ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محرومِ مراتب!
طب کے شعبے میں ’بیچلرز آف ڈینٹسٹری (بی ڈی ایس)‘ کا تعلق منہ اور دانتوں کے امراض سے ہے اور اِس کی سند ’ایف ایس سی‘ کے بعد ’چار سالہ کورس‘ اور ’ایک سالہ‘ عملی تربیت (ہاؤس جاب)‘ کے مکمل کرنے پر طلباء و طالبات کو دی جاتی ہے۔ انسانی صحت میں دانتوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کیونکہ صحت مند مسوڑوں اور دانتوں عمومی جسمانی صحت کا انحصار رہتا ہے۔
دانتوں کی صفائی اُور دیکھ بھال کے بارے میں اسلام کے ہاں بھی خصوصی احکامات ملتے ہیں‘ جن میں مسواک کے استعمال کی بطور خاص تلقین شامل ہے۔ دانتوں کی تعلیم اور بعداز تعلیم متعلقہ ڈاکٹروں کو پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیم کے مواقع اُور اُن کی خدمات سے کماحقہ استفادہ کے حوالے سے امور صوبائی حکومت کی توجہات کے متقاضی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا میں تین سرکاری (پبلک) ڈینٹل کالجز ہیں جن میں ’خیبر کالج آف ڈینٹسٹری پشاور‘ باچا خان ڈینٹل کالج مردان اور ایوب میڈیکل کالج (ڈینٹل سیکشن) ایبٹ آباد‘ شامل ہیں جہاں بالترتیب پچاس‘ پچیس اور پچیس طلبہ و طالبات کو ہر سال داخلہ دیا جاتا ہے جبکہ نجی شعبے میں چھ ڈینٹل کالجز ہیں‘ اِن میں سردار بیگم ڈینٹل کالج پشاور (75 طلبہ سالانہ)‘ فرنٹیئر میڈیکل کالج ( 50 طلبہ سالانہ)‘ پشاور ڈینٹل کالج ( 50 طلبہ سالانہ)‘ ویمن میڈیکل کالج (50 طالبات سالانہ)‘ ایبٹ آباد انٹرنیشنل میڈیکل کالج (50 طلبہ سالانہ) اور ’رحمان کالج آف ڈینٹیسٹری پشاور‘ میں سالانہ 50 طلبہ کو داخلے دیئے جاتے ہیں۔ یوں خیبرپختونخوا میں سالانہ تقریباً ’425 طلباء و طالبات‘ ڈینٹل کی تعلیم کا وہ اِبتدائی مرحلہ عبور کرتے ہیں‘ جس کے بعد اِس شعبے میں اعلیٰ تعلیم کے مزید مراحل بھی مکمل کئے جاتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قریب ’تین کروڑ آبادی‘ کے لئے خیبرپختونخوا میں ’ڈینٹل ایجوکیشن‘ کے مواقع (حسب آبادی و ضرورت) کم ہیں اور سرکاری سرپرستی میں ’ڈینٹل کالجز‘ کی تعداد اُور نشستوں میں کم سے کم اِس قدر اِضافہ ہونا چاہئے کہ سرکاری اُور نجی شعبے میں زیرتعلیم طلباء و طالبات کی تعداد مساوی ہو جائے۔
فی الوقت ’سرکاری کالجز‘ میں ایک سو اُور نجی کالجوں میں سالانہ ’تین سو پچیس‘ طلباء و طالبات زیرتعلیم رہتے ہیں جبکہ ’ایم بی بی ایس‘ میں طلباء و طالبات کی سالانہ مجموعی تعداد 1800 ہے۔ دوسری اہم ضرورت ’ڈینٹل کالجز‘ سے فارغ التحصیل اور ایک سال کی عملی تربیت (ہاؤس جاب) مکمل کرنے والے ’ڈاکٹروں‘ کا موازنہ اگر میڈیسن بیچلر آف سرجری (ایم بی بی ایس) خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ حسن اِتفاق ہے کہ خیبرپختونخوا میں علاج معالجے کی ضلعی سطح پر سہولیات کے نگرانوں (ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز) کی تعیناتیاں کرتے ہوئے نظر انتخاب ہمیشہ ’اِیم بی بی ایس‘ ڈاکٹروں پر ہی ٹھہرتی ہے! جس سے ’بی ڈی ایس‘ ڈاکٹروں میں ایک خاص قسم کا ’احساس محرومی‘ پایا جاتا ہے اور وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اُنہیں بھی یکساں مقام دیا جائے۔
خیبرپختونخوا میں ’ڈینٹل اِیجوکیشن‘ کا شعبہ جن چند بنیادی مسائل سے دوچار ہے اُن میں سرکاری و نجی کالجوں کا الگ الگ معیار تعلیم بھی ہے۔ سرکاری کالجوں کا الحاق ’خیبرمیڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو)‘ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے اُن کے امتحانات کی براہ راست نگرانی اور مارکنگ ’کے ایم یو‘ کرتا ہے جہاں تعلیم و قابلیت کے مطابق دیئے جانے والے نمبر نجی کالجوں کے مقابلے کم ہوتے ہیں۔
نجی کالج اپنے طلباء و طالبات کی قابلیت کا تعین چونکہ خود کرتے ہیں‘ اِس لئے اُن کے ہاں زیرتعلیم طلبہ اِمتیازی نمبروں سے کامیاب قرار پاتے ہیں اُور ملازمتوں میں نمبروں کی بنیاد پر میرٹ طے ہونے کی وجہ سے سرکاری کالجوں سے تعلیم حاصل کرنے والے پیچھے لیکن نجی کالجوں والے آگے نکل جاتے ہیں لہٰذا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ نجی کالجوں کا اِلحاق بھی ’’خیبرمیڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو)‘‘ سے کیا جائے تاکہ ڈینٹل کے شعبے میں زیرتعلیم طلباء و طالبات کے مابین یکساں مقابلے کی فضاء پیدا ہو اُور ’ڈینٹل تعلیم‘ کا معیار بلند ہو۔ ڈینٹل کالجز کا امتحانی نگران ادارہ ’کے ایم یو‘ ہونا چاہئے اور امتحان کا مرکزی نظام (سنٹرلائز) ہونا چاہئے۔ اِسی طرح خیبرپختونخوا کے میدانی اور بالائی علاقوں میں موسموں کا فرق ہے‘ جس کی وجہ سے میڈیکل و ڈینٹل کالجز کے نصابی سال الگ الگ تاریخوں پر شروع اور ختم ہوتے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ میدانی و بالائی (پہاڑی) علاقوں کے لئے الگ الگ نگران میڈیکل یونیورسٹیز مقرر کی جائیں کیونکہ میدانی علاقوں میں چار ماہ جبکہ پہاڑی علاقوں میں ڈیڑھ سے دو ماہ کی تعطیلات ہوتی جس کی وجہ سے میدانی علاقوں کے طلباء و طالبات کو تیاری کے لئے زیادہ وقت (فرصت) میسر آتی ہے۔ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت کو ہزارہ ڈویژن کے لئے الگ میڈیکل یونیورسٹی کے قیام کا جلد اعلان کرنا چاہئے جو عرصہ دراز سے زیرغور ہے اور ایک قابل عمل منصوبہ ناگزیر وجوہات کی بناء پر سردخانے کی نذر کردیا گیا ہے۔ سیاسی فیصلہ سازوں کو عقاب کی نظر سے معاملہ اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا کیونکہ افسرشاہی (بیوروکریسی) نہ تو کسی کے آگے جوابدہ ہے اور نہ ہی اُسے آئندہ عام انتخابات یا کسی بھی مرحلے پر کارکردگی کے احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی جانب سے رواں برس (دوہزارسترہ کے لئے) میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں داخلے کے لئے کم سے کم نمبروں کی شرط ’’83.4 فیصد‘‘ مقرر کی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں اِس اہلیت پر پورا اُترنے والے ہزاروں طلبہ و طالبات باوجود خواہش و کوشش بھی داخلہ حاصل نہیں کر رہے تو یہ بات صوبائی حکومت کے لئے چیلنج ہونی چاہئے کہ طب کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند ہزاروں طلباء و طالبات کے لئے ’میڈیکل کے متعلقہ شعبوں میں تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔‘ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مالی سکت رکھنے والے ہی نجی میڈیکل کالجز میں داخلہ لے سکتے ہیں! کرپشن (مالی بدعنوانیوں) بھی اس لئے عام ہیں کیونکہ معاشرے میں ہر خوبی حتی کہ تعلیم بھی خریدی جا سکتی ہے!
اے کاش تعلیم کاروبار اور صنعت نہ ہوتا۔ کیا صوبائی مالیاتی ادارے ’بینک آف خیبر‘ کے ذریعے ’اعلیٰ تعلیم کے لئے بناء سود قرضہ جات کا اجرأ‘ نہیں کیا جاسکتا؟ اگر ہم اپنی نوجوان نسل پر بھی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں تو کیا سڑکیں‘ گلیاں اور نالیاں تعمیر کرنے سے ہمارا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے؟
۔
No comments:
Post a Comment