Saturday, November 18, 2017

Nov 2017: Glossy picture of PUBLIC TRANSPORT not so glossy!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
چوری: سینہ زوری!
’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے جڑے دکھوں (مشکلات) میں یہ بات بھی شامل ہے کہ صرف اُور صرف ’تھکی ہوئی مسافر گاڑیوں میں سوار عام آدمی (ہم عوام) کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے کہ اِنہی میں دہشت گردوں سے لیکر منشیات فروشوں اور غیرقانونی طور پر اشیاء کی نقل و حمل کرنے والے پائے جاتے ہیں۔ 

مرغیوں کی طرح ڈبوں میں بند‘ کسی گاڑی کی گنجائش (seating capacity) سے زیادہ مسافروں کو سوار کرنا ایک الگ سا معمول بن گیا ہے۔ بین الاضلائی راستوں (روٹس) پر پبلک ٹرانسپورٹ سے جڑی شکایات کو پانچ بنیادی درجات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ 1: ریجنل ٹرانسپورٹ اٹھارٹی کی جانب سے مقررہ کئے گئے (شرح) کرائے سے زیادہ وصولی کی جاتی ہے۔ 2: گاڑی کی ظاہری اور انجن کی حالت (fitness) لمبے سفر کے قابل نہ ہونے کے باوجود ایسی گاڑیوں کا استعمال عام ہو رہا ہے جو ’ماحول دوست‘ نہیں اور جن میں مسافروں کو دی جانے والی نشستیں نہ تو آرام دہ ہیں اور نہ ہی خواتین‘ بچوں اور ضعیف العمر افراد کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔ 3: ڈیزل ایندھن کے تناسب سے مقررہ کرائے وصول کرنے والی گاڑیوں کو سستے ایندھن (سی این جی) سے چلانے کے باوجود بھی زیادہ کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔ ایسی ’سی این جی‘ گاڑیوں میں لمبی مسافت طے کرنے کے لئے ایک سے زیادہ گیس ٹینک نصب ہوتے ہیں۔ یوں مسافر کم یا زیادہ فاصلے کے سفر میں مستقل خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔ 4: پبلک ٹرانسپورٹرز مسافروں سے صرف زائد کرایہ ہی وصول نہیں کرتے بلکہ اُن کا رویہ اِنتہاء درجے کا مغرور اور ہتک آمیز بھی ہوتا ہے۔ مسافروں سے اُن کے دستی سامان کا الگ سے کرایہ وصول کرنا بھی ایک معمول ہے‘ جن پر بالخصوص تہواروں یا خصوصی ایام میں باقاعدگی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ 5: پبلک ٹرانسپورٹ سے استفادہ کرنے والوں کے پاس چونکہ کوئی متبادل (option) ہی نہیں اِس لئے وہ ’نجی ٹرانسپورٹرز‘ کی کسی بھی ’جارحانہ اَدا (روئیوں)‘ کا (قطعی) بُرا نہیں مناتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ شکایت کریں گے تو کس سے اُور اگر انصاف چاہیں گے تو کون ہے جو عام آدمی (ہم عوام) کی فریاد جانب توجہ فرمائے۔ بنیادی سوال یہی ہے کہ بین الاضلاعی و صوبائی روٹس پر ’’حاجی کیمپ‘ پشاور بس ٹرمینل‘ چارسدہ روڈ اور کوہاٹ روڈ جیسے بڑے ’بس اَڈوں‘ کے اصل حاکم کون ہیں؟ حکومتی اِدارے ’نجی ٹرانسپورٹرز‘ کے مفادات کا تحفظ کرنے میں فعال لیکن عام آدمی (ہم عوام) کی مشکلات اور درپیش مسائل کے بارے فکرمند کون ہے؟

خیبرپختونخوا کے کل ’’سات ڈویژنز (مالاکنڈ‘ ہزارہ‘ مردان‘ پشاور‘ کوہاٹ‘ بنوں اُور ڈی آئی خان)‘‘ میں شامل تین اضلاع (چارسدہ‘ نوشہرہ اور پشاور) پر مشتمل ’’پشاور ڈویژن‘‘ سے مقامی اور بین الاضلاعی و بین الصوبائی روٹس پر چلنے والی مسافر گاڑیوں (پبلک ٹرانسپورٹ) کی کل تعداد ’’پندرہ سے سولہ ہزار‘‘ بتائی جاتی ہے (اس سلسلے میں درست اعدادوشمار کیوں موجود نہیں‘ یہ سوال اپنی جگہ لمحۂ فکریہ ہے)۔ 

پبلک ٹرانسپورٹ کے مذکورہ نظام کو قواعد و ضوابط کا پابند رکھنے کے لئے پشاور میں ’’23 چھوٹے بڑے اَڈے‘‘ بنائے گئے ہیں جن میں سے صرف ایک (پشاور بس ٹرمینل) ’ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانسپورٹ‘ جبکہ باقی ماندہ کا نظم و نسق اور جملہ انتظامات (مینجمنٹ) ہر ضلع کی طرح پشاور کی ’مقامی (بلدیاتی) حکومت‘ کے پاس ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے بظاہر سیدھے سادے لیکن اِس ’پیچیدہ نظام‘ کا ایک اُور اعلیٰ و بالا نگران ادارہ ’ٹرانسپورٹ اتھارٹی‘ ہے جس کے مذکورہ سات ڈویژنز میں الگ الگ دفاتر ہیں اُور اِنہیں ’’ریجنل ٹرانسپورٹ اٹھارٹیز (آر ٹی اے)‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’آرٹی اے‘ پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے راستوں (روٹس) کے انتخاب‘ اِن راستوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کے اجازت ناموں (روٹس پرمٹ) کے اجرأ‘ اُور فی مسافر (فی نشست) شرح کرائے کا تعین کرتی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی کسی بھی گاڑی کو ’روٹ پرمٹ‘ جاری کرنے کے لئے بنیادی طور پر ’چار روٹس‘ بھی تشکیل دیئے گئے ہیں جن کی درجہ بندی انگریزی حروف تہجی ’اے‘ بی اُور سی‘ سے کرتے ہوئے ’اے‘ نامی ’’روٹ پرمٹ‘‘ اُن گاڑیوں کو دیئے جاتے ہیں جن کی رجسٹریشن کی تاریخ 9 سال تک ہو۔ ’بی‘ نامی روٹ پرمٹ 11 سال تک کی رجسٹریشن رکھنے والی گاڑیوں جبکہ ’سی‘ نامی کٹیگری کے لئے ’عمر کی کوئی قید نہیں‘ بس گاڑی کا فٹ (fit) ہونا ضروری ہے اور یہ روٹ پرمٹ عموماً دیہی علاقوں کے درمیان چلنے والی گاڑیوں کو جاری کئے جاتے ہیں! 

’آر ٹی اے‘ افرادی قوت اور مالی وسائل نہیں رکھتی اُور اُسے زیادہ کرائے وصول کرنے اور گنجائش سے زیادہ مسافروں جیسی شکایت سے نمٹنے کے لئے ٹریفک پولیس کے تعاون ضرورت پڑتی ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی ایک بھی ایسا محکمہ نہیں کہ جسے ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے جڑے مسائل کے لئے ذمہ دار (قصوروار) قرار دیا جائے! جس سے بات کرو‘ وہ خود کو ’’بری الذمہ‘‘ قرار دیتا ہے! 

پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے شکایات کے بارے میں ’ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی پشاور‘ کے ذمہ دار (سیکرٹری محمد ندیم اختر) کہتے ہیں کہ ’’اُن کے پاس قانون و قواعد کے اطلاق کے لئے درکار افرادی قوت اور مالی وسائل کی کمی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے ناموں کی جانچ پڑتال کے لئے تین افراد پر مشتمل ٹیم دفتری اوقات مخصوص ہے جس کی 23 مقامات پر بیک وقت موجودگی ممکن نہیں۔ ’آر ٹی اَے‘ حکام ’ٹریفک پولیس‘ کے محتاج رہتے ہیں‘ جن کی افرادی قوت کے ساتھ مل کر گشتی ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ (اِکا دُکا) گاڑیوں کو روک کر مسافروں سے استفسار کیا جاتا ہے اور زائد کرایہ وصول کرنے والے ڈرائیوروں کو جرمانہ کرنے کے علاؤہ اضافی کرایہ واپس دلایا جاتا ہے۔‘‘ 

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جن بس اڈوں میں کھلے عام اضافی کرایہ وصول کیا جاتا ہے اور جہاں سے ’لوڈ‘ ہو کر گاڑیاں نکلتی ہیں وہاں ’آرٹی اے‘ حکام کی موجودگی دکھائی نہیں دیتی‘ حالانکہ سڑکوں کی خاک چھان کی بجائے کرائے ناموں پر حسب شرح کا اطلاق اور عملاً قواعد پر باآسانی عمل درآمد بس ٹرمینلز میں ممکن ہے! یہ امر قطعی تعجب خیز نہیں ہوگا کہ پشاور سمیت ہر ضلع میں ’آر ٹی اے‘ اہلکار اور نجی ٹرانسپورٹرز کی ملی بھگت سے عام آدمی (ہم عوام) کو لوٹنے کا سلسلہ تحریک انصاف کے موجودہ دور حکومت میں بھی پوری ’سینہ زوری‘ سے جاری ہے۔ 

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک سے درخواست ہے کہ وہ مقامی‘ بین الاضلاعی اور بین الصوبائی روٹس پر ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے متعلقہ عام آدمی (ہم عوام) کے مسائل و مشکلات جاننے کے لئے ’ہیلپ لائن‘ قائم کریں‘ جس میں فون کال‘ واٹس ایپ اُور ٹوئٹر کے ذریعے شکایت درج کرنے کی سہولت ہونی چاہئے۔ فوری طور پر ’بس ٹرمینلز‘ میں کمپیوٹرائزڈ ٹکٹوں کے اجرأ (ٹکٹ گھروں کے قیام) کا حکم دیں اور ہر روٹ پر مسافر گاڑیوں کی فرنٹ سکرین پر ایسے اسٹکرز چسپاں کروائیں جن میں گاڑی کی کٹیگری‘ روٹ کی نشاندہی‘ فی نشست کرایہ اور زیادہ سے زیادہ مسافروں کی تعداد (حسب گنجائش) جیسی تفصیلات (معلومات) درج ہو۔
۔
Issues regarding Public Transport on inter-district & inter-provincial routes
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-11-18

No comments:

Post a Comment