Drawing board
سفر ہے شرط!
پاکستان کو آج جن گوناگوں مسائل کا سامنا ہے‘ اُن کا خلاصہ تین وجوہات کی صورت کرنا پڑے تو ’’سیاسی کلچر‘ طرزحکمرانی اور ادارہ جاتی بدعنوانی‘‘ ذمہ دار قرار پائیں گے۔ ہمارا سیاسی کلچر موروثی اور شاہانہ ہے اور جہاں کہیں بھی اِس قسم کا سیاسی ماڈل ہوتا ہے وہاں پانچ نمایاں چیزیں ہوتی ہیں۔ انتہاء کی غربت‘ صحت و تعلیم میں کم سرمایہ کاری‘ پانی بجلی اور انصاف کی عدم فراہمی‘ سیاسی جماعتیں جن میں داخلی سطح پر جمہوریت نہیں ہوتی اور سیاست سے جڑے موروثی شاہانہ سیاستدان جو انتہاء کے مالی فوائد حاصل کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں ایسی سیاست کی داغ بیل ڈالنے کی ضرورت ہے‘ جس میں بہترین اور موزوں افراد سیاسی عمل میں حصہ لیں۔ جو کچھ سردست ہمارے پاس ہے وہ سیاست دانوں سے ہرحال میں وفاداری کا اظہار کرنے والے گروہ ہیں جو اہلیت (میرٹ) کی بجائے شاہانہ مزاج رکھنے والی موروثی سیاست سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ہمیں سیاست میں ’سوچ بچار کرنے والے ایسے اہل افراد‘ کی ضرورت ہے جو ملک و قوم کی ترقی کے تصورات کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ فلپائن کی قانون ساز اسمبلی میں ایک مسودہ قانون (نمبر 3587) زیربحث ہے‘ تاکہ ملک سے موروثی سیاست کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اِس سلسلے میں ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کے پاس قواعد و ضوابط کی صورت اختیارات ہیں جن کا استعمال کرتے ہوئے وہ ملک میں سیاسی کلچر تبدیل کرنے میں ’حسب ضرورت‘ کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔
پاکستان میں طرزحکمرانی بھی اصلاح چاہتا ہے۔ گذشتہ 47برس میں ہمارے ہاں 10مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے۔ حالیہ مردم شماری (2017ء) کے عبوری نتائج کے مطابق پاکستان میں تین کروڑ (30.2 ملین) خاندان ہیں جن میں سے صرف ایک ہزار ایک سو چوہتر (1,174) ایسے خاندان بھی شامل ہیں جن سے تعلق رکھنے والے افراد ہر عام انتخاب میں منتخب ہوتے آ رہے ہیں اور یہ اِن ’سیاست پر مسلط‘ اِن گیارسو چوہتر خاندانوں کی پاکستان کے قانون ساز ایوانوں قومی اسمبلی صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ پر حکمرانی ہے۔
یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ گذشتہ 47 برس میں منتخب ہونے والے ہمارے سیاست دان اقتصادی ماہر ثابت نہیں ہوئے اور اُن کے غلط فیصلوں کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی مشکلات کم ہونے کی بجائے ہر گزرتے دن بڑھتی ہی چلی گئیں۔ یاد رہے کہ 47 برس میں منتخب ہونے والے ہمارے قانون ساز خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے۔ ہمیں ایسے پیشہ وروں اور بالخصوص متعلقہ شعبے کے ایسے ماہرین کی ضرورت ہے جو نظام اور اداروں کی اصلاح کرسکیں۔ اگرچہ سینتالیس برس میں ہم نے دس مرتبہ عام انتخابات کا تجربہ کیا لیکن اِس عرصے میں احتساب اور جمہوری حکومتوں کی عوام کے سامنے جوابدہی ممکن نہیں بنا سکے۔ عام انتخابات کے پے درپے تجربات سے ہم نے جو کچھ حاصل کیا وہ ایک تہائی جمہوریت ہے جبکہ ہماری ضرورت سوفیصد جمہوریت کی ہے کہ جس سے کچھ بھی کم ہمارے لئے کافی نہیں ہوسکتا۔
پاکستان میں احتساب کے اداروں کی کمی نہیں اور پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں انسداد بدعنوانی کا ادارہ جاتی ڈھانچہ موجود ہے۔ جن میں نیشنل اکاونٹی بیلٹی بیورو (نیب)‘ فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اُور صوبائی سطح پر بھی انسداد بدعنوانی کے ادارے بھی شامل ہیں جن میں خیبرپختونخوا احتساب کمیشن‘ وفاقی محتسب‘ فیڈرل ٹیکس محتسب‘ محتسب اعلیٰ پنجاب‘ بلوچستان اور سندھ‘ بینکنگ محتسب‘ وفاقی انشورنس محتسب‘ خواتین کے خلاف ہراساں کرنے کے واقعات کے سدباب اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لئے وفاقی محتسب کا ادارہ موجود ہے۔ جب ہم ادارہ جاتی احتساب کی بات کرتے ہیں تو یہ عمل قانون سازی‘ قانون پر عمل درآمد کرنے والے اداروں (فزیکل انفراسٹکچر) اور ایک ایسی قیادت کا مجموعہ ہوتا ہے جو احتساب کو یقینی بناتے ہیں لیکن ہمارے ہاں احتساب کا عمل قانون سازی اور اداروں کی حد تک تو دکھائی دیتا ہے لیکن اِس کے عملی و بلاامتیاز اطلاق کو ممکن بنانے کے لئے قائدانہ سرپرستی (قوت ارادی) موجود نہیں۔
مؤثر سیاسی قیادت سے مقصود اجتماعی مفادات کا تحفظ اور سیاسی قوت ارادی ہوتی ہے۔
علوم و فنون کے ترقی یافتہ دور میں کسی بھی ملک کو عروج کی راہ پر گامزن کرنا قطعی مشکل نہیں رہا۔ ضرورت اِس امر کی ہوتی ہے کہ کسی ملک میں جمہوریت ہر سطح پر فعال ہو۔ سیاسی جماعتوں کے داخلی معاملات بھی جمہوری انداز میں طے پائیں۔ قانون سازی کرنے والوں کی ذات میں اختیارات محدود نہ ہوں۔ اقتدار صرف اور صرف اختیارات حاصل کرنے کا نام نہ رہے۔ اقتدار کرنے والے قانون و احتساب سے بالاتر نہ ہوں۔ ادارے اپنے وجود کا ثبوت عملی فعالیت سے دیں۔
پاکستان کے تناظر میں کیا یہ سب کچھ ممکن نہیں؟
کسی ملک کے عروج کے لئے سیاسی قوت ارادی‘ متعلقہ شعبوں کے ماہرین‘ ایک لائحہ عمل اور اُس کے اطلاق کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر پاکستان کے تناظر میں کسی ایک چیز کی کمی دکھائی دیتی ہے تو وہ ’سیاسی قوت ارادی‘ ہے۔ کیا آپ اِس سیدھے سادے نتیجۂ خیال سے اِتفاق کرتے ہیں؟
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
We are where we are because of three things: our political culture, our model of governance and lack of institutionalised accountability. Our political culture is dynastic and dynastic politics across the world has five notable outcomes: high levels of poverty; underinvestment in education and health; the state fails to provide basic services (water, electricity and justice); political parties lack internal democracy; and financial rewards to dynastic politicians are extremely high.
ReplyDeleteWe need competition in politics to let the best people rise. What we have is elevation based on loyalty to dynasties as oppose to merit. We need fresh minds to lead. The bicameral congress of the Philippines is debating House Bill 3587 or the Act Prohibiting the Establishment of Political Dynasties. House Bill 3587 “proposes to limit clans from building political dynasties by prohibiting relatives up to the second degree of consanguinity to hold or run for both national and local posts in successive, simultaneous and overlapping terms”. The Election Commission of Pakistan ought to take on the restructuring of our political culture.
Next: our model of governance. We have had 10 elections over the past 47 years. There are 30.2 million families in Pakistan (Census 2017). Of these, there are 1,174 families who have routinely taken part – over and over again – in the past 10 elections. Members of these 1,174 families continue to occupy 1,174 seats in the Senate, the National Assembly and the provincial assemblies.
For the record, over the past 47 years, our elected legislatures have been extremely poor managers. For the record, over the past 47 years, our elected legislatures have failed to deliver. We need professionals, subject specialists and domain experts as managers and elected legislatures as part of oversight committees. Simple, isn’t it?
ReplyDeleteNext: institutionalised accountability. Democracy is about three things: elections, accountability and responsive governance. We have had 10 elections over the past 47 years but our democracy is completely devoid of both accountability and responsiveness. All that we have is one-third of democracy. We need more democracy, not less.
For the record, Pakistan has one of the largest anti-corruption infrastructures in the world: the National Accountability Bureau (NAB), the Federal Investigation Agency (FIA), an Anti-Corruption Establishment in all four provinces, the Khyber Pakhtunkhwa Ehtesab Commission, the Wafaqi Mohtasib, the Federal Tax Ombudsman, Mohtasib-e-Aala offices in Punjab, Balochistan and Sindh, the Banking Mohtasib, the Federal Insurance Ombudsman and the Federal Ombudsman for the Protection of Women against Harassment at Workplace.
Institutionalised accountability means three things: legislation, physical infrastructure and leadership. Our accountability mechanism has two things: legislation and physical infrastructure. The only thing that is missing is leadership. And effective leadership is all about political intent (there’s no shortage of talent in this country). Simple, isn’t it?
In this day and age, taking a country forward is no rocket science. We need to enforce internal democracy within our political parties, detach elected legislatures from executive authority and institutionalise accountability. Simple, isn’t it?
In this day and age, taking a country forward is about four things: political intent, domain specialists, a roadmap and an implementation mechanism. The only element that is lacking in the land of the pure is political intent. Simple, isn’t it?