Thursday, November 23, 2017

Nov 2017: Motor Vehicle Laws & the dark areas!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
قوت فیصلہ کا فقدان!
قوانین کی کمی نہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمین کا قحط ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک قانون اور اُسے لاگو کرنے کے لئے ضمنی قواعد و ضوابط (رولز) موجود ہیں‘ جن پر عمل درآمد کرنے والے ادارے‘ وزیر‘ مشیر‘ سیکرٹری سے لیکر درجہ چہارم ملازمین تک تنخواہیں اور مراعات باقاعدگی سے وصول کرنے والے ملازمین کی ’فوج ظفر موج‘ موجود (اور سرکاری خزانے پر بوجھ) ہے لیکن اگر کسی ایک بنیادی چیز کا خسارہ ہے تو وہ ہے کارکردگی کا۔ 

قوانین کو عام آدمی (ہم عوام) کے حق میں مفید بنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ قوانین و ضوابط کا اطلاق بلاامتیاز نہیں ہو رہا بلکہ ایک ایسا شعبہ بھی ہے جس میں تبدیلی نہیں آئی اور وہاں ماضی کی طرح آج بھی مخصوص انداز میں محدود پیمانے پر قوانین و قواعد کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ کم سے کم ایک ایسا صوبائی محکمہ بھی ہے جس کی ہمدردیاں عوام کی بجائے تجارتی اور کاروباری طبقات کے مفادات کا تحفظ (احاطہ) کرتی ہیں! اِس سلسلے میں نہایت ہی عمدہ مثال خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں فعال ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کے ’بے ہنگم نظام‘ کی دی جا سکتی ہے‘ جس سے متعلق قانون اگرچہ ’’52 سال اور 5 ماہ‘‘ قدیم ہے لیکن اِس پر جدید مواصلاتی وسائل متعارف ہونے کے بعد‘ سے نظرثانی کی ضرورت ’’شدت سے محسوس‘‘ ہونے کے باوجود بھی قانون سازوں اور فیصلہ سازوں کی توجہ اگر مرکوز نہیں تو اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اِن میں سے کوئی بھی نہ تو خود اور نہ ہی اُن کے اہل وعیال پبلک ٹرانسپورٹ استفادہ نہیں کرتا۔ المیہ ہے کہ سیاسی اور غیرسیاسی فیصلہ سازوں اور عوام کے رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن حیرت اُس بیوروکریسی پر بھی ہے جو متوسط طبقات سے اپنے تعلق کو اُس وقت بھول جاتی ہے جب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتی ہے۔ عام آدمی (ہم عوام) کی پبلک ٹرانسپورٹ سے جڑی مشکلات اور شکایات قانون سازی سے لیکر قانون کے اطلاق تک کثیرالجہتی ہیں۔

صوبائی (خیبرپختونخوا) موٹر وہیکل آرڈیننس (148 صفحات) ’’8 جون 1965ء‘‘ جبکہ صوبائی موٹروہیکل رولز (20 صفحات) ’’3 نومبر 1969ء‘‘ سے لاگو ہیں اُور نجی شعبے کی ملکیت ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ پابند ہے کہ وہ انہی دو قوانین و قواعد کے تحت کسی ضلع میں مقامی‘ بین الاضلاعی یا بین الصوبائی (طے شدہ راستوں) روٹس پر مسافر گاڑیاں چلائیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی ہر مسافر گاڑی کے لئے لازم ہے کہ وہ روڈ پر آنے سے پہلے ’فٹنس سرٹیفکیٹ‘ حاصل کرے جس کا ’موٹروہیکل آرڈیننس‘ میں ’29 مقامات‘ پر ذکر ملتا ہے لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے زیراستعمال گاڑیوں (مسافر بسوں‘ وینز‘ ویگنز‘ منی بسوں‘ ہائی ایس‘ کوسٹرز وغیرہ) میں سفر کرنے کا عملی تجربہ رکھنے والے ’تحصیل یافتگان‘ سے پوچھیں کہ یہ گاڑیاں کتنی ’فٹ (موزوں)‘ ہیں۔ قانون میں انگریزی زبان کے لفظ (اصطلاح) ’فٹ (Fit)‘ استعمال کیا گیا ہے جن کے مطالب میں ’’مناسب‘ موافق‘ جچنا اور سائز ٹھیک ہونا‘‘ بھی شامل ہیں۔ کسی گاڑی کا صرف انجن ہی نہیں بلکہ اُس کی ظاہری داخلی و بیرونی حالت کا بھی اِسی زمرے میں شمار ہوتی ہے۔ 

موٹروہیکل آرڈیننس کے تحت جن تین درجات میں گاڑیوں کے پرمٹ (اجازت نامے) جاری کئے جاتے ہیں‘ وہ گاڑی کی فٹنس (fitness) سے مشروط ہوتے ہیں۔ فٹنس سرٹیفکیٹ ہر ضلع میں ’موٹر وہیکل ایگزیمینر (Examiner)‘ جاری کرتا ہے۔ رولز کے تحت موٹروہیکل ایگزیمنر کا مطلب وہ آفیسر ہوتا ہے جس کی تقرری (اپوئٹمنٹ) انسپکٹر جنرل پولیس رول نمبر 35کے تحت کرتا ہے۔ اِس اہم عہدے پر تعینات ہونے والے شخص کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بیس صفحات پر مشتمل رولز میں ایگزیمینر کا ذکر 23 مقامات پر کیا گیا ہے لیکن کسی ایک ڈویژن میں ایک شخص (ایگزیمینر) کس طرح ہزاروں کی تعداد میں گاڑیوں کی فٹنس کس طرح عملاً ممکن بنا سکتا ہے!؟

پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں کی عمومی ظاہری و ٹیکنیکل (چال چلن کی) ’فٹنس‘ اور اِس ’فٹنس کا معیار‘ بلند رکھنے کے لئے قانون تو موجود ہے لیکن اِس پر خاطرخواہ انداز میں عمل درآمد نہیں ہورہا۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا جب کبھی فرصت پائیں تو قریب ترین جنرل بس اسٹینڈ سے بین الاضلاعی و صوبائی روٹس پر چلنے والی گاڑیوں کا ظاہری معائنہ اور چند کلومیٹر سفر کریں تو اُنہیں اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح روڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی سے لیکر ضلعی حکومتوں تک ہر حکومتی ادارہ اپنی ذمہ داری دوسرے کے کندھوں پر ڈال رہا ہے اور کس طرح نجی ملکیت میں فعال ٹرانسپورٹ نہ صرف شرح کرایوں میں من مانی کرتی ہے بلکہ ’اَن فٹ‘ گاڑیاں اور بناء لائسینس ڈرائیورز کی اکثریت عوام کی جان سے کھیل رہے ہیں۔ بارِدیگر تجویز ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے الیکٹرانک ٹکٹ گھر بنائے جائیں تاکہ اضافی شرح کرایہ وصول کرنے کی روک تھام ہو سکے۔ مذکورہ گاڑیوں کی ’فرنٹ اسکرین‘ پر گاڑی کا مقررہ روٹ‘ ڈرائیور کا نام‘ فٹنس لائسینس کی تفصیل اُور مسافر نشستوں کی کل تعداد درج ہونی چاہئے اور گاڑی کے روانہ ہونے سے قبل مسافروں کی جامہ اور ہمراہ سامان کی تلاشی ہونی چاہئے۔ 

صاف دکھائی دے رہا ہے اور اِس بارے سنجیدگی سے تحقیق ہونی چاہئے کہ بین الاضلاعی اور بین الصوبائی روٹس پر چلنے والی ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کا استعمال غیرقانونی سرگرمیوں میں ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ کاروبار انتہائی منافع بخش ہونے کے ساتھ ایک ایسا مافیا بن چکا ہے کہ اِس میں چند معروف اداروں کے نئی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ صوبائی حکومت ’’پبلک ٹرائیویٹ پارٹنرشپ‘‘ کے تحت ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع متعارف کروا سکتی ہے۔ توجہ مبذول رہے کہ جہاں قوانین و قواعد پر بلاامتیاز اور خاطرخواہ عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ 

متعلقہ حکومتی ادارے کے درجہ بہ درجہ اہلکار مستفید ہو رہے ہیں جنہوں نے ذاتی مفادات کے لئے آنکھیں موند رکھی ہیں! جس کے باعث پاک افغان تجارتی معاہدے کے تحت غیرقانونی درآمدی اشیاء بالخصوص پارچہ جات‘ نئے و استعمال شدہ الیکٹرانک سازوسامان‘ گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات اور منشیات کی اسمگلنگ بذریعہ پبلک ٹرانسپورٹ ہونے میں تعجب و حیرت کا اظہار کیسا!؟
۔
Provincial (KP) Motor Vehicle Ordinance 1965 need an overview
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2017-11-23

No comments:

Post a Comment