Monday, November 13, 2017

Nov 2017: The colors of Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
رنگ باتیں کریں!
جس زوایئے اُور جس کسی بھی پہلو سے جائزہ لیا جائے‘ پشاور ’عالم میں انتخاب‘ ہی رہے گا۔ یہاں کے رہن سہن اور فن تعمیر کی ایک سے بڑھ کر ایک خوبی نمایاں دکھائی دے گی بس دیکھنے والی آنکھ چاہئے۔ ’’عقل گو آستاں سے دور نہیں: اِس کی تقدیر میں حضور نہیں ۔۔۔ دل بینا بھی کر خدا سے طلب: آنکھ کا نور دل کا نور نہیں! (علامہ اقبالؒ )‘‘ ایسے ہی بینا‘ صاحب فن‘ علی ساجد نے ’واٹر کلرز‘ اور دیگر رنگوں کے استعمال سے پشاور کی بخوبی عکاسی کرتے ہوئے وہ قرض اَدا کیا ہے‘ جو‘ ہر پشاوری پر واجب ہے۔ علی ساجد کے فن پاروں اور مہارت کو عالمی سطح پر سراہا جا چکا ہے جنہوں نے ’واٹرکلر‘ جیسے مشکل اسلوب اور پھیکے رنگوں کے ذریعے بھی پشاور کی چاشنی (زندگی) کو بخوبی پیش کیا ہے۔ 

واٹرکلرز کے ذریعے مصوری کے علوم سے آشنا جانتے ہیں کہ اِس عشق میں کتنا سیاحت (محنت) کرنا پڑتی ہے۔ علی ساجد پشاور کا ایسا پہلا (واحد) نام نہیں جنہوں نے ’واٹرکلرز‘ کے ذریعے ’پشاور کو بیان‘ کیا ہو بلکہ اِن سے قبل (میڈم) طیبہ عزیز اور ڈاکٹر غلام شبیر کے علاؤہ کئی مصور یہاں کی زندگی کے بارے اپنی اپنی مہارت (ٹیلنٹ) کا بیان کر چکے ہیں جن میں ’ملٹی ٹیلنٹینڈ‘ ڈاکٹر سیّد امجد حسین بھی شامل ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پشاور کو ’محبوب نظروں‘ سے دیکھنے والے کو ہر دور میں اعزازات سے نوازہ گیا ہے۔ ’علی ساجد‘ نے ’واٹرکلرز‘ کے مشکل اور قدرے غیرمقبول ’طرز مصوری‘ کا انتخاب کرتے ہوئے جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین زندگی تاریخی شہر کو ایک نئے تعارف سے روشناس کیا تو انہیں بھی عالمی سطح پر ’پشاور شناساسی‘ اور ’پشاور آشنائی‘ جیسے موضوعات کی بنیاد پر پذیرائی ملی یقیناًاُن کی پیروی کرتے ہوئے نوجوان نسل بھی پشاور کو اپنی سوچ کے حصار میں لے گی اور پشاور کے قوس قزح (خوبیوں) میں شامل ہر رنگ کو مختلف پہلوؤں سے روشناس کیا جائے گا۔

’انٹرنیشنل واٹرکلر سوسائٹی‘ نامی تنظیم کے تحت حال ہی میں عالمی مقابلے کا انعقاد ہوا‘ جس میں علی ساجد کے ’’دی گولڈن لائٹ ‘‘ نامی فن پارے کو انعام سے نوازہ گیا۔ اِس مقابلے میں 50 ممالک سے تعلق رکھنے والے قریب 500 مصوروں نے حصہ لیا لیکن فیصلہ سازوں کی ’نظرانتخاب‘ پشاور پر جا ٹھہری جس کے معروف تجارتی مرکز ’نمک منڈی بازار‘ کے اُس وقت کی عکاسی کی گئی‘ جب الصبح سورج کی سنہری کرنیں یہاں کی جادوئی زندگی کی کشش میں اضافے کا باعث بنتی ہیں! علی ساجد ایک دہائی سے زائد عرصے سے ’واٹرکلرز‘ کے ذریعے اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کر رہے ہیں اور اِس عرصہ میں انہوں نے مصوری کے قریب سبھی معلوم طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے قدیمی شہر اور یہاں کی بودوباش کو نئے (منفرد) حوالے سے محفوظ بنانے (پیش کرنے) کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ اُن کے فن پاروں میں پرہجوم بازار بھی دکھائی دیتے ہیں اور ’ژرف نگاہی‘ سے لکڑی کے استعمال سے بنی ہوئی عمارتوں کے اُن حصوں کو بالخصوص موضوع بنایا گیا ہے جن کے رنگ وقت گزرنے کے ساتھ تحلیل ہو رہے ہیں! 

اندرون پشاور ایسی قدیم عمارتوں کی تعداد ہر گزرتے دن کم ہو رہی ہے‘ جو کبھی پشاور کا مقبول فن تعمیر اور یہاں کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ سیمنٹ‘ سریا‘ ریت‘ بجری اور اینٹوں کی مدد سے ’کثیرالمنزلہ عمارتوں‘ کی تعداد میں مسلسل اِضافہ ہو رہا ہے لیکن اَندرون شہر کی پرانی (قدیمی) عمارتیں آج بھی پشاور کی ’سیاحتی کشش‘ کا حصہ ہیں‘ جن کا وجود اگر تادیر قائم نہ بھی رہے لیکن ’فن مصوری‘ اُور ’فوٹوگرافی‘ کے ذریعے اِنہیں (کم سے کم) آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ ضرور کیا جاسکتا ہے جن کے ذریعے پشاور کے بارے میں تصور باندھنا آسان ہو جائے گا۔ وہ سبھی نوجوان جو ڈیجیٹل ایمجنگ (Digital Imaging) سے واقف ہیں یا عکاسی کے لئے ڈیجیٹل کیمرہ یا عکاسی کی سہولت سے لیس ’سمارٹ موبائل فون‘ استعمال کرتے ہیں اُنہیں اپنا کچھ نہ کچھ وقت اُور توانائیاں (وسائل) ’پشاور‘ کے لئے ضرور وقف کرنی چاہیءں۔ اِس سلسلے میں پندرہ ابواب (ضمنی موضوعات) میں تقسیم پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ’راسٹیس لیو کیک (Rastislav Lukac)‘ کی Perceptual Digital Imaging: Methods and Applications نامی جامع کتاب سے بطورِ خاص رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے‘ جو اپنی جگہ اہم اور نہایت ہی محنت سے مرتب کی گئی ہے۔اُمید کی جاسکتی ہے کہ بالخصوص جامعہ پشاور کا ’فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ‘ توجہ کرے گا۔ دیگر ادارے جن میں ذرائع ابلاغ کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا بھی شامل ہیں ’سٹی ایمجنگ‘ کو ’صحافتی عکاسی (فوٹو ویڈیو جرنلزم)‘ کا حصہ بنانے میں بھی اپنا اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حکومتی اُور نجی اداروں کی سطح پر ’ڈیجیٹل ایمجنگ‘ کی بطور صنف سرپرستی کرنے سے عالمی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع بھی موجود ہے بلکہ اِس سلسلے میں پاکستان خطے کا مرکز بن سکتا ہے۔

چھتیس سالہ مصور ’علی ساجد‘ کے لئے ’رنگ صرف باتیں اُور خوشبو ہی ماحول کو معطر نہیں کرتی بلکہ اِسی پیرایئے سے زندگی کے نشیب و فراز (عروج و زوال) جیسی حقیقتیں بھی بیان ہوتی ہیں۔‘ کسی فنکار کا یقین‘ حقیقت ہے کہ ۔۔۔ ’’جن معاشروں میں ’فنون لطیفہ‘ کی اہمیت کا احساس زندہ ہوتا ہے وہاں انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی اَفزائش نہیں ہو سکتی۔‘‘ پشاور کی ’در و دیواروں‘ سے چھلکتا ’امن‘ محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ پشاور شہر کا عجائب گھر ’گورگٹھڑی‘ کے اَحاطے میں ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز ہے تاہم اگر اِس کے ساتھ ’آرٹ گیلری‘ بھی قائم کر دی جائے‘ جس کی دیواریں نہ صرف ڈاکٹر غلام شبیر اُور علی ساجد جیسے بہت سے صاحبان نگاہ کے فن پاروں کا مستقل ’شوکیس‘ بن سکتا ہے بلکہ آرٹ گیلری کے ذریعے وقتاً فوقتاً مصوری و عکاسی کے مقابلوں کا انعقاد بھی کیا جاسکتا ہے تاکہ ’آج کے پشاور‘ کی رہی سہی خوبیوں اور شناختی علامات کے بارے غوروخوض اور انہیں محفوظ بنانے کے لئے جدید عصری علوم (وسائل) کا استعمال عملاً ممکن بنایا جا سکے۔ 

پشاور اگر خطے کا قدیم ترین اُور زندہ تاریخی شہر ہے تو صرف یہی ایک حوالہ (سند) کافی نہیں بلکہ یہاں کے رہنے والے جہاں کہیں بھی ہوں اُنہیں اپنے زندہ ہونے کا عملاً ثبوت دینا ہوگا اور جس شہر پر اجنبیوں کا راج میں بھلے طویل ہو چکا ہو لیکن اگر ’قدردانی‘ متعارف کرائی جائے تو اِس سلسلے میں مصوری اور فوٹوگرافی کے ذرائع مددگار ثابت ہو سکتے ہیں جن سے پشاور سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی رہے گی بلکہ پشاور کے بارے میں بہت سے منفی روئیوں (تاثرات) کی اِصلاح بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
۔
Appreciated the role of a water-colorist
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-11-13

No comments:

Post a Comment