Saturday, November 4, 2017

Nov 2017: Abbottabad Documents!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام

اِیبٹ آباد: دستاویزات!

امریکہ کے خفیہ اِدارے ’سنٹرل انٹلی جنس (سی آئی اے)‘ کی جانب سے سینکڑوں ہزاروں دستاویزات (تحریریں‘ تصاویر اُور ویڈیوز) جاری کرنے کے ’درپردہ مقاصد‘ کی ایک طویل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے‘ جس کا ایک محرک یہ بھی ہے کہ پاکستان کے بارے وہ بحث پھر سے زندہ ہو جائے جو ’دو مئی دوہزار گیارہ‘ کو سمندر میں بہا دی گئی تھی! ہر چند برس بعد ’بن لادن کی باقیات‘ منظرعام پر لاکر امریکہ نے اُس ایک کردار کو لافانی بنا دیا ہے‘ جس کی تخلیق اور خاتمے کا اعزاز (گولڈ میڈل) اُسی کے نام ہے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ ’بن لادن‘ کے افکار و نظریات اور اُس کی ذات محو نہ ہو پائے جسے سراپا سلامتی کے مذہب سے منسوب رکھا جا سکے۔ 

امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان کے بارے وہ دنیا کو یہ باور کرا سکے کہ یہ اسلامی جمہوریہ انتہائی مطلوب دہشت گردوں کا مرکز رہا ہے اور عالمی سطح پر ’اِنسداد دہشت گردی‘ صرف اور صرف امریکی کوششوں کی مرہون منت ہے! جب اَمریکہ کی فوجی اُور سیاسی قیادت یہ کہتی ہے کہ اُنہوں نے ’بن لادن‘ کو ڈھونڈ نکالا تو وہ ’’ڈو مور (do-more)‘‘ مطالبے کے ذریعے یہ تاثر بھی دیتی ہے کہ انتہاء پسندی اور دہشت گردی جیسی انتہاؤں پر یقین کرنے والی ’بن لادن‘ کی باقیات اور نظریات کا مرکز ’پاک سرزمین‘ہے جہاں آج بھی ایسے ’آتش فشاں‘ پائے جاتے ہیں جو اگر لاوا اگلنا شروع کریں تو پوری دنیا کے امن کو تہس نہس کر سکتے ہیں! حالانکہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جدید ہتھیاروں کی ایجاد و استعمال میں پہل کے ساتھ امریکہ نے دنیا کو وسیع و عریض میدان جنگ میں تبدیل کردیا ہے اور آج کی دنیا تعلیم و تحقیق سے لیکر معاشی و سماجی حیثیتوں میں زوال پذیر ہے کہ اگر کوئی ملک یا گروہ امریکہ کی سیاسی و اقتصادی بالادستی (پر مبنی نظریات) کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا تو اُسے سنگین نتائج بھگتنے پڑتے ہیں!

تصور کیجئے ایک ایسی دنیا کا جس میں جوہری ہتھیاروں کو براعظموں اور خلاؤں میں وار کرنے اور روائتی ہتھیاروں کو زیادہ مہلک بنانے کی مہمات کا آغاز ہو چکا ہے۔ اَمریکی فضائیہ کے مرکز میں ’مادر آف آل بمز (Mother of All Bombs)‘ کی ایجاد ’سال دوہزار تین‘ میں مکمل ہوئی اُور اِنسانی تاریخ کے اِس سب سے وزنی (نوہزارآٹھ سو کلوگرام) اور سب سے لمبے (تیس فٹ ایک اعشاریہ پچھتہر انچ) بم کو ’13اپریل 2017ء‘ کے روز مشرقی اَفغانستان (صوبہ ننگرہار) کے ضلع اچین میں ’مامند‘ نامی گاؤں پر گرایا گیا‘ جو پاک افغان سرحدی علاقہ ہے۔ دنیا کے اِس سب سے وزنی اور لمبے بم کا استعمال کرنے کے باوجود بھی (افغانستان کے محاذ پر) داعش (اسلامک اسٹیٹ) کا خاتمہ نہ ہو سکا اور وہ آج بھی امریکہ‘ افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک میں اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہی ہے لیکن MOAB کی ایجاد نے غیرجوہری ہتھیاروں کی جس نئی دوڑ اور جس نئے دور کا آغاز کیا‘ وہ تشویشناک ہے۔ ’سال دوہزار سات‘ میں ’مادر آف آل بمز(MOAB)‘ کا جواب دیتے ہوئے ’روس‘ نے ’سات ہزار ایک سوکلوگرام‘ وزنی بم بنانے کا اعلان کیا جسے ’فادر آف آل بمز (Father of All Bombs)‘ کہا گیا اور اِس ’تھرموبیرک بم‘ کی یہ ’’خصوصیت‘‘ بطور خاص بیان کی گئی کہ یہ امریکی MOAB کی ’’گیارہ ٹن‘‘ کے مساوی دھماکہ خیزی کے مقابلے ’’چوالیس ٹن‘‘ بارود کے مساوی تباہی پھیلا سکتا ہے۔ روس نے اگرچہ FOAB کا ابھی تک استعمال نہیں کیا لیکن ظاہر ہے کہ چھوٹے روائتی و جوہری ہتھیاروں کی موجودگی میں اگر غیرجوہری بم ایجاد کیا گیا ہے تو یہ ایجاد کم سے کم ’نمائشی مقاصد‘ کے لئے تو ہرگز نہیں کی گئی ہوگی!

امریکہ وقت اور تاریخ کو روکنا چاہتا ہے اور اُس کی خواہش یہ بھی ہے کہ دنیا آگے بڑھنے کی بجائے مسلسل پیچھے مڑ کر دیکھتی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کا ’’سارا زور‘‘ آج بھی اِسی ایک نکتے پر مرکوز ہے کہ ’بن لادن‘ ایبٹ آباد چھاؤنی سے قیام پذیر رہا۔ یہ بات خود پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کے لئے بھی حیرت‘ پریشانی اُور ندامت کا باعث تھی جنہوں نے ’بن لادن‘ کے ہر نشان کو مٹانے کے لئے اُس سے منسوب عمارت تک مسمار کر دی لیکن شاید ابھی ’اَمریکی ایجنڈا‘ مکمل نہیں ہوا۔ یکم اور دو مئی دوہزار گیارہ کی درمیانی شب ’بن لادن‘ کی (ایبٹ آباد) رہائش گاہ سے قبضے میں لی گئیں دستاویزات کے ذخیرے کا دوسرا حصہ جاری کیا گیا ہے‘ جو ’سی آئی اے‘ کی ویب سائٹ (www.cia.gov) سے بلاقیمت ’ڈاؤن لوڈ (حاصل)‘ کیا جا سکتا ہے‘ تاہم سوال یہ ہے کہ اِن دستاویزات کی اہمیت کیا رہ گئی ہے جبکہ ’القاعدہ نامی اُس تنظیم کا شیرازہ بکھر چکا ہے‘ جس کا قیام خود امریکہ کی مالی سرپرستی سے ہوا؟ ’اثاثہ‘ قرار دیئے گئے جنگجوؤں کے ذریعے افغان محاذ پر روس کو شکست اور بعدازاں زیادہ تر آلۂ کاروں کو چن چن کر اُن کے منطقی انجام تک پہنچانا ’عالمی حاکمیت (ورلڈ آرڈر)‘ قائم رکھنے کی چال تھی! دنیا کو ’’جنگ کا میدان‘‘ بنانے والوں کے عزائم اُس وقت تک تروتازہ رہیں گے‘ جب تک (جنگ کے نتائج) برداشت کرنے والوں کی طاقت جواب نہیں دے جاتی!
آج کی تاریخ میں فاتح (کامیاب) کون ہے؟ 

کیا زخم خوردہ ’القاعدہ ذہنیت‘ کے حوصلے پست اور ’بن لادن‘ کی ہلاکت سے انہوں نے شکست تسلیم کر لی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ’ایبٹ آباد دستاویزات‘ میں پنہاں پیغامات اُور کسی دہشت گرد تنظیم کی قیادت کرنے کے رہنما اصول جاری کئے گئے ہیں!؟ کیا ’ایبٹ آباد دستاویزات‘ جاری کرنے سے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ میں فائدہ ہوگا؟ جیسا کہ MOAB سے خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی‘ اِسی طرح ’بن لادن‘ اپنی زندگی ہی میں القاعدہ تنظیم کو کم ترین فعال سطح پر لے گئے تھے۔ مجموعی طور پر القاعدہ ’سولہ برس‘ سے زائد عرصے میں امریکی سرزمین پر سوائے ’نائن الیون‘ کوئی دوسری بڑی کاروائی نہیں کر سکی جس کی وجہ امریکہ کا مضبوط داخلی دفاع ’ہوم لینڈ سیکورٹی‘ تھی لیکن اِسے محدود رکھا گیا اور آج بھی جبکہ ’ایبٹ آباد دستاویزات‘ جاری کی گئیں تو اِن کا تبادلہ بطور خفیہ معلومات اُن اتحادی ممالک بشمول پاکستان سے نہیں کیا گیا‘ جو انسداد دہشت گردوں کی باوجود سنجیدہ عملی کوششوں بھی وسائل کی کمی کے باعث الجھا ہوا ہے۔ 

ایبٹ آباد دستاویزات سے ثابت ہوا ہے کہ القاعدہ جنوب ایشیاء اور مغربی افریقہ کے ممالک میں پھیلتی چلی گئی اور اِس کے تربیت یافتہ جنگجوؤں نے کئی ایک تنظیموں کو جنم دیا‘ جن سے ’بن لادن‘ کے ساتھ رابطوں کا اِنکشاف ’ناقابل تردید ریکارڈ‘ کا حصہ ہے۔ انہی دستاویزات کی بدولت دنیا ’حمزہ بن لادن‘ کی شکل و صورت بھی پہچان گئی ہے کیونکہ سال 2015ء سے القاعدہ نے ویڈیو پیغامات جاری کرنے کا سلسلہ ختم کردیا تھا اور اِس عرصے میں بن لادن صرف ’صوتی (آڈیو)‘ پیغامات ہی جاری کرتے رہے جن کے ذریعے وہ ’جہادی حلقوں‘ میں اپنے جانشین بیٹے حمزہ کو متعارف کروایا لیکن القاعدہ کی جانب سے حمزہ کی کوئی بھی تصویر جاری نہیں کی گئی تاکہ اُن کی شناخت خفیہ رکھی جا سکے لیکن امریکہ نے ایک نئے بن لادن کو جنم دیا ہے۔ 

اٹھائیس سالہ ’حمزہ بن لادن‘ ایبٹ آباد میں امریکی فوجی کاروائی سے چند ہفتے قبل کسی دوسرے مقام پر منتقل ہو گیا تھا‘ جس کی زندہ و مردہ تلاش کرنے والے یہ کہتے ہوئے دنیا کو ایک مرتبہ پھر غیرمحفوظ ہونے کی اطلاع دے رہے ہیں کہ حمزہ بن لادن اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے عزائم رکھتا ہے! ’اَیبٹ آباد دستاویزات‘ میں ’228 صفحات‘ پر مشتمل ’بن لادن‘ کی تحریرکردہ ذاتی یاداشتیں بھی ہیں‘ جن میں عالمی حالات و واقعات اور بالخصوص عرب دنیا کی سیاست پر اُن کے تاثرات درج ہیں اور اِن سے معلوم ہوا ہے کہ ’القاعدہ‘ تیزی سے بدلتے حالات پر نظریں جمائے مواقعوں کی تلاش میں رہتی تاکہ کسی ملک کے داخلی انتشار سے فائدہ اُٹھا سکے۔
۔

No comments:

Post a Comment