Thursday, October 26, 2017

Oct 2017: ByElection & wonders of NA 04, Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ضمنی انتخاب: این اے فور!
عام انتخابی عمل میں ’دھاندلی‘ کا ’جامع تصور‘ تین مراحل میں تکمیل پاتا ہے۔ 1: قبل از انتخابی قواعد کی خلاف ورزیاں بشمول حکمراں جماعت کی جانب سے ترقیاتی کام اُور اہم عہدوں پر منظورنظر افراد کی تعیناتیاں‘ 2: رائے دہی (پولنگ) کے مرحلے میں طاقت‘ دھونس اور سرمائے کا (کھلم کھلا) استعمال اور 3: انتخابی اُمیدواروں کی اکثریت بعداَز اِنتخابات (پوسٹ الیکشن) نتائج پر اثرانداز ہونے کی حتی الوسع کوشش کرتی ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ ’این اے فور‘ پر ’ضمنی انتخاب‘ کی روداد بھی زیادہ مختلف نہیں‘ جہاں بڑی سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کے لئے سرتوڑ اور جوڑتوڑ کوششوں کا منطقی انجام آج (چھبیس اکتوبر) دن ڈھلنے واضح ہو جائے گا لیکن صوبائی دارالحکومت پشاور کے بیشتر دیہی علاقوں پر مشتمل اِس ضمنی انتخاب کی وساطت سے مستقبل کا ’انتخابی منظرنامہ‘ بڑی حد تک معلوم ہو چکا ہے کیونکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان بننے اور بگڑنے والے ’انتخابی اتحاد (قربتیں اُور فاصلے)‘ ہی خیبرپختونخوا کے دیگر حصوں بالخصوص پشاور کی سطح پر ’مستقبل قریب‘ میں ہونے جا رہے انتخابی مراحل پر اثرانداز ہوں گے۔

عام انتخابی مرحلے میں کسی ایک اُمیدوار کی ’جیت‘ کا یہ مطلب قطعی نہیں ہوتا کہ مدمقابل دیگر اُمیدواروں کو شکست ہوئی ہے بلکہ انتخابات کے ذریعے جمہوریت پر یقین اور اعتماد کا عملی اظہار اِس عمل کی اساس و اثاثہ ہے۔ افسوس کہ سیاسی جماعتیں عمومی طور پر انتخابی اتحاد کی صورت اپنے حامیوں کے جذبات کا احساس نہیں کرتیں۔ جمہوریت کی روح اور انتخاب کا مقصد اُسی وقت فوت ہو جاتا ہے جب مختلف النظریات سیاسی جماعتیں انتخابی اتحاد کرتی ہیں۔ پشاور کی سطح پر اِس قسم کے اتحاد پہلی مرتبہ ’این اے فور‘ پر دیکھنے میں نہیں آئے بلکہ اگست دوہزار تیرہ کے آخری ہفتے جب ’این اے ون‘ کے ضمنی انتخاب پر تحریک انصاف کے مقابلے عوامی نیشنل پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی تب تحریک انصاف کے مقابلے چھ سیاسی جماعتوں نے اتحاد کیا تھا جبکہ مئی دوہزار تیرہ میں تحریک انصاف کے مخالفین کا ’ووٹ بینک‘ منتشر تھا۔ اُس وقت رہی سہی کسر ’تحریک انصاف‘ کے داخلی اختلافات نے پوری کر دی اور یوں بھاری اکثریت سے جیتی ہوئی نشست چند ہزار ووٹوں کے فرق سے ’پی ٹی آئی مخالف اتحاد‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا جس سے باردیگر ثابت ہوا کہ عام انتخابات صرف اور صرف حساب و کتاب (شمار) پر منحصر ہوتے ہیں جو اُمیدوار اپنے اور مخالفین کے ’ووٹ بینک‘ کا درست اندازہ لگائیں وہی دلی مراد پاتے ہیں۔ 

سیاسی جماعتیں جس پھرتی‘ اتحادواتفاق اور ووٹروں سے رابطوں کا اہتمام عام انتخابات کے موقع پر کرتی ہیں لیکن اگر یہی سلسلہ بعدازانتخابات بھی جاری رہے تو جمہوریت کے ثمرات و اثرات زیادہ اُبھر کر سامنے آئیں۔ عمومی طور پر ملک کے ہر انتخابی حلقے میں ووٹروں کی اکثریت اِس احساس محرومی کا شکار ہے کہ اُن سے ووٹ لینے والے بعدازاں انتخابی حلقوں کا رُخ نہیں کرتے۔ قانون ساز ایوانوں کی رکنیت رکھنے والوں کے پاس ’ترقیاتی فنڈز‘ ہونے کی وجہ سے انتخابی حلقوں کو اُن کی ضرورت رہتی ہے لیکن عام آدمی (ہم عوام) کو اِس ’’خوش فہمی کے مرض‘‘ کا علاج کرنا چاہئے کہ (تین سطحی) انتخابی عمل میں کروڑوں روپے اور اپنے بیش قیمت وقت کی سرمایہ کاری کرنے والے ’’خدا واسطے سیاست‘‘ کر رہے ہیں۔ ’این فور‘ پر ہوئے ’’انتخابی اتحاد اور رائے دہندگان کو قائل کرنے کی مہمات‘‘ سے اہل پشاور نے کیا سیکھا؟ کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مقرر کئے جانے والے زیادہ سے زیادہ اخراجات سے متعلق قواعد ایک مرتبہ پھر پائمال ہوئے؟ اُور اِس پورے عمل سے کیا (مردم شماری کے تین بلاکس) ’’اُڑمر (چارج ٹو)‘ بڈھ بیر (چارج فور) اور ہزارخوانی (چارج چودہ)‘‘ کے دیہی علاقوں کی قسمت بدلنے والی ہے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ’ایم این اے‘ گلزار خان کی وفات سے خالی ہونے والی ’’اِین اَے فور‘‘ کی نشست کے لئے ’’3 لاکھ 97 ہزار 904 ووٹرز‘‘ ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کے اہل ہیں‘ جنہیں ’’15اُمیدواروں‘‘ میں سے کسی موزوں شخص کا انتخاب کرنا ہوگا۔ بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں میں امان اللہ خان آفریدی (آزاد)‘ ارباب عامر ایوب (تحریک انصاف)‘ اسد گلزار خان (پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین)‘ الحاج لیاقت علی خان (آزاد)‘ خوشدل خان (اے این پی)‘ ڈاکٹر مبشر خان (آزاد)‘ سمیع اللہ (آزاد)‘ شوکت خان مہمند (آزاد)‘ ضیاء الرحمن (آزاد)‘ علامہ ڈاکٹر محمد شفیق ایمنی (تحریک لبیک (یارسول اللہ) پاکستان)‘ فرحان قدیر (آزاد)‘ محمد تنویر (آزاد)‘ مولانا وحید عالم (آزاد)‘ ناصر خان موسیٰ زئی (پاکستان مسلم لیگ نواز) اور واصل فاروق جان ایڈوکیٹ (جماعت اسلامی) شامل ہیں۔ اِس حلقے میں ’’ایک لاکھ باسٹھ ہزار سات سو چالیس‘‘ خواتین ووٹرز کی تعداد تعجب خیز ہے کہ کس طرح خواتین ووٹرز کی تعداد مرد ووٹرز کے تناسب ’’72 ہزار 424‘‘ کم ہو سکتی ہے جس کا مطلب ہے کہ دیگر دیہی علاقوں کی طرح یہاں بھی خواتین کے ووٹ حسب تعداد اندراج (رجسٹرڈ) نہیں ہوئے اور نہ ہی پولنگ میں اُن کی پچاس فیصد تعداد ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کر پائے گی۔ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخاب میں ’این اے فور‘ پر ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب 40.34 فیصد رہا جبکہ 12مدمقابل اُمیدواروں کے مقابلے کامیاب قرار پانے والے ’تحریک انصاف‘ کے نامزد گلزار خان نے 55ہزار 134 ووٹ حاصل کئے تھے۔

پشاور کا مضافاتی ’این فور‘ کا انتخابی حلقہ ’امن و امان‘ کے لحاظ سے آج بھی غیریقینی کی صورتحال سے دوچار رہا ہے جہاں ملحقہ قبائلی پٹی سے در آنے والے عسکریت پسندوں اور منظم جرائم پیشہ عناصر کا تین مقامی قبائل مقابلہ کر رہے ہیں لیکن اِس ضمنی انتخاب نے ماضی کے اِس اہم اتحاد کو نقصان پہنچایا ہے اور آج یہ تینوں مقامی قبائلی گروہ (حاجی عبدالمالک‘ دلاور خان اور حاجی عباس گروپ) الگ الگ اُمیدواروں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اگرچہ ماضی میں بھی ایک مرتبہ ملک اور خان گروپ ایک دوسرے کے مدمقابل سیاسی مخالف اُمیدواروں کے حامی تھے لیکن اِس مرتبہ اختلافات اس حد تک زیادہ ہیں کہ مسلح تصادم کے امکانات بھی ہیں! یہی وجہ ہے کہ فوج طلب کر لی گئی ہے جو انتخابی مراکز کی حفاظت کرے گی۔ سیاسی جماعتیں کس طرح مسلح گروہوں کی سرپرستی کرتی ہیں اور کس طرح عسکریت پسندوں کے خلاف مسلح گروہوں کی سرپرستی کی گئی‘ اِس کی کہانی اور اثرات (انجام) ’این اے فور‘ میں بخوبی ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ 

انتخابی فتح کبھی بھی ’حرف آخر‘ نہیں ہوتی لیکن اِسے نسلی‘ لسانی اور عزت و آبرو کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے سے پیدا ہونے والی بدمزگی عمومی سماجی تعلقات پر منفی اثرانداز ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کی مخالفت میں حد سے گزرنے والوں کو پشاور اور خیبرپختونخوا کے مفادات کا بھی خیال (پاس) کرنا چاہئے۔ اُمید اور دُعا ہے کہ ضمنی انتخاب کا یہ مرحلہ حسب توقع‘ خوش اسلوبی سے مکمل ہوگا‘ جس میں حصہ لینے والے سبھی اُمیدوار اگر جمہوری روئیوں اور تقاضوں کو سمجھتے ہوئے برداشت سے کام لیں گے تو اپنی اپنی حیثیت میں صرف ’کامیاب‘ نہیں بلکہ ’کامران‘ بھی قرار پائیں گے۔

No comments:

Post a Comment