Potpourri
کشکول
پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے تین وزرائے اعظم اِس وقت میدان میں ہیں۔ سب سے پہلے نوازشریف ہیں جنہیں اب بھی وزیراعظم سمجھا اور پکارا جاتا ہے۔ دوسرے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہیں جنہیں بالحاظ عہدہ وزیراعظم پاکستان منتخب کیا جاچکا ہے اور وزارت عظمی کے لئے تیسرے متمنی اُمیدوار شہباز شریف ہیں جن کے نام اور حوالے کے ساتھ وزیراعظم کا لقب لگایا جاتا ہے اور نواز لیگ میں ایک خاص طبقہ ایسا ہے جو اُنہیں پارٹی کی مرکزی قیادت اور وزارت عظمیٰ پر فائزدیکھنے کا خواہشمند ہے۔ اِس پورے معاملے سے ایک دلچسپ صورتحال نے جنم لیا ہے۔ سردست بلحاظ عہدہ شاہدخاقان عباسی اور متمنی وزیراعظم شہباز شریف نے مل بیٹھ کر ایک حکمت عملی بنائی ہے جسے ’’لاہور پلان‘‘ کہا جاتا ہے اور اِس حکمت عملی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قومی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کی بجائے مفاہمت کی راہ اختیار کی جائے تاکہ نہ صرف نوازلیگ کا شیرازہ بکھرنے سے بچایا جائے بلکہ پارٹی کو ملنے والی موجودہ اور آئندہ عام انتخابات میں پہلے سے بہتر پارٹی کارکردگی کو ممکن بنایا جا سکے۔ نواز لیگ میں سیاسی مفاہمت کا تصور رکھنے والے گروپ کے مقابلے سابق وزیراعظم نوازشریف اُور اُن کی صاحبزادی نے بھی ایک حکمت عملی بنائی ہے جسے ’’لندن پلان‘‘ کہا جاتا ہے جو ’’لاہور پلان‘‘ کے بالکل متضاد چاہتاہے کہ اداروں کے ساتھ اُس حد تک محاذ آرائی کی جائے جس حد تک اُنہیں اکسایا جائے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں ’’لندن پلان‘‘ ٹکراؤ کی راہ پر آگے بڑھتا اور نوازلیگ کا موجودہ لائحہ عمل دکھائی دیتا ہے۔
قانون ساز قومی اسمبلی میں حکمراں جماعت ’نوازلیگ‘ سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کی تعداد 188 ہے جن میں 8 ’لندن پلان‘ کی حمایت کر رہے ہیں اور باقی ماندہ 180 ’لاہور پلان‘ یعنی مفاہمت کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔
مفاہمت کی سیاست دانشمندی ہے جس میں طرزحکمرانی کارکردگی اور اداروں کی بہتری‘ فعالیت اور اُن کی مضبوطی پر استوار ہوگی جبکہ ٹکراؤ کی سیاست کا نظریہ شخصیت کے گرد گھومتی سوچ کا نام ہے۔ مفاہمت مثبت اور ٹکراؤ کو منفی سیاست بھی کہا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے موجودہ بلحاظ عہدہ وزیراعظم برطانیہ کے دورے پر ایک عام شخص کی طرح جاتے ہیں۔ اُن کے ساتھ پروٹوکول نہیں ہوتا۔ وہ کسی عام مسافر کی طرح طیارے میں سفر کرتے ہوئے لندن پہنچتے ہیں جہاں سرکاری گاڑیاں اُن کی منتظر نہیں ہوتیں اور وہ ٹیکسی کے ذریعے ائرپورٹ سے قیام گاہ (ہوٹل) جاتے ہیں۔ وہ اپنے قیام و طعام کے اخراجات اپنے کریڈٹ کارڈ سے اداکرتے ہیں۔ یہ سبھی باتیں مثبت سیاست کی نشانی ہیں جن میں پاکستان کے وسائل کا استعمال نہ کرکے ایک عمدہ و اچھی مثال قائم کی گئی ہے۔
نواز شریف ہمیں ’جارحانہ موڈ‘ میں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنی پسند و ناپسند سے کام لیتے ہیں جس سے نظام تہہ و بالا ہونے کا اُنہیں کوئی اندیشہ اور تفکر نہیں۔ نواز شریف سہولیات (اقتدار) کے متمنی ہیں اور وہ بھی صرف اور صرف اپنی ذات کے لئے۔ اسی طرح ہمیں نوازلیگ کی اولین ترجیح یہی دکھائی دیتی ہے کہ وہ ’نوازلیگ‘ کو اکٹھا رکھ سکیں اور اُن کی جانب سے پارٹی کے منتخب اراکین کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ نواز لیگ پر چھائے ہوئے سیاہ بادل چھٹ رہے ہیں لیکن جب ہم احتساب عدالتوں میں مقدمات کی نوعیت اور اِن پر سماعت کے حوالے سے پیشرفت دیکھتے ہیں تو صورتحال اُلٹ دکھائی دیتی ہے کہ بجائے بادل چھٹنے کے ہمیں سیاہ بادلوں میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یقیناًآنے والے دنوں میں نواز لیگ کے لئے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
شاہد خاقان عباسی اور اُن کی سربراہی میں وفاقی کابینہ نے اِس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ پاکستان کو ایک مثالی طرزحکمرانی دینا چاہتے ہیں یا پھر اُن کے اقتدار کا مقصد صرف اور صرف نواز شریف اور اُن کے اہل خانہ کا دفاع ہے۔ سردست ریاست بنام نواز شریف مقدمات عدالتوں میں زیرسماعت ہیں اور ریاست نوازشریف کی جانب واضح جھکاؤ رکھتی ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو ثابت اور فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ ہیں یا نوازشریف کے ساتھ جبکہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔
پاکستان کی سیاست اُس مقام پر آکھڑی ہوئی ہے جہاں شخصی مفادات قومی مفادات پر حاوی دکھائی دیتے ہیں۔ ریاست خود ریاستی اداروں سے ٹکراؤ جیسی کیفیت سے دوچار ہے۔ ہمیں تین قسم کے مفادات آپس میں متصادم دکھائی دیتے ہیں۔ نوازشریف اور اُن کے اہل خانہ کے مفادات‘ نوازلیگ کے بطور ایک سیاسی جماعت مفادات اور تیسرا قومی مفادات۔ اِسی طرح ہمیں نواز شریف کے سامنے چار آپشنز دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں ایسی ترامیم لائی جائیں جن سے اُن کے خلاف ہونے والی عدالتی کاروائیوں کو روکا جا سکے۔ اپنے خلاف کام کرنے والے ادارے اور شخصیات کے اختیارات بذریعہ قانون سازی کم کئے جائیں تاکہ وہ انہیں نقصان نہ پہنچا سکیں۔ ماڈل ٹاؤن کیس اور حدیبیہ کیس سر پر لٹکنے والی تلواریں ہیں جن کے ممکنہ خطرات سے خود کو بچایا جائے اور جب وہ یہ سب کرتے ہیں تو ہمارے سامنے بطور وزیراعظم ایک نئے کردار یعنی شہباز شریف کا نام آتا ہے۔
بغور دیکھا جائے تو پاکستان کی جمہوریت ’اشرافیہ (elite)‘ کے گرد حکومتی ہے جس میں ملک کے کم و بیش 21 کروڑ پاکستانیوں کے لئے کچھ نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہمیں حکومت کی بجائے اصلاح اور اقتصادی بہتری کے اعشاریئے ملتے جن سے 21کروڑ پاکستانیوں کی زندگی میں بہتری لانے کی کوششیں کی جاتیں۔ سردست موروثی (exlusionary) سیاست قابل عمل سمجھی جا رہی ہے جبکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ شخصیات کے گرد گھومتی ہوئی ’موروثی سیاست‘ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیا جائے اور اُس طرزحکمرانی کو دفن کر دیا جائے جس میں پاکستان کے قومی مفادات اور اِس کے 21کروڑ عوام کے لئے کوئی نوید نہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین امام)
The PML-N is currently fielding three prime ministers: the de-facto PM (Nawaz Sharif), the de-jure PM (Shahid Khaqan Abbasi) and the PM in-waiting (Shahbaz Sharif). The de-jure PM (SKA), along with the PM in-waiting (SS), hatched out the ‘Lahore Plan’ – a reconciliation plan. The de-jure PM (SKA) along with the PM in-waiting (SS) went to London to meet with the de-facto PM (NS). The ‘London Order’ completely blasted the ‘Lahore Plan’.
ReplyDeleteWithin the PML-N, there’s a confrontation block and a reconciliation block. The de-facto PM (NS), along with his daughter, leads the confrontation block. Of the 188 PML-N MNAs in the National Assembly, eight are in the confrontation block (the other 180 are in the reconciliation block).
The de-jure PM’s model of governance is institution-based as opposed to the de-facto PM’s personality-based governance. To be certain, challenges abound – serious ones on the economic front and even more serious ones on the external front. The de-jure PM’s institution-based decision-making is the positive dimension of the current transitory set-up.
Yes, the de-jure PM travelled to London as an ordinary citizen with no protocol and then used public transport from the airport to the hotel. Imagine, the de-jure PM paid for the hotel using his personal credit card. These are other positive dimensions of the current transitory set-up.
ReplyDeleteMoving into the future, the de-facto PM (NS) is bent upon smashing the system via firing and hiring. Moving into the future, the de-facto PM (NS) wants his cake and eats it too. Moving into the future, the PML-N hierarchy’s top-most priority is to keep the party intact. As a consequence, the message that the PML-N’s top hierarchy is sending to its MNAs is that the dark clouds over the party are dispersing and that they should not abandon the party. The message coming out of the accountability court, however, is that the clouds are actually getting thicker.
The de-jure PM’s cabinet is unable to decide if it wants to govern Pakistan or just focus on defending the de-facto PM and his family. The current criminal proceedings are ‘State vs Mian M Nawaz Sharif & others’. The de-jure PM would have to decide if the PML-N government is with the State or with ‘Mian M Nawaz Sharif & others’. Time is running out.
The so-called ‘London Order’ failed to address the all-important succession issue. The de-facto PM is bent upon using the PML-N platform to confront state institutions. For the PML-N as a political entity, there’s a clear-cut clash of interests – the Sharif family’s interests, the party’s interests and the national interests. The de-facto PM (NS) has four options: face the courts; mobilise public support to scuttle the court proceedings; change the laws under which he is proceeded against; or dilute the powers of whoever acts against him. Meanwhile, the Model Town Report and Hudaibiya are the two swords waiting to come out. And when they do, there will be a new PM in-waiting (CN).
This is elite democracy at its best. There’s nothing in it for the 210 million Pakistanis. What matters the most for the 210 million Pakistanis is economics – an economy that is racing to a tipping point. But everyone in the corridors of power is only looking after his or her own economics. This is exclusionary politics at its best. And exclusionary politics must be laid to rest.