ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
نایاب ہستیاں: حبیب الرحمان!
صدمے کا بیان ممکن نہیں۔ خیبرپختونخوا میں ذمہ دار‘ باکردار اور صحافتی اقدار کو اک نئی شناخت (عروج) سے روشناس کرنے والے (حافظ) حبیب الرحمن ’تیرہ نومبر‘ کے روز خالق حقیقی سے جا ملے جنہیں ’چودہ نومبر‘ کی سہ پہر روالپنڈی میں اپنے والد بزرگوار کے پہلو میں ’سپردخاک‘ کر دیا گیا۔ (اناللہ و انا علیہ راجعون)۔
حبیب الرحمان اپنی ذات میں درسگاہ تھے۔ اُنہوں نے ’پشاور‘ سے محبت کی اور اپنا سب لٹا کر کچھ اِس طرح چلتے بنے کہ جس طرح اُن کی آمد غیرمحسوس رہی لیکن وہ پشاور کی ناگزیر ضرورت بن گئے بالکل اُسی طرح نہایت ہی خاموشی (عجز و انکساری) سے رخصت ہوئے جبکہ پشاور کا ہر صحافی اُن کی خدمات کا معترف اور گواہ ہے کہ وہ کامیاب و کامران رہے۔
تصور کیجئے ایک ایسے شہر کا‘ جہاں کے ’جامعہ پشاور‘میں شعبۂ صحافت (جرنلزم ڈیپارٹمنٹ) کا آغاز 1985ء میں ہوتا ہے لیکن اُس سے ٹھیک بیس برس قبل ایک شخص نہ صرف صحافت کی آبیاری کرتا ہے بلکہ صحافیوں کی بے لوث‘ عملی تربیت کا اپنے علم (نالج) اور کردار (کریکٹر) جیسی صلاحیتوں سے کرتا ہے۔ حبیب صاحب کی خواہش رہی کہ پشاور سے انگریزی زبان کا ایک معیاری روزنامہ شائع ہو سکے۔ ان کی عملاً زیرادارت پشاور کو ایک خصوصی روزنامہ بھی ملا‘ جس کی اہمیت و ضرورت آج بھی محسوس ہو رہی ہے۔
حبیب صاحب غیرمنقسم ہندوستان کے شہر ’انبالا‘ کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے‘ جس کا عکس اُن کی شخصیت سے تمام زندگی چھلکتا رہا۔ اُنہیں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے دوران ہی ادبی سرگرمیوں سے لگاؤ پیدا ہوا ‘ جس میں بالخصوص خطے کی سیاسی صورتحال اور احوال جاننے کے لئے اخبار بینی شامل تھی۔ آپ سات برس کی عمر میں (’تقسیم ہند‘ کے بعد) اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان ہجرت اختیار کرنے کے بعد روال پنڈی پہنچے۔ وہیں میٹرک سے ایم اے (اردو) تک تدریسی درجات طے کرنے کے بعد عملی زندگی کے لئے صحافت کا انتخاب کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اُنہیں اگر زندگی بھر کسی ایک بات کا افسوس رہا تو وہ نجی زندگی کا ایک ایسا تلخ تجربہ تھا‘ جو اگر حسب توقع کامیاب ہو جاتا تو پاکستان بالخصوص پشاور میں اُردو صحافت کا معیار زیادہ بہتر ہوتا۔ حبیب صاحب نے روالپنڈی سے عملی صحافت کا آغاز کیا‘ اور اگست اُنیس سو پینسٹھ میں ’’روزنامہ انجام پشاور‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ یکم اگست 1967ء کو روزنامہ انجام تحلیل ہونے کے بعد آپ ’روزنامہ مشرق‘ کا حصہ بن گئے‘ جہاں 1971ء میں نیوز ایڈیٹر بعدازاں 1989ء میں چیف نیوزایڈیٹر بنے۔ جو ’نیشنل پریس ٹرسٹ‘ کا اخبار تھا تاہم ہر دور کی طرح اُس وقت بھی منافع بخش قومی اداروں اور قومی وسائل پر سیاسی فیصلہ سازوں کی نظریں رہتی تھیں۔ حبیب صاحب نے اخبار بدلا لیکن مقصد و جدوجہد نہیں۔ 1998ء سے 2001ء تک آپ نے روزنامہ میدان کے چیف نیوز ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔ سال 2002ء میں ’روزنامہ آج پشاور‘ سے وابستہ ہوئے اور یہ تعلق تادم آخر سترہ برس تک رہا۔ ایک ’گمنام سپاہی‘ کی طرح آپ اُس ہراول دستے کے قائد رہے جس نے صوبائی اور قومی سطح معاشرے کے ہر محروم طبقے کے لئے آواز اٹھائی۔ آپ پشاور پریس کلب اور خیبریونین آف جرنلسٹس کا حصہ رہے اور اپنی تمام صلاحیتیں ’ذمہ دار اور باوقارصحافت‘ کی ترویج و اشاعت کے لئے بروئے کار لانے میں کبھی بھی مصلحتوں کا شکار (غافل) نہیں پائے گئے۔ آپ نے ہمیشہ اعلیٰ صحافتی اقدار کی نہ صرف تلقین (تعلیم) دی بلکہ عمل سے ثابت بھی کیا کہ ’حق کو کبھی زوال نہیں ہوتا۔‘
دنیا معترف ہے کہ حبیب صاحب نے ذاتی مفادات کو صحافت اور صحافت کو ذاتی مفادات کی راہ میں حائل ہونے نہیں دیا۔آپ نے ہمیشہ غریبوں‘ مظلوموں‘ کسانوں‘ کاشتکاروں اور پاکستان میں جمہوریت کی بقاء اور ترقی کے لئے جدوجہد کرنے والی تحریکوں کے شانہ بشانہ اپنے قلم اور صحافتی علوم کے بہترین استعمال سے جہاد (جدوجہد) کی۔
خیبرپختونخوا‘ اور بالخصوص پشاور کی صحافتی برادری مرحوم و مغفور جناب حبیب الرحمن صاحب کے انتقال پر سوگوار‘ مغموم اور اگر صدمے کی کیفیت سے گزر رہی ہے تو یہ اُن کی شخصیت کے لئے خراج عقیدت بھی ہے جس کے سامنے حکومتی اعزازات کی کوئی وقعت نہیں۔ حبیب صاحب نے صحافت کو نہ صرف اپنے بچوں کی طرح پورے خلوص سے پروان چڑھایا بلکہ اُنہوں نے تمام زندگی اِس کی تعلیم و تربیت کا بھی بطورخاص اہتمام رکھا اُور یہی وجہ ہے کہ آج اُن کے شاگردوں کی ایک تعداد عملی صحافت (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) سے وابستہ ہونے کے ساتھ درس و تدریس کے شعبے میں بھی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ وہ موقع پرست (حادثاتی) صحافی نہیں بلکہ ’فطری اور فکری تحریک‘ کے تحت اُس پیغمبرانہ پیشے (امربالمعروف و نہی عن المنکر) سے وابستہ ہوئے جس کی اصطلاح آسمانی صحفیوں سے ماخوذ ہے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ خطۂ پشاور میں اُردو صحافت میں زبان اور اِس کی مزاج شناسی کی روایت کا آغاز حبیب صاحب سے ہوا‘ تو غلط نہیں ہوگا۔ انہوں نے کبھی بھی صحافتی اصولوں پر ’سودے بازی‘ نہیں کی اور کامیاب رہے۔ یہی اُن کا طرۂ امتیاز رہا اُور اُن کی تربیت سے فیض یاب بطور طالب علم گواہی دیتا ہوں کہ وہ انتہاء درجے کے نفیس‘ بااخلاق اور صوم و صلوۃ کے پابند رہے۔ اُنہوں نے نماز قائم کی اور صحافت کو ملازمت کا ذریعہ نہیں بلکہ عبادت سمجھا۔ اے کاش پشاور نے حبیب صاحب کی قدردانی کی ہوتی تو جس لمحے اَبرآلود آسمان تلے ’جامعہ پشاور‘ کے ہاکی گراؤنڈ سے اُن کا جسد خاکی اُٹھایا جا رہا تھا تو کندھا دینے والوں میں اکثریت صحافیوں کی ہوتی لیکن جن ’پتھروں کو تراشنے اور دھڑکنیں دینے‘ میں اُنہوں نے اپنی پوری زندگی بسر کر دی‘ اُنہیں کی بڑی تعداد کو اتنی فرصت بھی ملی کہ حبیب صاحب کو پشاور سے الوداع کرنے کی زحمت کرتے!
حبیب صاحب کی خاطرخواہ قدردانی کی گئی ہوتی تو پشاور کے صحافی اصرار کر کے اُنہیں ’پشاور پریس کلب‘ ہی میں سپردخاک کرتے کہ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے آنے والے نے اگر شعوری طور پر ’’پشاور کا انتخاب‘‘ کیا تھااور اپنی زندگی کے پچاس برس (اگست 1965ء سے نومبر 2017ء) بطور معلم پشاور کو دیئے تھے تو کم سے کم اتنا حق تو بنتا تھا کہ انہیں چندگز زمین ہی نذر کی جاتی۔حسب حال قدردانی ہوتی‘ تو حبیب صاحب کی ’نماز جنازہ‘ پشاور پریس کلب میں ادا کی جاتی‘ جس کے لئے اُن کی خدمات کا شمار ممکن نہیں۔
حبیب صاحب کی کم سے کم قدردانی یہ بھی ہو سکتی تھیکہ اُنہیں پشاور میں سپردخاک کرکے روک لیا جاتا اور وہ پشاور سے یوں رخصت نہ ہوتے کہ اب پھر کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے۔
’’تالمحۂ گزشتہ یہ جسم اُور سائے
No comments:
Post a Comment