Friday, November 24, 2017

Nov 2017: Grey areas of the KP's "Claim Tribunal."

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کلیم ٹربیونل!؟
خیبرپختونخوا میں ’موٹروہیکل آرڈیننس‘ کے تحت ٹریفک حادثہ کا شکار ہونے والی‘ ایک خاتون جو کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہی تھی کو 70 ہزار روپے نقد ادا کئے گئے ہیں۔ یہ اَدائیگی 148 صفحات پر مشتمل متعلقہ قانون میں کم سے کم 23 مقامات پر مذکور ’کلیم ٹربیونل‘ کے تحت عمل میں آئی ہے‘ جسے صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فعال کیا گیا ہے۔ کسی قانون کو ’سرد خانے‘ سے نکالنے کی اِس عملی مثال کی جس قدر بھی تعریف کی جائے کم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ایسا قانون جس کی موجودگی کے بارے خود متعلقہ محکمے اور وزارت کی اکثریت کو بھی علم نہیں تھا وہ اچانک فعال کیسے ہوگیا اور اُس کی فعالیت کی اطلاع پشاور سے لاہور سفر کرنے والی ایک مسافر خواتین تک کیسے جا پہنچی جس نے 90 روز کے اندر خود سے پیش آنے والے حادثے کے لئے صوبائی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا اور ستر ہزار روپے نقد وصول کئے۔ 

مذکورہ قانون کے تحت پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والا کوئی بھی مسافر (خدانخواستہ) حادثے کی صورت میں تین لاکھ روپے تک کا تاوان طلب کر سکتا ہے اور صوبائی حکومت یہ معاوضہ ادا کرنے کی پابند ہوگی۔
اٹھارہ نومبر کو ’’چوری: سینہ زوری!‘‘ اور تیئس نومبر کے روز (روزنامہ آج کے ادارتی صفحات پر) شائع ہونے والے کالم بعنوان ’’قوت فیصلہ کا فقدان!‘‘کے تحت ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے جڑے عوامی مسائل کی مرحلہ وار نشاندہی کرنے کے سلسلے کی یہ تیسری کڑی ہے جس میں اُس قانون اور قواعد سے متعلق موضوع زیربحث ہے‘ جس کا تعلق خیبرپختونخوا کی اکثریت سے ہے لیکن اِسے ’نجی کاروباری طبقے‘ کے مفاد کے لئے سردخانے کی نذر کردیا گیا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ پر نجی شعبے کی اجارہ داری (تسلط) کے پیچھے کئی کردار کارفرما ہیں‘ جن میں قانون سازی اور فیصلہ سازی کے منصب پر فائز سرکاری اہلکار شامل ہیں اور سبھی نے ذاتی مالی مفادات کے لئے عام آدمی کی زندگی کو ایک مستقل (ذلت بھرے) عذاب سے دوچار رکھا ہے‘ جس کی اصلاح ’تبدیلی لانے والوں‘ کے لئے کھلا چیلنج ہے۔

’قانونی اصطلاحات کی لغت (ڈکشنری)‘ (مطبوعہ دوہزار تین‘ علمی کتب خانہ لاہور) میں ’’کلیم (Claim)‘‘ کا لغوی مطلب ’دعویٰ کرنا۔ حق جتانا‘ تحریر ہے۔ اِسی اصطلاح کی ضمن میں 12 دیگر اصلاحات کے معانی و تفصیلات درج ہیں لیکن ’کلیم ٹربیونل‘ کا ذکر نہیں کیونکہ ’موٹروہیکل قانون‘ کی یہ اِصطلاح مذکورہ قانون کے اندر ہی دفن رکھا گیا۔ قانون دانوں کے لئے ’کلیم‘ اور ’ٹربیونل‘ الگ الگ اصطلاحات ہیں اور جب ’کلیم ٹربیونل‘ سے متعلق یکجا کر کے پوچھا جاتا ہے تو اعتراف کرتے ہیں کہ ’’وہ نہیں جانتے‘‘ کہ ۔۔۔ ’خیبرپختونخوا کے موٹروہیکل آرڈیننس 1965ء‘ کی 67ویں شق اے کی ذیل میں اِس بارے تفصیلات موجود ہیں۔ مقام حیرت ہے کہ مذکورہ قانون کی 67-D‘ ذیلی شق 3 میں یہاں تک تحریر ہے کہ ۔۔۔ ’’کلیم ٹربیونل‘ کو ’سول کورٹ‘ کے مساوی اختیارات حاصل ہوں گے۔ جن کا استعمال کرتے ہوئے وہ کسی حادثے سے متعلق عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کرنے کا اختیار رکھے گی۔ اِس بات کو قانوناً ممکن بنائے گی کہ عینی شاہدین عدالت سے تعاون کریں اور وہ تمام متعلقہ شواہد و ثبوت عدالت کے روبرو پیش کریں جن کا تعلق متعلقہ ٹریفک حادثے سے ہو۔‘‘

سال دوہزار گیارہ میں پولیس سے بہ عہدہ ’ڈی پی اُو (تیمرگرہ‘ لوئر دیر)‘ ریٹائر ہونے والے ممتاز زرین خان کی تمام زندگی (چالیس برس) محکمۂ پولیس میں خدمات سرانجام دیتے گزر گئی۔ وہ ایک فرض شناس آفیسر رہے جنہوں نے خیبرپختونخوا کے شورش زدہ علاقوں میں اپنی تعیناتی کے دوران امن و امان کے پُرخطرحالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا‘ ریاست کی عمل داری بحال رکھی اُور فرائض منصبی کی بجاآوری سے سرکاری وسائل کے امانت و دیانت سے مصرف جیسے کسی بھی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے۔ اِنہیں خدمات کے عوض اُنہیں تمغہ شجاعت اور دو مرتبہ ’قائد اعظم پولیس میڈلز‘ جیسے اِعزازات سے نوازہ جا چکا ہے۔ چالیس سالہ ملازمت کے دوران ممتاز زرین ’’اے ایس آئی‘ ڈی ایس پی اور ایس ایس پی (ہنگو‘ ٹانک‘ بٹ گرام اُور لوئر دیر)‘‘ جیسے کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔ اِس عرصے میں انہوں نے درجنوں ٹریفک حادثات کی بذات خود تفتیش کی یا اُن کی زیرنگرانی ٹریفک حادثات کا تفیشی عمل مکمل ہوا لیکن انہیں ’کلیم ٹربیونل‘ جیسی اصطلاح کا علم نہ ہوسکا۔ پولیس سے ریٹائرمنٹ کے بعد ممتاز زرین نے اپنی تعلیم ’ایل ایل بی‘ کی بنیاد پر بحیثیت وکیل اور پولیس میں ملازمتی تجربے کی بنیاد پر بطور ’چیف سیکورٹی آفیسر‘ اپنی خدمات ایک نجی تعلیمی ادارے کے سپرد کر رکھی ہیں‘ وہ ماضی کی طرح آج بھی ایک فعال اور کامیابی عملی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اُن کی ہمت و مستعدی دیکھ کر رشک آتا ہے کہ وہ کس طرح بعداز ریٹائرمنٹ بھی زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے مختلف کرداروں میں فرائض منصبی اور کلیدی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بطور کانسٹیبل ریٹائرڈ ہونے والے پولیس اہلکار کو ساری زندگی فکر معاش نہیں رہتا اور اُس کی مالی حیثیت اِس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ ’باقی ماندہ زندگی‘ آرام سے بسر کرتا ہے لیکن پینسٹھ سالہ ممتاز زرین کے لئے زندگی ’جہد مسلسل‘ ہے جس کا نصاب صداقت و دیانت کے اصولوں پر مرتب ہے۔ 

ملک کے سیاسی و آئینی حالات پر گہری نظر رکھنے اور وسیع مطالعہ رکھنے والے دُرویش صفت ممتاز زرین سے جب ’کلیم ٹربیونل‘ کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو اُنہوں نے تسلیم کیا کہ ایسے کسی قانون کے بارے میں ’’نہیں جانتے‘‘ اور نہ ہی بطور پولیس آفیسر (چالیس سالہ عملی) زندگی میں اُن کا واسطہ کسی ’کلیم ٹربیونل‘ سے پڑا۔ نہ ہی کسی سرکاری محکمے کی جانب سے اُنہیں ’کلیم ٹربیونل‘ کے بارے میں بریفنگ دی گئی یا اجلاس طلب کیا گیا یا اِس بارے تحریری و زبانی کلامی معلومات فراہم کی گئیں ہیں۔ اگر تمام زندگی پولیس اور ریٹائرمنٹ کے بعد عملاً وکلالت کرنے والے ’ممتاز زرین‘ جیسے فعال شخص کو ’کلیم ٹربیونل‘ کی موجودگی کا علم نہیں‘ تو ایسے کسی قانون کے بارے میں کسی عام آدمی (ہم عوام) کی معلومات بارے اندازہ لگانا قطعی دشوار نہیں۔

المیہ یہ ہے کہ قوانین کتابوں میں دفن ہیں۔ سرکاری محکمے قوانین کے زور پر اپنی دھونس برقرار رکھے ہوئے ہیں اور انہی قوانین کی وجہ سے دھاندلی (کرپشن) بھی عام ہے۔ اگر عام آدمی (ہم عوام) کو قوانین کے بارے علم ہوجائے تو اِس کا مطلب ہوگا کہ ہمیں اپنے حقوق اور سرکاری محکموں کی جملہ ذمہ داریاں معلوم ہو جائیں گی اور جب ذمہ داریاں معلوم ہوں گی تو کارکردگی کے بارے سوال اٹھاے (پوچھے) جائیں اور یہی وجہ مرحلہ ہے کہ سرکاری اعلیٰ و ادنی ملازمین (افسرشاہی)‘ قانون سازایوانوں کے اراکین (سیاست دان) نہیں چاہتے کہ عوام کے منہ میں زبان آئے اُور وہ کلام کر سکیں!
۔
Under the KP's Provincial Motor Vehicle Ordinance 1965,
the claim tribunal has been activated but the law needs to be
propagate and amend
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2017-11-24

No comments:

Post a Comment