ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
خالی ہاتھ!
خیبرپختونخوا میں سرکاری محکموں کے درمیان تیزرفتار ’خط و کتابت‘ اور کاغذ کے کم سے کم استعمال کے ذریعے متعارف کی گئی ’اِی گورننس‘ کی راہ میں ’تکنیکی رکاوٹیں‘ حائل ہیں۔ انٹرنیٹ پر بھروسہ کرنے والی ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ مؤثر حل تو ہے لیکن اِس کے متبادل کی ضرورت بھی شدت سے محسوس ہونے لگی ہے کیونکہ ’دس روز‘ سے برقی خط و کتابت (اِی میل سرور) منقطع ہونے کی وجہ سے سرکاری محکموں کے درمیان خط و کتابت معطل رہی‘ جس کی وجہ سے بھرے پیٹ اہلکار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں! سیاسی فیصلہ سازوں کے نزدیک ’اِی گورننس‘ ایک ایسے طرزحکمرانی کا نام ہے‘ جس میں صرف ایک مرتبہ ہی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے اور وہ بھی ’ہارڈوئرز‘ خریداری ہی اس میں سب سے اہم سمجھی جاتی ہے لیکن ایسا نہیں۔
خیبرپختونخوا میں ’اِنفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے آلات اُور متعلقہ دیگر خریداریوں میں گھپلوں کا نیا باب ایک عرصے سے وا بلکہ ’’واہ واہ‘‘ ہے۔ ماضی میں بھی اِسی قسم کی بدعنوانیاں اور منظم بے قاعدگیاں ہوتی رہیں اور اگر اِن کی حقیقت جاننا ہو تو یونیورسٹی (جمرود) روڈ پر ’گل حاجی پلازہ اور اِس کی بغل گلیوں میں پھیلے ایسے درجنوں ڈیلروں کے کاروبار پر نظر کیجئے جو لب سڑک ہی مقامی طور پر تیار کردہ اشیاء مختلف معروف کمپنیوں کے ٹھپے لگاتے پائے جائیں گے۔ اِسی طرح بیرون ملک سے استعمال شدہ (ری فربشیڈ) کمپیوٹر آلات کو نیا کرکے فروخت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں جن کے ہاں کمپیوٹرز کے خالی ڈبے‘ پیکنگ مٹیریل اور یوزرز مینول مل جاتے ہیں! یہ سب کچھ کھلم کھلا‘ دن یہاڑے ہو رہا ہے۔ کمپیوٹرز ڈیلرز نے معمولی تعلیم یافتہ سیلزمین رکھے ہوئے ہیں جو سرکاری دفتروں میں پھیلے رہتے ہیں اور نت نئے آلات کی حیلوں بہانوں سے ضرورت پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ کسی سرکاری دفتر کے انتظامی اہلکار کو بچوں کے لیپ ٹاپ‘ ڈرائینگ روم کے لئے بڑی سکرین والا ٹیلی ویژن‘ جدید فون اور آئی پیڈ جیسے آلات اگر تحفے میں مل رہے ہوں اور یہ کہا جاتا ہو کہ فلاں عالمی کمپنی کی جانب سے پروموشن کے لئے بھیجے گئے ہیں تو درحقیقت یہ درغ گوئی ہے۔ مثال کے طور پر ’ایچ پی‘ کمپنی والے کبھی بھی ’ایپل نامی کمپنی‘ کی مصنوعات تحفے میں نہیں دیں گے اور کمپیوٹر یا موبائل فون ساز ادارے اپنی جدید مصنوعات کے ماڈلز (ہارڈوئرز) نہیں بلکہ سافٹ وئر بلاقیمت فراہم کرتے ہیں اور اُنہیں ’بیٹا ورژنز‘ کہا جاتا ہے تاکہ صارفین استعمال کرکے اُن میں موجود نقائص دریافت کریں یا مزید سہولیات (فیچرز) کے اضافے سے متعلق اپنا ’اِن پٹ‘ دے سکیں!
انتظامی عہدوں پر فائز افراد کے ہاتھوں میں اُن کی ماہانہ اوسط تنخواہ سے زیادہ‘ بیش قیمت آلات دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ صاحب بہادر کے اگر ’’وارنے نیارے‘‘ ہیں تو کہیں اِس کا سبب کوئی بے قاعدگی یا بدعنوانی تو نہیں!؟
صوبائی حکومت اگر ’انسداد بدعنوانی‘ کے اہلکاروں کو ’گل حاجی پلازہ‘ اور اِس کے گردونواح میں ایک ہزار سے زائد کمپنیوں کے معاملات کے چھان بین کریں تو دلچسپ انکشافات ہوں گے جیسا کہ سرکاری دفاتر کو فراہم کئے جانے والے کمپیوٹرز میں لگایا جانے والے آلات واپس اِسی مارکیٹ میں کیسے فروخت ہوتے ہیں۔ جعلی اُور فرضی ناموں سے انٹرنیشنل برانڈ کے ’یو پی ایس‘ اور ’پاور اسٹیبلائزرز‘ بنانے والوں نے کس طرح یونیورسٹی ٹاؤن کے رہائشی علاقوں اور اپنے گھروں کے تہہ خانوں میں ’فیکٹریاں‘ لگا رکھی ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے قانونی طور پر درآمد ہونے والے کمپیوٹر آلات میں کس طرح ’ملاوٹ‘ کرنے کا گورکھ دھندا مہارت اور کامیابی سے جاری و ساری ہے اور یہ سبھی ’کالا کاروبار‘ دن دیہاڑے ہو رہا ہے‘ جس سے صرف خیبرپختونخوا کے سرکاری دفاتر ہی نہیں بلکہ جامعات بشمول پشاور یونیورسٹی کے اکاونٹس اور انتظامی عہدوں پر فائز افراد کی مالی حیثیت میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔ ہزاروں میں چند درجن بدعنوان عناصر کی شناخت اُور اُن کے خلاف ’سمارٹ کاروائی‘ کرنا بہت ہی آسان ہے۔ کسی بھی سرکاری ملازم کی کل مدت ملازمت اور اِس عرصے کے دوران اُس کو ملنے والی تنخواہوں اُور مراعات کا حساب کرکے خفیہ ذرائع سے اُس کے اثاثوں‘ رہن سہن اُور زیرتعلیم بچوں کے تعلیمی اَخراجات کے گوشوارے مرتب کئے جائیں‘ تو ’’دودھ کا دودھ‘‘ اُور ’’پانی کا پانی‘‘ ہو جائے گا۔
سردست قضیہ ’اِی میل سرور‘ سے رابطہ کاری معطل ہونے کا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ جس نجی (آئی ٹی) کمپنی سے یہ سہولت حاصل کی گئی تھی اُسے ایک لاکھ چونتیس ہزار روپے کی ادائیگی بروقت نہ ہونے کی وجہ سے ’اِی میل‘ رابطہ کاری معطل کر دی گئی۔ اِس سلسلے میں بارہا یاد دہانی کے نوٹسیز کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا اور اِس کی وجہ سے صوبائی محکموں‘ ڈائریکٹوریٹ اور اِن کے ذیلی دفاتر اور صوبائی حکومت کی بنائی ہوئی خودمختار کمپنیوں کی اِی میل رابطہ کاری روک دی گئی۔ اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں پیش آنے والا یہ معاملہ دس روز میں ’خوش اسلوبی‘ سے حل کر لیا گیا لیکن اِس سے ’خیبرپختونخوا‘ کے ’طرزحکمرانی‘ اُور ’اِنتظامی معاملات‘ کی قلعی ضرور کھل گئی‘ کہ کس طرح ’آئی ٹی‘ پر بھروسہ بھی کیا جا رہا ہے لیکن اُس کے تقاضوں اُور ذمہ داریوں کو اَدا کرنا بھی حسب حال پیش نظر نہیں۔ اصولی طور پر خیبرپختونخوا حکومت کا ’اِی میل سرور (برقی مکتوباتی نظام)‘ کسی نجی کمپنی کے حوالے ہونے کی بجائے ’اِنفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے ڈائریکٹوریٹ (حکومتی ادارے) کی ملکیت اور زیرنگرانی ہونا چاہئے تھا لیکن فیصلہ سازوں کو ایسی کسی بھی پراؤیسی کی کوئی فکر نہیں کیونکہ سیکرٹریز اور وزراء کی سطح پر اعلیٰ فیصلہ ساز سرکاری اِی میل کا استعمال ہی نہیں کرتے اور اُن کی زیادہ تر خط و کتابت کاغذی (فائلوں) یا پھر ذاتی اِی میل اکاونٹس کے ذریعے ہوتی ہے اور اب تو ’واٹس ایپ‘ کا زمانہ ہے! صوبائی حکومت نے سال 2014ء میں ایک ’ڈیٹا سنٹر‘ بھی بنایا جسے دو سال بعد صوبائی حکومت کی آفیشل ویب سائٹ سے جوڑتے ہوئے نجی کمپنی کے حوالے کر دیا گیا۔
تصور کیجئے کہ خیبرپختونخوا کے جملہ سرکاری محکموں کے اعدادوشمار اور اُن کی پبلک دستاویزات کی دیکھ بھال ایک نجی کمپنی کے پاس ہے جس نے نے اپنے کاروباری مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے بل (واجبات) کی بروقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی حکومت کی آفیشل ’اِی میل سرور‘ تک رسائی معطل کر دی‘ اِسی طرح وہ صوبائی ’ویب سائٹ‘ اور ’ڈیٹا‘ سے بھی وہی ’بے رحم سلوک‘ کر سکتی ہے‘ جو زیادہ بڑی پریشانی اُور صوبائی حکومت کے لئے بدنامی کا باعث بنے گا۔
۔
No comments:
Post a Comment