ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تیر نیم کش!
’پندرہ دسمبر دوہزار پندرہ‘ میں ’اِکتالیس اسلامی ممالک (افغانستان‘ بحرین‘ بنگلہ دیش‘ بینن‘ برونائی‘ برکینا فاسو‘ چاڈ‘ کومورس‘ کوتے ڈی لوویر‘ جبوتی‘ مصر‘ گابون‘ گمبیا‘ گونیا‘ کونیا باسو‘ اردن‘ کویت‘ لبنان‘ لیبیا‘ ملائشیا‘ مالدیپ‘ مالی‘ مارتنیا‘ مراکش‘ نائجیر‘ نائیجیریا‘ عمان‘ پاکستان‘ فلسطین‘ قطر‘ سعودی عرب‘ سینیگال‘ سری لیون‘ صومالیہ‘ سوڈان‘ توگو‘ تیونسیا‘ ترکی‘ یوگینڈا‘ متحدہ عرب امارات اُور یمن) کی جانب سے ’عسکری اِتحاد‘ کے قیام پر اتفاق ہوا‘ جس کی قیادت ’پاک فوج‘ کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو سپرد کی گئی تو اِس پاکستان نے اپنے لئے اعزاز قرار دیا۔ آج (چھبیس نومبر) کے روز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض (Riyadh) میں ’عسکری اِتحاد‘ کے رکن ممالک بشمول پاکستان سے وزیردفاع کی سربراہی میں نمائندہ وفود شریک ہو رہے ہیں تاکہ مستقبل قریب میں اِس اتحاد سے کام لیا جا سکے جو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خرید کر مسلح ہو چکا ہے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مشرق وسطیٰ نے مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد ’نیٹو (NATO)‘ کی طرز پر تنظیم قائم کی ہے لیکن اِس کے اہداف اور مقاصد ابھی تک واضح نہیں ہو سکے ہیں۔
اسلامی ممالک کے اِس عسکری اتحاد کے قیام کا بنیادی مقصد ہم خیال ممالک کے درمیان دہشت گردی کے خلاف مشترکات کی تلاش ہے تاکہ کسی مشترک دشمن و ہدف (دہشت گردی) کا متحد ہو کر مقابلہ کیا جا سکے۔ اِس مقصد کے لئے رکن ممالک کو ایک دوسرے سے نہ صرف خفیہ معلومات کا تبادلہ کرنے پر رضامند ہونا پڑے گا بلکہ سعودی عرب کے بادشاہ کی بلاشرکت غیرے قیادت بھی تسلیم کرنا پڑے گی اور سعودی عرب کی نظر میں جو بھی دہشت گرد ہوگا‘ وہی اکتالیس رکن ممالک کی نظر میں بھی ممکنہ اور موجود خطرے کی علامت (مشترکہ ہدف) سمجھا جائے گا۔ مذکورہ عسکری اتحاد کی جانب سے وضاحت میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں دہشت گردی کے خلاف دیگر اتحادوں کی طرح یہ بھی ایک قسم کا فوجی اتحاد ہی ہے‘ اِس بیان کادرپردہ مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ مغربی دنیا بالخصوص اسرائیل کو یقین دلایا جائے کہ وہ چاہے کسی بھی مسلم ملک پر فوج کشی کریں یا الزامات لگانے میں جس انتہاء تک بھی جائیں‘ اِس اتحاد کے اسلحے کا رخ اُن کی جانب نہیں ہوگا۔
اکتالیس اسلامی ممالک کا اتحاد درحقیقت بادشاہتوں اور اقتدار پر قابض شاہی خاندانوں کے تسلط کو برقرار رکھنا اُور مستقبل میں اگر بالخصوص عرب ممالک کے عوام شاہی اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو اُنہیں دہشت گرد قرار دے کر کچلنے کا جواز فراہم کرے گا۔ توقع ہے کہ عسکری اتحاد کے پہلے اجلاس میں وہ لائحہ عمل بھی ترتیب دیا جائے گا جس کا پوری دنیا کو انتظار ہے۔ علاؤہ ازیں اِس عسکری اتحاد آپریشن کمانڈ‘ فعالیت اور ممالک کی حصہ داری بارے حساس معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے کی راہ میں کوئی اختلافی نکتہ (رکاوٹ بظاہر) حائل نہیں! مذکورہ عسکری اتحاد کے رکن ممالک کے تحفظات موجود ہیں کیونکہ تشکیل سے لیکر اِس دوسال کے دوران اِن ممالک کو خود بھی علم نہیں کہ اِس پوری کوشش کا اصل (درپردہ) مقصد کیا ہے۔
’’میرسپاہ ناسزا‘ لشکریاں شکستہ صف ۔۔۔
آہ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف (علامہ اقبالؒ )‘‘
سعودی عرب میں طلب کئے گئے ’اِسلامی اِنسداد دہشت گردی فوجی اِتحاد‘ کے سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کی تقرری‘ پاکستان کی پارلیمانی سیاسی جماعتوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے لئے ناقابل ہضم ہے کہ وہ پاکستان کا نام کسی ایسے دفاعی اِتحاد سے منسلک دیکھے جو ایک خاص اسلامی ملک کی خاص نظریاتی تعلیمات کے تابع ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے پہلے ایسے کسی اِتحاد میں شمولیت سے معذرت کرتے ہوئے اِنکار کیا‘ پھر اقرار کیا اور ایک مرتبہ پھر اِنکار کرتے ہوئے ’ہاں میں ہاں‘ ملا دی ہے۔
جنرل راحیل شریف اِس بارے میں کہہ چکے ہیں کہ ’’میں پوری دیانتداری سے اِس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ‘ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی حکمت عملی کے کئی پہلو دنیا بھر میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں آزمائے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر وہ ممالک جو عملی طور پر دہشت گردی کے خلاف نبردآزما ہیں۔ میں یہ بات واضح کرناچاہتا ہوں کہ اِتحاد اِنسداد دہشت گردی کے لئے ہے اور یہ کسی ملک‘ فرقے یا مذہب کے خلاف نہیں۔‘‘ لیکن یہ ’’معلوم تعریف‘‘ اُور تعارف کم سے کم پیپلزپارٹی کے لئے قابل قبول نہیں۔
چوبیس نومبر کو ایوان بالا (سینیٹ) اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ’سینیٹر فرحت اللہ بابر‘ نے کہا کہ ’’اِس فوجی اتحاد کے دائرہ کار اور مستقبل کے منصوبوں پر کئی سوالات ہنوز جواب طلب ہیں۔ اِس لئے (سعودی عرب فوجی اتحاد کے پہلے اجلاس میں شرکت کے لئے جانے والے) پاکستانی وزیردفاع سعودی عرب سے کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے پہلے اِس قانون ساز ایوان (سینیٹ کو ’’ضرور بالضرور‘‘ اعتماد میں لیں۔ فرحت اللہ بابر کا سینیٹ سے خطاب قومی نشریاتی رابطے کے ذریعے براہ راست دیکھا گیا اور یوں محسوس ہوا‘ جیسے ’ذوالفقار علی بھٹو‘ بول رہے ہوں۔ وہ گرجدار آواز میں اسپیکر (رضا ربانی) کی آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر کہہ رہے تھے اور بارہا تائید میں اسپیکر کی گردن ہلنے کے مناظر بھی دنیا نے دیکھے کہ اِس منطقی دلیل اور حقیقت حال سے اختلاف آسان نہیں۔
افغان جنگ کے بعد پاکستان کسی بھی ایسی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا جو اُس پر مسلط کی جائے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا جو لفظ بہ لفظ کچھ یوں تھے کہ ’’مذکورہ اسلامی اتحاد کے نتائج انتہائی دور رس ہیں‘ کیونکہ اب اِس اتحاد کی حکمت عملی طے ہوگی؟ فیصلوں کااختیار کسے ہوگا؟ اس عسکری اتحاد منجملہ سرگرمیاں اور مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ جناب چیئرمین‘ اِس (معزز) ایوان کی جانب سے یہ بات اُن (سعودی حکمرانوں اُور اتحاد میں شریک ممالک) تک جانی چاہئے کہ جب ہمارا ’وزیردفاع‘ وہاں جائے اور اتنے (اہم) بنیادی مسائل کی وہاں بات ہو رہی ہو تو (پاکستان کی جانب سے تعاون کی کسی بھی یقین دہانی) کمٹمنٹ سے قبل وہ ’پلان‘ جو اِس ایوان کے سامنے رکھا جائے تاکہ بعد میں مشکلات نہ ہوں۔ سعودی عرب ہمارا دوست برادر ملک ہے لیکن جہاں تک (سعودی عرب کے) نظریات کا تعلق ہے‘ جناب چیئرمین‘ میں اِس پر بات کرنا نہیں چاہتا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ (سعودی عرب کی) آئیڈیالوجی سے بھی اُور دہشت گردی کی ’مالی سرپرستی‘ کرنے سے متعلق بھی بڑے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
فرحت اللہ بابر جس باریک نکتے کی جانب سینیٹ اِیوان‘ حکومت اُور پاکستانی قوم کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اُس جانب علامہ اقبالؒ اشارہ کر گئے ہیں‘ صرف غور کرنے اور سمجھنے کی دیر ہے۔ ’’مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی:
اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لاتخف۔۔۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ:
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف!‘‘
۔
![]() |
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-11-26 |
No comments:
Post a Comment