے ماہرین تعلیم اور فیصلہ سازوں نے مل بیٹھ کر مشاورت سے تخلیق کیا ہے؟ اِس معیار کے پیمانہ پر کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کامیابی کی شرح کیا مقرر کی گئی ہے؟ اِس کے جزئیات و تفصیلات کیا ہیں؟ اور آخر وہ کون سی ایسی کسوٹی ہے جس پر معیار کی درجہ بندی کرکے اِس بات کا فیصلہ کیا جاسکے کہ ’تعلیم‘ کے شعبے میں حاصل کی جانے والی کامیابیاں اور اہداف ’معیاری‘ ہیں یا معیاری نہیں ہیں!؟ یہ بھی طے نہیں ہو سکا اُور اُلجھن بدستور موجود (برقرار) ہے کہ اگر تعلیم کے شعبے میں ’معیار‘ ہی ’معیاری‘ نہیں تو اِس کے لئے ذمہ دار (قصوروار) کون ہیں؟ کیا ہم والدین‘ طالب علموں‘ اساتذہ یا سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کی گرفت کریں جنہوں نے ایک ہی ملک میں چار قسم کے ’تدریسی و نصابی نظام‘ قائم کر رکھے ہیں اور پھر بھی ’معیار‘ کی گردان سے گریز نہیں کرتے! 

اربوں روپے سے شروع کی جانے والی تعلیم کے فروغ سے متعلق حکمت عملیاں اگر ناکام ثابت ہوئی ہیں اور سوائے خزانے پر ملازمین کا بوجھ ہر سال بڑھنے کے کچھ حاصل نہیں ہو سکا ہے تو آخر ناکامی کا اعتراف کرنے میں قباحت ہی کیا ہے؟ اعلیٰ ظرفی تو یہ ہے کہ نقصان (خسارے) پر نقصان (خسارہ) کرنے کی بجائے ’حالات و ضروریات‘ سے مطابقت رکھنے والا تدریس کا کوئی ایسا ماڈل (معیار بہ وزن معیار) تخلیق کیا جائے جو ہمارے زمینی حقائق کی نفی پر مبنی (مصنوعی) نہ ہو!

خیبرپختونخوا کے ’نظام و معیار تعلیم‘ کا لب لباب یہ ہے کہ ’تحریک انصاف‘ کی قیادت میں اربوں روپے بالخصوص بنیادی و ثانوی تعلیم کی وسعت اور پہلے سے موجود سہولیات میں بہتری پر خرچ کئے گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں ’اہل اساتذہ‘ بھرتی کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے لاکھوں اساتذہ کی تربیت پر کروڑوں روپے خرچ کر ڈالے لیکن اگر نتیجہ وہی کا وہی ہے تو اِس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اساتذہ سے انسان نہیں بلکہ مشین سمجھ کر معاملہ کیا جا رہا ہے اور اُن پر اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ’کام کا دباؤ‘ اِس قدر بڑھا دیا گیا ہے کہ وہ کم ترین توجہ کلاس رومز میں تدریس کے عمل کو دیتے ہیں! 

کیا یہ معمولی بات ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے چار سال میں ’22 ارب روپے‘ خرچ کر ڈالے ہیں جن سے مفت درسی کتب اور سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی گئی ہے لیکن اگر اس قدر خطیر اخراجات کے باوجود بھی صورتحال ’وہی کی وہی‘ ہے تو پالیسی سازوں کو اپنے کئے پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ رواں ہفتے ’خیبرپختونخوا ایجوکیشن ریفارمز اینڈ اچیومنٹس رپورٹ (KP Education Reforms and Achievements Report 2017) جاری ہوئی‘ جس میں تمام حکومتی کامیابیوں کو قدرے تفصیل اور خوشنما انداز سے فہرست کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ صوبائی حکومت نے اب تک ’نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس)‘ کے ذریعے چالیس ہزار اساتذہ بھرتی کئے ہیں تاکہ خیبرپختونخوا میں اساتذہ کی تعداد طالب عملوں کے عالمی معیار کے مطابق بڑھائی جائے جو کہ ایک معلم کے مقابلے چالیس طلبہ ہے۔ اِسی طرح سال 2014-15ء کے دوران سکول ٹیچرز‘ ہیڈماسٹرز اور پرنسپلز کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اُنہیں ’پانچ کروڑ پچاس لاکھ روپے‘ کے انعامات سے نوازہ جا چکا ہے لیکن ’اساتذہ کی ایک بڑی تعداد‘ موجودہ حکومت سے ’خوش نہیں‘ اور بیان کرتی ہے کہ انہیں ذہنی اذیت‘ کوفت اُور حد سے زائد غیرضروری قواعد و ضوابط سے رہائی دی جائے۔ ایک معلم سے ہوئی ٹیلی فونک بات چیت میں جب اُنہوں نے یہ نکات اُٹھائے کہ ’’کسی معلم کی بنیادی ذمہ داری تعلیم دینا ہوتا ہے لیکن تصور کیجئے کہ کوئی استاد اگر سارا دن ’انٹیپنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ (آئی ایم یو)‘ کے لئے اعدادوشمار اکٹھا کرتا رہے تو کیا وہ اپنے بنیادی فریضے کی انجام دہی کر رہا ہے اور ذہنی طور پر مطمئن ہوگا؟ اِسی طرح ’این ٹی ایس‘ کے ذریعے بھرتی ہونے والے اساتذہ کو ’’اہل‘‘ تو بتایا جاتا ہے لیکن انہیں ’عارضی‘ ملازم رکھا گیا ہے‘ جس سے اِن تمام اساتذہ کے ذہن پر غیریقینی کی صورتحال طاری رہتی ہے اور وہ خوفزدہ رہتے ہیں کہ اُن کی ملازمتوں کا خاتمہ کسی روز بھی ہوسکتا ہے! 

صوبائی حکومت نے جن اساتذہ کے لئے اب تک تربیت کا اہتمام کیا‘ اُن سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ تدریس کے جملہ امور صرف ’تین ہی دن‘ میں سیکھ کر ماہر ہو جائیں گے۔ تدریس کے اسلوب سے متعلق مضامین کی خواندگی ضروری نہیں بلکہ ہر پڑھا لکھا شخص بطور معلم بھرتی ہو سکتا ہے‘ لیکن (لیکن اُور لیکن اپنے اپنے دل سے پوچھتے ہیں کہ) کیا ہمارے ہاں ہر معلم ’اُستاد گرامی‘ کے مرتبے پر فائز ہونے کا اہل بھی ہے؟
۔

No comments:

Post a Comment