Thursday, November 16, 2017

Nov 2017: The count of negative impacts on (Free & Fair) Elections!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
عام اِنتخابات: قومی ذمہ داری!
پاکستانی سیاست کا یہ پہلو فہم سے بالاتر ہے کہ قومی امور پر ’اتفاق رائے‘ نہ ہونے کے باوجود بھی مختلف النظریات سیاسی جماعتیں ’’اچانک‘‘ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے متحد ہو سکتی ہیں۔ اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا معاملہ ہو یا صداقت و امانت کے اصولوں پر پورا نہ اُترنے والوں کو سیاسی جماعتوں کی سربراہی کے لئے اہل قرار دینے سے لیکر ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی جیسا انتہائی سنگین‘ متنازعہ و حساس معاملہ‘ آئین سازی اور آئینی ترامیم کرتے ہوئے ’غیرمعمولی جلدبازی‘ سے کام لیا جاتا ہے جس میں قوم کے جذبات و احساسات اور رائے عامہ جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اُبھرنے والے کسی عمومی تاثر کو خاطر میں لایا جاتا ہے۔ 

عام آدمی (ہم عوام) کو ہر گھڑی ’’سرپرائز‘‘ دینے والے قانون سازوں کے کھانے اُور دکھانے کے ’دانت الگ الگ‘ ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ ہر دن سیاست ’ناممکنات‘ میں ’اِمکانات‘ اُور اختلافات کی تہہ میں ’اتفاق‘ کے پہلو تلاش کر رہی ہے۔ 

آئندہ برس (دوہزار اٹھارہ) کے پہلے چھ ماہ موجودہ قانون ساز اسمبلیاں اپنی وہ آئینی مدت پورا کریں گی جس کے اختتام یا قبل از وقت عام انتخابات کے چرچے عام ہیں‘ اِس سلسلے میں کس حد تک تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں؟‘ اِس بارے میں جب قانونی موشگافیوں سے آگاہ‘ روزنامہ ڈان کے رپورٹر وسیم اَحمد خان نے بنیادی سوال ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کے ترجمان ’ہارون خان شینواری‘ سے پوچھا تو اِس کا جواب قومی مفاد میں طویل ہوسکتا تھا‘ جس میں قانون ساز ایوانوں کی کارکردگی پر تنقید سامنے آتی لیکن احتیاط سے کام لیتے ہوئے ترجمان نے بات سمیٹتے ہوئے کہا کہ ’’الیکشن کمیشن ایک قومی ادارہ ہے‘ جو اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔‘‘ پندرہ نومبر کو ’پرل کانٹیننٹل ہوٹل پشاور کے ’زیور ہال (Zaver Hall)‘ میں ایک روزہ ’میڈیا ورکشاپ‘ کا انعقاد خوش آئند تھا‘ جس میں عام انتخابات کے حوالے سے نئے قانون اور انتخابی تیاریوں (حکمت عملی) کے بارے میں تکنیکی امور سے متعلق پانچ مقررین (ایڈیشنل سیکرٹری ظفراقبال حسین‘ ڈائریکٹر جنرل الیکشنز محمد یوسف خٹک‘ ڈائریکٹر آئی ٹی بابر ملک‘ ڈائریکٹر ’آئی ایم ایس‘ حیدر علی اُور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل جینڈر محترمہ نگہت صادق) نے سیرحاصل معلومات کا ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے تبادلہ کیا تاہم اگر ڈیڑھ سو منٹ دورانیئے کی ایک ہی مسلسل نشست کو کم سے کم تین حصوں (سیشنز) میں تقسیم کرتے ہوئے ’’آئینی‘ تکنیکی و خصوصی امور‘‘ کے حوالے سے موضوعات کا الگ الگ احاطہ کیا جاتا تو یہ عمل (کوشش) زیادہ مفید ثابت ہو سکتی تھی۔ 

الیکشن کمیشن اِس قسم کی ’میڈیا ورکشاپوں‘ کا انعقاد چاروں صوبائی اور وفاقی دارالحکومت میں کر رہا ہے اور اِس سلسلے میں اب تک اسلام آباد و لاہور کے بعد تیسری ورکشاپ پشاور میں منعقد ہوئی جبکہ ’بائیس نومبر‘ کراچی اور ’چودہ دسمبر‘ کوئٹہ میں ’ذرائع ابلاغ‘ کے چنیدہ نمائندوں کو مدعو کیا جائے گا تو اِس تربیتی و معلوماتی کوشش (میڈیا ورکشاپ) کے لئے کتابی شکل میں ’مینول (manual)‘ ازبس ضروری (لازمی) تھا‘ جس میں متعلقہ شعبے کے ماہرین کی اپنی اپنی ’پریزینٹیشنز‘ سے متعلق (اُردو اور انگریزی زبانوں میں) مقالہ جات شامل ہوتے۔ اِسی طرح دو اکتوبر دوہزار سترہ سے رائج‘ الیکشن کے متعلقہ قانون (الیکشن ایکٹ 2017ء) کے 130 صفحات کے اُردو ترجمہ کا اہتمام بھی اگر کر دیا جاتا تو اِس سے قومی و علاقائی سطح پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی انتخابی قواعدوضوابط کے بارے سمجھ بوجھ میں زیادہ اضافہ ہوتا۔ بہرحال اِس تاخیر کا ازالہ ممکن ہے۔ کراچی اور کوئٹہ کی ’میڈیا ورکشاپوں‘ سے قبل یا بعدازاں اِن نشستوں سے متعلق جامع رپورٹ تیار کر کے انہیں ’ہارڈ یا سافٹ کاپیز‘ کی صورت ورکشاپ کے شرکاء میں تقسیم کیا جاسکتا ہے کیونکہ یکے بعد دیگرے الگ الگ موضوعات کا تیزی سے احاطہ اور سوال و جواب کو ظہرانے سے قبل جلدی جلدی سمیٹنے کی کوشش میں سب سے اہم حصے (تبادلۂ خیال اُور سوال و جواب) کو صرف ’تیس منٹ‘ تک محدود کرنے سے تشنگی کا احساس بہرحال برقرار رہا!

الیکشن کمیشن ’قانون سازی‘ کی حد تک تو ’بے بس (معذور)‘ ہے لیکن وہ اپنے طور (آئندہ) عام انتخابات کے آزادانہ اُور شفاف انعقاد کو ممکن بنانے کے لئے ایسی ’قواعد سازی‘ کرنے میں ’مکمل بااختیار‘ بنا دیا گیا ہے‘ جس سے انتخابی عمل زیادہ بامعنی (بامقصد) نتائج کا حامل ہو۔ 

نئے قانون (الیکشن ایکٹ دوہزار سترہ) کے تحت انتخابی فہرستوں میں ووٹرز بالخصوص خواتین کی تصاویر شامل کرنے اُور اِن کی محدود اشاعت کی بجائے ہر سیاسی جماعت‘ انتخابی اُمیدوار یا طلب کرنے والے کو فراہم کرنے کے یقیناًمنفی نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ بات صرف قبائلی علاقہ جات‘ خیبرپختونخوا اُور بلوچستان کی حد تک محدود نہیں جہاں پہلے ہی مستورات کو گھروں تک محدود رکھا جاتا ہے اور جہاں کی اکثریت سماجی و ثقافتی یا قبائلی و خاندانی دباؤ کے تحت حق رائے دہی سے محروم ہے تو جب باپردہ خواتین کی ’’بے حجاب تصاویر‘‘ ووٹر لسٹوں میں گردش کریں گی تو عین ممکن ہے کہ ’روشن خیال و تعلیم یافتہ‘ سمجھے جانے والے معاشروں میں بھی اِس بات کو معیوب سمجھتے ہوئے بہت سے خاندان اپنے ناموں کو انتخابی فہرستوں سے منہا (delete) کروا دیں۔ عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی قومی شرح اگر اوسطاً چالیس فیصد سے کم ہے تو اِس میں اضافے کی بجائے غیرمعمولی کمی سے انتخابی عمل کی معنویت و مقصدیت پر حرف آئے گا اُور اِس سلسلے میں ’الیکشن کمیشن‘ کو برسرزمین حقائق ’سیاسی فیصلہ سازوں‘ کے سامنے نہ صرف پیش (گوش گزار) کرنے چاہیءں بلکہ سیاسی مخالفت برائے مخالفت کے تناؤ بھرے ماحول میں مختلف وسائل بالخصوص ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لاتے ہوئے قانون سازوں کو اِس بات پر قائل کرنا چاہئے کہ وہ خواتین کی ووٹر فہرستوں میں تصاویر کی اشاعت اور ان کی فراہمی (عام تشہیر) کے اپنے مؤقف سے رجوع کرتے ہوئے کوئی درمیانی راستہ اختیار کریں۔ 

نئی قانون سازی کی رو سے جس کی کسی انتخابی حلقے میں خواتین کے ڈالے گئے ووٹوں کا شمار 10فیصد سے کم ہوگا‘ وہاں پولنگ کا عمل دوبارہ ہوگا لیکن کیا ’وی وی آئی پیز‘ قانون سازوں کے سامنے یہ زمینی حقائق بھی پیش کئے گئے کہ ملک کی ’ساٹھ فیصد‘ سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے جن کے لئے ’دو وقت کی روٹی‘ کا حصول ایک روزہ انتخابی عمل سے زیادہ بڑی ترجیح ہے اور جس معاشرے میں شرح خواندگی اِس لئے متاثر ہو رہی ہو کہ وہاں تعلیمی اداروں کا فاصلہ آبادی کے مراکز سے دور ہے تو وہاں کس طرح اُمید کی جا سکتی ہے کہ عام لوگ (ہم عوام) جوق در جوق‘ گھنٹوں پیدل سفر کے بعد (دور دراز) پولنگ اسٹیشنوں تک ہمراہ خواتین پہنچیں گے!؟ 

قانون کے تحت انتخابی اُمیدواروں کے لئے ٹرانسپورٹ کی فراہمی پر پابندی عائد ہے‘ انتخابی مہم پر زیادہ سے زیادہ اخراجات کی حد بھی مقرر کر دی گئی ہے اور جو خواتین اپنا چہرہ عیاں نہیں کرنا چاہتیں اُن کی تصاویر بھی مشتہر کر دی گئیں ہیں تو کیا اِس کا منفی ردعمل سامنے نہیں آئے گا؟ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے (حصہ لینے والوں) کی کم ہوتی شرح (پولنگ) فیصلہ سازوں کے لئے پریشانی کا باعث ہی نہیں۔ ووٹ بذریعہ پرچی ہو یا بائیومیٹرک تصدیق کے بعد الیکٹرانک وسائل سے‘ بہرصورت ہر ووٹر کو انتخابی عمل میں شامل کرنا اوّلین ترجیح ہونی چاہئے اور معروضی حالات‘ سماج و روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ’انتخابی قوانین و قواعد‘ کے بارے میں قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنا بھی الیکشن کمیشن ہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ الیکشن کمیشن حکام خود کو ’بے بس‘ سمجھنے کی بجائے‘ قومی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے جرأت مندی سے‘ ڈٹ کر اور ’باآواز بلند‘ اُن قانونی و آئینی غلطیوں (سقم) کی نشاندہی کریں‘ جن کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات پر منفی اثرات مرتب ہونے کے واضح آثار ہیں۔
۔

1 comment:

  1. Well written article on the workshop and sir u raised a good piont about photo on electoral form of female voters

    ReplyDelete